Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, October 2, 2018

اجتہاد کا تقلیدی منہج،نئے اندازِ تحقیق کی ضرورت۔

تحریر/ ذاکری اعظمی۔./  بشکریہ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
اگر ہميں فخر ہے كہ ہم فقہ كے ايک اسے درخشاں ورثہ كے امين ہيں جو اعلى بصيرت كے حامل علمائے کرام ومجتہدين عظام کى شبانہ روز کاوشوں کا ثمره ہے جس کى آبيارى ميں اسلام كے عهد زريں كے علم پرور حکرانوں کا اہم کردار رها ہے، تو دوسرى طرف اس عظيم ورثہ کى حفاظت کى ذمہ دارى بھى ہم ہى پر عائد ہوتى ہے تاكہ علم وتحقيق كے سوتے خشک ہونے كے بجائے بحث وتحقيق كے نئے زاوے وجود ميں آتے رہيں اور امت کو پيش آمده مسائل کى گتهيان سلجہاں ے  ميں مدد مل سكے. يہ امر اس بات کا متقاضى ہے كہ عصر حاضر من جنم لينے والے مسائل کو سمجهنے اور برتنے كے لئے ايک اسے جديد منہج کى داغ بيل ڈالى جائے جو ہمارے ماضى كے ورثہ كے تنقيدى جائزه ميں معاون ہونے كے ساتھ ساتھ حال ومستقبل كے إشکالات کا مناسب حل بھى پيش کرسكے.
 
فقہ اسلامی میں اجتہاد کا عمل ايک ايسا دانشوارنہ رويہ ہے جس کا رشته ماضى وحال دونون كے ساتھ وابستہ رہا ہے، جس کى بنياد عقل انسانى کى وه جولا نگاه ہے جہاں مسائل کو سمجهنے اور برتنے كے لئے مستقل بحث مباحثے عمل ميں آتے رہے ہيں. ايک اسے وقت ميں جب نت نئے مسائل اور چيلنجيز کى بهر مار ہو ہميں شدت سے اجتہاد کى اہمت ومعنويت کا قائل ہونا پڑے گا تاكہ صالح اقدار کى ترويج كے ذريعہ عمده اخلاق وکردار کى حامل شخصيت سازى کا عمل جارى وسارى ره سكے. اس ميں شک نہيں کا اخلاقيات کى تشکيل ميں قوانين کى پاسدارى کا اہم رول ہوتا ہے، مگر ہم اپنے فقہى ورثے پر نظر ثانى کئے بغير مطلوبہ هدف تک هرکز نہيں پہنچ سکتے.  

اصول فقہ اسلام كے اولين ماخذ يعنى کتاب وسنت سے احکام شريعت کشيد کرنے کا اہم ذريعہ ہے، اصول فقہ بحيثيت مستقل فن كے امام شافعى كے مبارک هاتہوں سے وجود ميں آيا، چنانچہ انکا رسالہ اصول فقہ کى اولين تصنيف شمار کيا جاتا ہے جس سے اس زمانے كے اکثر فقہاء نے بهر پور استفاده کيا، مگر آئنده صديوں ميں اجتہادى روے ميں انحطاط نے اس اہم فن کو بھى تجديد وتنقيح كے دائره سے خارج کرديا، بلكہ ظلم يہ ہوا كہ غير فقہى مسائعم ميں اس کا استعمال کيا جانے لکا.

يہ بات مسلم ہے كہ علم اصول فقہ اجتہاد كے بنيادى عناصر ميں سے ہے، باوجود اسكے كہ گذشتہ دو صديوں ميں اس فن سے دلچسپى ركھنے والے فقہاء کرام نے اس اہم فن کے فروغ كى کى جانب کافى توجه دى، مگر بد قسمتى سے جن محدود اغراض ومقاصد كے پيش نظر يہ فن وجود ميں آيا تها اس ميں اکثر مواقع پر وسعت ديکر بجائے مسائل كے استنباط كے سلسہ ميں فائده اٹهانے كے بے مقصد فلسفيانہ وکلامى جدليات تک پهيلا ديا گيا. ضرورت اس بات کى ہے كہ علم اصول فقہ جن اغراض ومقاصد كے لئے وجود ميں آيا تها انہيں حاصل كرنے كے لئے از سرو نو اسے جديد اسلوب ميں ڈهالا جائے تاكہ عصر حاضر كے مسائل کو سمجهنے اور حل کرنے ميں مدد مل سكے. ميرا كہنے کا هرکز يہ مطلب نہيں كہ اصول فقہ كے منہج کو يکسر تبديل کرديا جائے، بلكہ ميرى منشا يہ ہے كہ اصول فقہ كے اسلوب کو عصر حاضر كے مقتضيات سے ہم آهنگ کيا جانا چاہئے. موجوده علم اصول فقہ کا سب سے بڑا نقص يہ ہے كہ اپنے اولين زمانے ميں ہى علم کلام وفلسفہ سے غير ضرورى حد تک متاثر ہو گيا. نتيجة وه فن جو شريعت كے سمجهنے کا ايک ذريعہ تها بذات خود مقصد بن گيا. 

يہ بات مسلم ہے كہ اسلامى شريعت کا ماخذ اول يعنى نص قرآنى ثابت ہے، زمان ومکان كے تغير سے اس ميں تبديلى کا امکان نہيں، ليکن شريعت كے دوسرے ماخذ يعنى سنت رسول كے بارے ميں اصوليون کا خيال ہے كہ اگر معاملہ حکم شرعى کا ہو تو اس ميں تبديلى کى گنجائش نہيں، مگر سنت ميں پائے جانے والے بعض ايسے نصوص بھى ہيں جن کا تعلق احکام شريعت سے نہيں بلكہ تنظيمى اور توجيہى امور سے متعلق ہے تو ايسے احکام كے تعلق سے فقہاء کى معتدل رائے هيكہ مشہور قاعدة "لا ضرر ولا ضرر"  يا " ما جعل عليکم في الدّين من حرج" كے پيش نظر جو حالات كے اعتبار سے مناسب ہو اس پر عمل کيا جائے گا، اس لئے كہ "ضرر" اور "حرج" کا دائره خاص زمانى ومکانى محدوديت نہيں ركهتا.

اجتہاد کا عمل ان مصادر شريعت کى جانب رجوع کا متقاضى ہوتا ہے جن ميں سے بعض متفق عليہ ہوتے ہيں اور بعض مختلف فيہ. اکر قرآن حکيم ميں ہم غور وفکر کرين تو ہميں بہت سے عام فقہى قواعد مل جائين كے جو مسلمانون کى زندگى كے مختلف پهلووں کا احاطه کرتے ہوئے نظر آئين كے، اسى طرح قرآنى اصولون سے ہم آهنک سنت رسول ميں بھى بعض قرآنى اصولون سے مماثلت ركہنے والے عملى تجربات بھى مل جائين كے جو انسانى زندگى كے مختلف پهلووں پر محيط ہوں گے، مگر مؤخر الذکر کو اول الذکر کا ہم پلہ کسى صورت نہيں تسليم کيا جائے گا. مثال كے طور پر {وَلَا تَأْکلُوا أَمْوَالَکمْ بَيْنَکمْ بِالْبَاطِلِ}،  {يَسْأَلُونَک عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيہما إِثْمٌ کبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُہما أَکبَرُ مِنْ نَفْعِہما}، {فَإِمْسَاک بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَان}، {وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيکمْ إِلَى التَّهْلُکةِ} جيسى آيات قرآنى سے دفع ضرر اور حرج کا بنيادى قاعده مستنبط کيا جاسکتا ہے، ليکن مشکل يہ ہے كہ مروجه فقہى اجتہاد كے أسلوب کا دائرة بہت تنگ ہے بايں طور كہ فقہاء ہر نص کو اک خاص پس منظر ميں ديكهنے کى کوشش کرتے ہيں.  

عام طور پر يہ خيال کيا جاتا ہے كہ نص قرآنى اور صحيح احاديث دونوں مقدس نصوص کا درجہ ركهتے ہيں جن سے انحراف کى ادنى گنجائش نہيں، جب كہ تاريخى طور پر ہمارے فقہى ورثہ ميں بہت سے اجتہادى مسائل ايسے بھى مليں گے جن ميں مقدس نصوص كے بجائے تاريخ، تفسير اور علم کلام پر مکمل اعتماد کيا گيا ہے.

عام طور پر يہ غلط فہمى بھی پائى جاتى ہے كہ فقہ اور أصول فقہ پر تنقيد سے فقہ اور اسکى قانونى حيث متاثر ہوتى ہے، جبكہ سچائى يہ ہے كہ فقہ حقيقت مطلقہ کے درجہ ميں نہيں آتى جو تنقيد سے بالا تر ہو، اسى طرح فقہى اختلاف کا مطلب هر گز دين يا کلام رسول سے خروج كے مترادف نہيں ہے، اس لئے كہ فقہ اگر أيک طرف قواعد وضوابط کى جانب رہنمائى کرتى ہے دوسرى طرف نصوص کى توثيق يا انكى تفسير بھى کرتى ہے جسے فتوى يا ذاتى رائے كہا جاتا ہے بشرطيكہ وه رائے يا فتوى احکام شريعت کى روشنى ميں وقوع پذير ہو. البتہ دوسرى رائے ركهنے والے فقہاء  کو پورا حق ہے كہ اسے قواعد شريعت اور اصولى منہج کى روشنى ميں زير بحث لائيں.

خلاصہ کلام يہ كہ تنقح يا تجزيہ کا مطلب اسلام كے ثابت أصول جيسے قرآن، منصوص عليہ اسلامى اصول، يا وه اصول جو قرآن وسنت صحيحہ سے مستنبط ہوں انكے اور مسلمانون كے علمى ورثہ جيسے فقہ، تفسير، أصول فقہ، وتاريخ وغيره كے درميان فرق کو واضح کرنا اور عصر حاضر كے مسائل ميں انکى تطبيق ہے. لهذا ضرورت اس بات كہ ہے كہ موجوده اصول فقہ کى تجديد وتنقح كے ذريعہ فقہ اسلامى کو انفرادىت سے نکال کر اجتماعى دائره کار میں لایا جائے، اجتہاد کو انفرادى محدوديت سے نکال كر اجتماعى غور وفکر كے ماحول ميں لايا جائے جہاں  فقہاء كى ايک ما ہر جماعت اس عمل کو انجام دے تاكہ ہمارے معاصر مسائل كے تشفى بخش جوابات مل سکيں. چونكہ اجتہاد کا تعلق کسى خاص تهذيب، ماحول اور پس منظر سے ہوتا ہے لهذا اسکى حيثت انسانى قانون سازى سے چنداں مختلف نہيں جہاں  قوموں كے مفادات عامہ کو پيش نظر ركها جاتا ہے.