مولانا ندیم الواجدی کی تحریر۔(صدائے وقت)۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ازبکستان جو کبھی روس کا مقبوضہ علاقہ تھا، اب آزاد ہے، طالب علمی کے زمانے میں میرے کان جن چند شہروں کے نام سے آشنا ہوئے ان میں سمرقند، بخارا، خوارزم وغیرہ شہر بھی تھے، فقہی کتابوں میں ایک اور اصطلاح بھی پڑھی پڑھائی جاتی تھی ’’علماء ماوراء النہر‘‘، دریائے جیحون اور دریائے سیحون کا نام بھی سن رکھا تھا، اس وقت یہ پتہ نہیں تھا کہ یہ شہر، یہ علاقے اور یہ دریا کہاں واقع ہیں، کچھ بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ ان علاقوں پر تو کمیونسٹ قابض ہیں، اس جابرانہ تسلط کے دوران انھوں نے ان تاریخی شہروں سے ان کا دینی تشخص چھین لیا اور انہیں بے جان کرکے چھوڑ دیا، ہزاروں مسجدیں، مدرسے اور خانقاہیں تباہ وبرباد کردی گئیں، یا ان کو جوئے خانوں اور شراب گھروں میں تبدیل کردیا گیا، ستّر سال تک کمیونسٹ ان علاقوں کا خون چوستے رہے، اگر یہ لوگ افغانستان میں قدم نہ رکھتے اور وہاں کے غیور پٹھانوں سے پنجہ آزمائی نہ کرتے تو ہوسکتا ہے ان کے قبضے کا دورانیہ کچھ اور طویل ہوجاتا ، افغانستان کی جنگ میں شکست کھاکر روسی فوجیں اپنے ملک واپس پہنچیں تو انہیں ان ملکوں میں بغاوت کا سامنا کرنا پڑا جن پر وہ ستّر سال سے قبضہ کئے بیٹھی تھیں، روسی فوجوں میں اس بغاوت کو کچلنے کا حوصلہ نہیں تھا، ان کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ بھی نہیں تھا کہ وہ ان ملکوں کو خود مختاری دے کر اپنے قبضے سے آزاد کردیں جن پر وہ ناجائز طور پر قبضہ کئے بیٹھی تھیں، اس طرح کچھ ملک آزاد ہوئے جن کی آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی، ان ملکوں میں ایک ملک ازبکستان بھی ہے جسے دسمبر ۱۹۹۱ئ میں عملی آزادی ملی اور وہ آزاد جمہوری ملک کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھر کر سامنے آیا۔
ازبکستان وسط ایشیائی علاقے میں ایک نہایت زرخیز اور پُر فضا ملک ہے، اس کی سرحدیں مغرب وشمال میں قازقستان سے مشرق میں کرغستان اور تاجکستان سے اور جنوب میں افغانستان اور ترکمانستان سے ملی ہوئی ہیں، اس کا کوئی سمندر نہیں ہے، اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اس کے چاروں طرف جو ملک آباد ہیں وہ بھی سمندر سے محروم ہیں، یہاں ازبک زبان بولی جاتی ہے جو ترکی زبان سے ملتی جلتی ہے، روسی زبان بھی یہاں خوب بولی اور سمجھی جاتی ہے، یہاں کا سکہ سوم کہلاتا ہے جو بہت کمزور ہے، سو ڈالر میں آٹھ لاکھ سوم ملتے ہیں، ہندوستانی کرنسی میں ایک روپے کے بدلے ایک سو تیرہ سوم ملتے ہیں، گیس اور تیل خوب نکلتا ہے، روئی بھی خوب پیدا ہوتی ہے، ملکی معیشت کا دارومدار تیل اور روئی کی کاشت پر ہے، اب سیاحت کو بھی فروغ دینے کی کوششیں ہورہی ہیں۔
بڑے دنوں سے یہ آرزو دل میں مچل رہی تھی کہ ازبکستان کا سفر کیا جائے، جہاں سمرقند، بخارا، ترمذ، اور خیوا جیسے تاریخی علمی اور تہذیبی شہر واقع ہیں، چند سال پہلے تک ان ملکوں کا ویزا حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا، اب یہ صورت حال نہیں ہے، دنیا بھر میں ازبکستان کے سفارت خانے سیاحوں کو ویزا فراہم کررہے ہیں، ہوسکتا ہے آنے والے چند برسوں میں یہ ملک سیاحتی اعتبار سے فروغ پاجائے اور یورپ اورمشرق وسطی کے سیاح بھی اِدھر آنے لگیں، فی الحال سیاحوں کی آمد تو ہورہی ہے، لیکن اتنا ہجوم نہیں ہے جتنا ہم اپنے ملک میں دیکھتے ہیں، ویزا کے حصول، ازبکستان ایئرلائنز سے ٹکٹ کے اجراء سے لے کر اندرون ملک ہوٹلوں کی بکنگ اور ایک شہر سے دوسرے شہر میں آنے جانے کے لئے جہازوں اور ٹرینوں کے ریزرویشن تک کے تمام مراحل میرے لئے اس لئے آسان ہوئے کہ ان کی ذمہ داری امریکہ میں مقیم ہمارے ایک کرم فرما محترم عبد الوحید صاحب نے اپنے سر لی اور اس ذمہ داری کو خیر وخوبی کے ساتھ نبھایابھی، اس پورے سفر میں وہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ تھے، اس ملک میں وہ کئی مرتبہ آچکے ہیں، ایک اُردو بولنے والے گائڈ کی خدمات بھی ہمیں حاصل رہیں، جس سے بڑی سہولت ملی، نئی دہلی سے ازبکستان کی راجدھانی تاشقند کا سفر تین گھنٹے کا ہے، صبح سویرے ۷ بجے میں تاشقند کے ایئرپورٹ پر اترا تو کڑاکے کی سردی تھی، یخ بستہ ہوائیں چل رہی تھیں، ایئرپورٹ کے باہر ایک ٹیکسی ڈرائیور میرے نام کی تختی لئے کھڑا تھا، جلدی سے ٹیکسی میں بیٹھا، دس منٹ تک ٹیکسی تاشقند کی صاف شفاف اور وسیع وکشادہ سڑکوں سے گزرتی رہی، اس سفر کا اختتام ایک ایسی عمارت کے سامنے پہنچ کر ہوا جو کہیں سے بھی ہوٹل نہیں لگ رہی تھی، خوب صورت چوبی منقش دروازہ کھول کر میں اندر داخل ہوا تو منظر ہی الگ تھا، استقبالیہ سے گزر کر اپنے کمرے تک پہنچنے میں کم وبیش ۵ منٹ ضرور لگے اور یہ پانچ منٹ ہوٹل کی طویل وعریض راہ داریوں میں صرف ہوئے، عمارت میں داخل ہونے سے پہلے یہ خیال بھی نہیں تھا کہ اندر اتنی بڑی دنیا آباد ہوگی، جلدی جلدی کپڑے تبدیل کئے، فجر کی نماز پڑھی، اور ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں ناشتہ کرکے بلاتاخیر تاشقند کی سیر کے لئے روانہ ہوگئے۔
سب سے پہلے ہمیں ہمارا گائڈ ایک وسیع وعریض وکشادہ پارک میں لے کر گیا جہاں دوسری جنگ عظیم میں جرمنی فوجوں کے خلاف لڑنے اور شہید ہونے والے ازبکی باشندوں کے نام دیواروں پر کندہ ہیں، یہ پارک خیابان تیمور لنگ کہلاتا ہے، مقصد سفر اکابر علماء ومحدثین وفقہاء کی آرام گاہوں پر حاضری وغیرہ، مسجدوں اور مدرسوں اور خانقاہوں کی زیارت تھا، گائڈ کو اس سے آگاہ کردیا گیا تھا، اس لئے وہ جلدی ہی ہمیں ایک مقبرے پر لے کر پہنچا، یہ مقبرہ یہاں حضرت امام کے نام سے مشہور ہے، اس میں جو بزرگ دفن ہیں ان کا نام حضرت امام ابوبکر قفال شاشی ہے، شافعی فقہ کے بڑے ائمہ میں ان کا شمار ہوتا ہے، چوتھی صدی ہجری کے عالم ہیں، حافظ ابن صلاح فرماتے ہیں کہ شیخ قفال امام شافعیؒ کی فقہ کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے، انھوں نے امام شافعیؒ کی کتاب الرسالہ کی شرح بھی لکھی تھی، دلائل النبوۃ اور محاسن الشریعۃ بھی آپ کی کتابیں ہیں، مزار کے پاس پہنچ کر ہم نے کچھ قرآنی آیات پڑھیں اور ایصال ثواب کیا، مقبرہ کا احاطہ بہت وسیع وعریض ہے، اس میں ایک مدرسہ بھی واقع ہے، ایک بڑی مسجد بھی، اور ایک ایسی عمارت بھی جہاں دستکاری سکھلائی جاتی ہے، اور اس کے نتیجے میں جو چیزیں تیار ہوتی ہیں ان کو فروخت بھی کیا جاتا ہے، یہاں ایک میوزم بھی ہے اس میں حضرت عثمان غنیؓ کے دست مبارک کا لکھا ہوا قرآن کریم بھی محفوظ ہے، قرآن کریم کا یہ نسخہ تیمور لنگ ملک شام سے اپنے ساتھ لے کر آیا تھا، ظہر کا وقت ہوا تو اس مدرسے کے طلبہ بھی درسگاہوں سے نکل کر باہر آگئے، ان میں کچھ طلبہ نے ملاقات بھی کی، میں نے جب انہیں یہ بتلایا کہ میرا تعلق دیوبند سے ہے، تو وہ یہ سن کر خوشی سے نہال ہوگئے، مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ طلبہ حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ اور ان کے درسی افاداتِ بخاری فیض الباری سے اچھی خاصی واقفیت رکھتے ہیں، تاشقند میں ہی ہم نے چنگیز خاں کے پوتے الغ بیگ کا بنایا ہوا مدرسہ بھی دیکھا، روسیوں نے اسے بھی تباہ وبرباد کردیا تھا، صدر اسلام کریموف نے یہ مدرسہ اس کے پرانے نقشے کے مطابق دوبارہ تعمیر کردیا ہے۔
یہاں کے لوگ بڑے نرم خو، نرم گفتار اور مہذب ہیں، اکثریت مسلمانوں کی ہے، مگر لباس خالص مغربی ہے، صرف علماء تدریس کے وقت، اور ائمہ ومؤذنین نماز کے اوقات میں اپنے مغربی لباس پر جبہ وغیرہ پہن لیتے ہیں، سر پر پگڑیاں باندھ لیتے ہیں، کسی کو داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں ہے، صرف ائمہ حضرات چالیس پچاس کے سن کو پہنچنے کے بعد حکومت کی اجازت سے چھوٹی موٹی داڑھی رکھ سکتے ہیں، حجاب بھی ممنوع ہے، مگر خواتین پورے لباس میں نظر آتی ہیں، عام طور پر خواتین نیچی نگاہیں رکھتی ہیں، مرد سامنے سے آرہے ہوں تو وہ ایک طرف ہٹ جاتی ہیں، معاشرے میں کہیں کوئی فحاشی نظر نہیں آتی، دکانیں بہت ہیں، مگر دکانوں کے بورڈ عورتوں کی تصویروں سے خالی ہیں، سڑکوں پر بھی اس طرح کی تصویریں نہیں ملتیں، نہ اصحاب اقتدار کی تصویریں لگانے کا رواج ہے، ہم نے پورے سفر میں کہیں بھی ازبکستان کے موجودہ صدر کی تصویر نہیں دیکھی۔
تاشقند سے ہم بذریعہ ہوائی جہاز ترمذ شہر پہنچے، یہاں بڑے بڑے علماء اور محدثین کے مزارات ہیں، ان میں سے دو زیادہ شہرت کے حامل ہیں، ایک حکیم ترمذی کا مزار ہے، جن کی کتاب نوادر الاصول فی معرفۃ اخبار الرسول بڑی شہرت رکھتی ہے، ان کا مزار مرجع خاص وعام بنا ہوا ہے، یہاں سے کافی فاصلے پر سنن ترمذی کے مؤلف امام ابو عیسیٰ ترمذی کا مزار مبارک بھی ہے، وہاں بھی حاضری دی، یہاں زیادہ بھیڑ بھاڑ نظر نہیں آئی، ترمذ شہر میں ترقس کا قلعہ بھی ہے، مقبرۃ السادات بھی ہے، معلوم ہوا کہ اس قبرستان میں بارہ کشادہ کمرے ہیں ان میں ایک سو بیس افراد مدفون ہیں، جو سب کے سب حسینی سادات میں سے ہیں، اس مقبرے میں حاضری کی سعادت حاصل کی، موجودہ متولی اور مجاور بھی سید زادے ہیں، بڑے ملنسار، خوش اخلاق ہیں، نہایت محبت سے ملے، ترمذ شہر کی طرف واپسی پر گائڈ نے بتلایا کہ یہاں سے کچھ فاصلے پر حضرت ذوالکفل کا مزار بھی واقع ہے، مگر یہ مزار افغانستان کے طالبان کے کنٹرول میں ہے، فی الحال وہاں جانا ممکن نہیں ہے۔
ہمارا اگلا پڑاؤ سمرقند تھا، ترمذ سے 700 کلو میٹر دور، تیز رفتار ٹرین سے سفر طے ہوا اور جلدی ہی سمرقند پہنچ گئے، سمرقند سے تیس کلومیٹر دور خرتنگ بستی ہے، یہاں امام بخاری مدفون ہیں، ان کے مزار مبارک پر حاضری دی، جتنی دیر وہاں بیٹھے رہے، آنکھوں سے آنسو بہتے رہے، معلوم نہیں یہ رونا خوشی تھا کہ ہمیں یہاں حاضری کی سعادت ملی، یا غم کا رونا تھا کہ کیسے کیسے اساطین فضل وکمال یہاں مدفون ہیں، اور یہاں کے رہنے والوں کو ان کے فضل وکمال کی چنداں خبر نہیں ہے، سمرقند میں ایک قبرستان شاہ زندہ بھی ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت اکثم ابن عباسؓ مدفون ہیں، چنگیز کی اولاد میں سے بہت سوں کی قبریں بھی یہاں ہیں، حضرت ابو منصور ماتریدی بھی ایک قبرستان میں مدفون ہیں، تاریخ میں اس قبرستان کا ذکر مقبرۃ المحمدین کے نام سے کیا جاتا ہے، اس میں صرف وہ علماء کبار مدفون ہیں جن کے نام میں محمد لگا ہوا ہے، ایسے علماء کی تعداد ۴۰۰ بتلائی جاتی ہے، اسی احاطے میں ایک طرف ہدایہ کے مصنف علامہ برہان الدین مرغینانیؒ بھی مدفون ہیں، ان کو الگ اس لئے دفن کیا گیا کہ ان کا نام محمد نہیں تھا، علامہ ابو اللیث سمرقندی کا مزار مبارک بھی اسی احاطے میں کہیں ہے، نقش بندی سلسلے کے بزرگ خواجہ بہاء الدین نقش بندی کے خلیفۂ اجل حضرت خواجہ عبد اللہ احرار کا مزار بھی سمرقند ہی میں ہے، مزار سے ملحق ایک بڑا مدرسہ بھی ہے جس کی تعمیر وتزئین کا کام جاری ہے، تیمور لنگ کو اس علاقے میں ہیرو کا درجہ حاصل ہے، جگہ جگہ اس کے مجسمے بھی کھڑے کئے گئے ہیں، تیمور لنگ کا مقبرہ بھی سمرقند میں ہے، یہ مقبرہ فن تعمیر سازی کا ایک بے مثال نمونہ ہے، سمرقند میں سب سے مشہور علاقہ ریگستان ہے، کبھی یہ علاقہ ریگستان رہا ہوگا، اب تو نہایت سرسبز وشاداب اور اونچی نیچی بلڈنگوں پر مشتمل اور خوب صورت بازاروں سے سجا ایک علاقہ ہے، جہاں تین عمارتیں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی ہوئی ہیں، ان میں سے ایک عمارت امیر تیمور کی بنائی ہوئی ہے، دوسری اس کے بیٹے اور تیسری اس کے پوتے کی، یہ تینوں مدرسے تھے، تینوں بڑی عالیشان عمارتیں ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک ہیں، ہر وقت یہاں عوام کی بھیڑ رہتی ہے، اندر جانے کے لئے ٹکٹ بھی ہے، ازبکستان کی جو تعارفی تصویر نیٹ وغیرہ پر دکھلائی جاتی ہے وہ انہی تین عمارتوں کی ہے۔ (جاری)۔
متفرق
Tuesday, November 20, 2018
سمرقند و بخارا میں چند روز۔
Author Details
www.sadaewaqt.com