Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, November 29, 2018

اندریش نے پھر زبان کھولی۔


تحریر/شکیل رشید (صدائے وقت۔)
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
اندریش کمار پھر بولے ! بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اندریش کمار نے پھر ’غیرآئینی ‘ باتیں کیں  اور’ملکی مفادات‘ کے خلاف زہر اگلا تو زیادہ درست ہوگا ۔  ان کی باتیں سن کر یہ سچ خوب عیاں ہوجاتا  ہے کہ آر ایس ایس کو ملک کے ’آئین‘ کی کوئی پروا نہیں ہے اور یہ جو سنگھی ہیں ان کی زبانوں پر ’غیر آئینی‘ باتیں دھڑلے سے اور بغیر کسی ڈر اور خوف کے اس طرح  آتی ہیں کہ عام آدمی اس کی سوچ بھی نہیں سکتا ۔۔۔ اندریش  کمارنے اول تو یہ کہا کہ مودی سرکار نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لئے قانونی مسودہ تیار کرلیا ہے ۔ خیر، اس بات کے لے کوئی شکایت نہیں ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے قانون کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ۔ انہوں نے تو قانون  کو لات مارکر  1992 میں  بابری مسجد شہید کی تھی۔آج بھی کوئی ’ قانون‘ ان کے آڑے نہیں آسکتا ، پارلیمنٹ میں قانون بنانے کا نعرہ تو صرف الیکشنی پروپگنڈہ ہے ۔ اندریش کمار کی سب سے تشویشناک بات  ملک کی عدلیہ پر نکتہ چینی تھی۔۔۔۔ ان کا جملہ تھا ’’ کیا ملک اتنا معذور ہے کہ دوتین جج ملک میں جمہوریت، آئین اور بنیادی حقوق کا گلا گھونٹ دیں گے ۔‘‘ یہ جملہ ملک دشمنی کے مترادف ہے۔ کوئی  اور کہتا تو جیل میں ہوتا ۔ یہ جملہ بغاوت کی ترغیب دیتا اور اکساتا ہے ۔۔۔ افسوس کہ جمہوریت کی جگہ ہندوراشٹر اور آئین کی جگہ منوسمرتی لانے کی بات کرنے والے اور دوسروں کے بنیادی حقوق غصب کرنے والے سنگھی انتہائی بے شرمی کے ساتھ اپنے  مفادات کے لئے جمہوریت ، آئین اور بنیادی حقوق  کا رونا روتے ہیں ۔ یہ وہ اندریش کمار ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو سدھارنے اور مین اسٹریم میں لانے کا ٹھیکہ  بھی لے رکھا ہے ۔یہ دراصل سنگھ کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے مشن کا ہی ایک حصہ ہے ۔
ویسے بلی تھیلے کے اندر کبھی نہیں تھی!
آر ایس ایس کے منصوبے کبھی پردے میں نہیں تھے۔ سب کچھ عیاں تھا، جیسے کہ مرکزی وزیر اوما بھارتی نے بابری مسجد کی شہادت کے معاملے میں کہا تھا کہ ’’ہم نے جو کچھ کیا وہ کھلے عام کیا‘‘ ۔مگر وہ مسلمان کیسے اندھے او ربہرے ہیں، جو آر ایس ایس او ربی جے پی کا دامن تھامے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے مودی کی بات سننا ہی بہتر ہے۔ طلاق ثلاثہ کے معاملے میں یہ مودی اور یوگی کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ لائوڈ اسپیکروں سے اذان کی بات ہوتی ہے تو یہ اذانیںبند کروانے کے لیے ’یرقانیوں‘ سے بھی دو ہاتھ آگے کھڑے نظر آتے ہیں۔  اور رہی بات بابری مسجد کی تو اس کی  جگہ اگر ان کے بس میں ہو تو   آج ہی رام مندر کی تعمیر کے لیے سونپ دیں۔ انہیں وہ ’زہریلی باتیں‘جو سنگھی لیڈروں کی زبانوں سے نکلتی ہیں سنائی تک نہیں دیتیں۔ یہ بہرے ہوگئے ہیں۔ انہیں وہ سب کچھ جو یرقانی تنظیمیں ’ہندو توا‘ کے نفاذ کے لیے کررہی ہیں نظر تک نہیں آتا۔ یہ اندھے ہوگئے ہیں۔ یہ اندھے اور بہرے سنگھی بھاجپائی مسلمان مختلف ناموں سے تنظیمیں بنا کر سرگرم ہیں ان میں سے ایک کا نام ہے ’’مسلم راشٹریہ منچ‘ ‘۔  یہ تنظیم ایسے مسلمانوں کو ساتھ ملا کر  جو ’ننگ ملت، ننگ دین، ننگ وطن‘ کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں اس ملک  سے جمہوریت اور سیکولر ازم کے خاتمے اور ’ہندو راشٹر‘ کے قیام کی تحریک چلائے ہوئے ہے، ان سب کے سرپر آر ایس ایس کا ہاتھ ہے۔ ’مسلم راشٹریہ منچ‘ کے سربراہ ا ندریش کمار ہی ہیں،  جن پر سوامی اسیما نند کے ساتھ بم دھماکوں کا الزام تھا۔ این آئی اے نے اب انہیں ’کلین چٹ‘ ضرور دی ہے مگر مسلمان انہیں کبھی ’کلین چٹ‘ نہیں دے سکتے۔ انہوں نےکبھی ’ہٹلری فرمان‘ جاری کیا تھا کہ مسلمان ’بیف‘ کھانا بندکردیں، گایوں کو پالیں اور مدرسے ’ہندوستانی تہذیب‘ کی تعلیم دیں۔
مسلمان اُس ’بیف‘ کھانا بھلا کیوں بند کریں، جو’جائز ‘ ہے یعنی بھینسا وغیرہ؟ مسلمان کیوں گائیں پالیں؟ اندریش کمار خود کیوں گائیں نہیں پالتے؟ اور مدرسے کیوں ’ہندوستانی تہذیب‘ کی تعلیم دیں؟ ہمارے یہ سوال اندریش کمار سے بھی ہیں، سنگھ پریوار سے بھی اور سنگھ کے پالتو مسلمانوں سے بھی۔ مدرسے دینی تعلیم کے لیے ہیں ، وہ دینی تعلیم دیں گے۔ اور ایسی دنیاوی تعلیم جو انہیں اس دنیا میں اپنے دینی تشخص کے ساتھ آگے بڑھنے میں مدد دے۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ ’ہندوستانی تہذیب‘ سے مراد ’رامائن او رمہابھارت‘ کی تہذیب ہے۔ مسلمان اس تہذیب کے خلاف نہیں مگر  یہ مسلمانوں کی تہذیب نہیں ہے، مسلمانوں کو تو وہ گنگا جمنی تہذیب عزیز ہے جو اس ملک میں ’بھائی چارے‘ کا نمونہ تھی۔ اس ملک کے مسلمان اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت کو اندریش کمار کے کہنے سے نہیں چھوڑ سکتے۔ ہاں ’یرقانی مسلمان‘ چاہیں تو اندریش کمار کی تہذیب اپنا لیں۔ سنگھ یہی چاہتا ہے ، کیونکہ ایسا ہوا تو اس کی چاندی ہوجائے گی  اور کچھ  ’مسلمان‘ اس قانونی مسودہ کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہونگے جو بقول  اندریش کمار ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لئے مودی سرکار نے تیار کرلیا ہے ۔