شکیل رشید کی تحریر۔
. . . . . . . . صدائے وقت. . . . . . . . .
آج سے ٹھیک تین روزبعدممبئی کے ’مسلم کش فسادات ‘کو۲۶؍برس بیت جائیں گے۔
یہ گذرے ہوئے ۲۶سال ناانصافی،سرکاری بے حسی اورسیاسی لاچاری کے سال ہیں۔ فسادات کے متاثرین کوآج تک انصا ف نہیں مل سکاہے۔جن کے اعزاءورشتے دار اوراحباب واہل خانہ مارے اورزخمی کئے گئے تھے‘اورجولوٹے کاٹے اورتباہ وبرباد کیے گئے تھے‘ آج بھی انصاف کے لیے دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔سرکار روزِاوّل ہی کی طرح بے حس ہے۔رہے سیاست داں اورسیاسی پارٹیاں تووہ’سیاسی مفادات‘کی بناء پر اس قدرمجبوراورلاچارہیں کہ’خاطیو ں‘اور’مجرموں‘کی طرف انگلیاں اٹھانے کی ان میںہمت نہیں ہے بلکہ اب اتنے برس بیت جانے کے بعدتویوں لگتا ہے کہ ان کے ذہنوں سے یہ ’حقیقت ‘محوہو چکی ہے کہ1992-93ء میں شہرممبئی شدید فرقہ وارانہ فسادات میں جل اٹھاتھا۔اب ان کی زبانوں سے بھی کبھی ممبئی کے دومرحلوں کے مسلم کش فسادات کاذکرنہیں نکلتا!مجھے آج بھی ریٹائرڈجسٹس بی این شری کرشنا کی .....جن کی سربراہی کی ممبئی کے فسادات کے لیے جانچ کمیشن بناتھا‘اورجن کی رپورٹ نے،جیسے’شری کرشناکمیشن رپورٹ‘کے نام سے جاناجاتا ہے ،فسادات میں سیاست دانوں اورپولس والوں کے رول کو نہ صرف واضح کیاتھا بلکہ انہیں’خاطیوں‘اور’قصورواروں‘کی فہرست میں شامل بھی کیاتھا........بات یادآرہی ہے،موقع انگریزی کی جرنلسٹ مینامینن کی ممبئی فسادات پر انگریزی کتاب کی رونمائی کاتھا‘جسٹس شری کرشنا اس موقع پر موجودتھے اورانہوں نے کہاتھا کہ وہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کی رپورٹ پر عملدرآمد ہوتاکہ متاثرین کو انصاف فراہم ہو سکے۔یعقوب میمن کی پھانسی کے ایک دن بعدانہوں نے یہ سوال اٹھایاتھا کہ’یعقوب میمن کو تو اس کے جرم کی سزا مل گئی ممبئی کے فسادیوں کو کب سزا ملے گی۔‘یہ سوال آج تک جواب طلب ہے۔
وہ جنہوںنے مسلمانوںکی جان اور مال کا نقصان کیاتھا آج بے فکری سے آزادگھوم رہے ہیں‘ وہ پولس والے جو فسادیوں کے ساتھی تھے آج تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے اورسیاسی پارٹیوں‘فرقہ پرست تنظیموں اورپولس کے فرقہ پرستانہ چہرے کوجس سری کرشنا کمیشن رپورٹ نے اُجاگرکیا تھا وہ ٹھنڈے بستے میںڈال دی گئی ہے ۔ کانگریس کا کرداراس معاملے میں انتہائی گھناؤنا رہا ہے ‘بجائے اس کے کہ یہ ’سری کرشنا کمیشن رپورٹ ‘ پرعمل کرتی اس کی تقریباًتین سرکاروں نے انتہائی منصوبہ بندی کے ساتھـ’ مسلمان کانگریسیوں‘ کی مدد سے ایسا چکر چلایاکہ کمیشن کی رپورٹ پرعمل درآمد کا سوال عدالت کے گلیاروں میں آج تک گردش کررہا ہے اورنہ جانے کب تک گردش کرے گا !رہے وہ افراد جوعدالتوںمیں انصاف کی جنگ لڑرہے تھے یا تواب نہیںرہے یا مزید قانونی لڑائی لڑنے کا حوصلہ ہاربیٹھے ہیں… اورسب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ جِن عناصر نے 1992-93میںممبئی کو دومرحلوںمیں فسادات کی آگ میںجھونکا تھا آج ریاست مہاراشٹر پران ہی کی حکومت ہے ‘وہ سیاہ وسفید کے مالک ہیں لہٰذا یہ امیدرکھنا ہی بے کار ہے کہ انصاف ملے گا۔
بات اس روزکی ہے جب اترپردیش کے فیض آباد ضلع کے ایودھیا نامی قصبے میں تاریخی بابری مسجد فرقہ پرستوں‘بھاجاپائیوں اوربجرنگی وسنگھی کارسیوکوںکے ہاتھوں شہید کردی گئی تھی یعنی 6دسمبر 1992ء کی ۔ ممبئی کے مسلمان ایک جمہوری ملک میں غیرجمہوری اندازمیں اپنی عبادت گاہ شہید کئے جانے کی مجرمانہ واردات سے مغموم بھی تھے اور مشتعل بھی اس لیے انہوںنے سڑکوںپر اترکرجمہوری انداز میں احتجاج اورمظاہرے کرنے کی کوشش کی جوپولس کی غیرضروری قوت کے سبب پرتشدد ہوگئی ۔
منصوبہ سیدھا سادا تھا ‘ مسلمانوںکو مظاہرے نہ کرنے دوبلکہ انہیں مشتعل کرواور جب وہ تشدد پراتر آئیں توانہیں گولیاں ماردو۔ ایسا ہی ہوا ‘پولس کی گولی باری نے سینکڑوں نوجوانوںکے سینوںکوخون کی لالی سے سرخ کردیا … یہ فسادات کا آغازتھا !6دسمبر 1992اورپھر 5جنوری 1993دومرحلوں میںہونے والے فسادات میںسرکاری اعدادوشمار کے مطابق 900افراد ہلاک ہوئے جِن میں مسلمانوںکی تعداد 575اورہندوؤں کی تعداد 275تھی ۔ پولس کے فرقہ پرستانہ رویّے کا اندازہ اس حقیقت سے لگایاجاسکتاہے کہ اس کی گولی باری سے ہلاک ہونے والوںکی تعداد 356تھی ۔ پولس کی گولیاں ‘ پولس مینول کے اصول وضوابط کے برخلاف سینوںپرچلیں‘ کمرسے نیچے نہیں۔
ایک جانب پولس ‘فسادی اورشیوسینک تھے ۔ ان کے ساتھ بی جے پی کے لیڈراور کارکنان بھی تھے ۔ حدتو یہ ہے کہ کئی جگہ آرپی آئی اورکانگریسی لیڈروںنے بھی فسادیوں کا ساتھ دیا۔ شیوسینا اور شیوسینا کے پرمکھ بال ٹھاکرے کا کردار انتہائی گھناؤنا تھا ۔شری کرشنا کمیشن رپورٹ‘میں جسٹس سری کرشنا نے تمام ’حقائق‘ کویوں عیاں کردیا ہے جیسے کہ سورج کی تیزروشنی میں زمین پر پڑے وہ ذرّے عیاں ہوجاتے ہیںجو تاریکی میںچھپے رہتے ہیں۔ رپورٹ میں واضح لفظوں میںتحریر ہے:
’’جنوری 8‘1993سے تواس میںکوئی شبہ ہی نہیںکہ شیوسینا اورشیوسینکوں نے اپنے لیڈروںکی رہنمائی میں مسلمانوں اوران کی املاک پر منظم حملے کرنے میں قائدانہ کردار ادا کیا ‘شاکھا پرمکھوں سے لے کرشیوسینا پرمکھ بال ٹھاکرے تک کی رہنمائی انہیں حاصِل تھی ‘بال ٹھاکرے کسی تجربہ کار جنرل کی طرح اپنے وفادار شیوسینکوں کوہدایت دے رہے تھے کہ وہ مسلمانوں پرمنظم حملے کرکے ان سے انتقام لیں۔ ‘‘
کمیشن نے اپنی رپورٹ میںشیوسینکوں بالخصوص بال ٹھاکرے کے بیانات اوران کے ہندی اور مراٹھی روزنامہ ’سامنا ‘ کے اشتعال انگیزاداریوں کے حوالے دے کراس سچائی کی جانب تو جہ دلائی تھی کہ اس طرح کے بیانات اوراداریوں نے ’ہندوؤں ‘کو مشتعل کیا ‘‘… رپورٹ میں ایک جگہ تحریر ہے :’’ شیوسینک لیڈروں کے بیانوں اورسرگرمیوں اوربال ٹھاکرے کی تحریروںاور ہدایتوں کی وجہ سے فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھتی چلی گئی ‘ شیوسینا نے جوفسادات شروع کئے تھے وہ مقامی مجرم پیشہ عناصر نے ہائی جیک کرلیے اورفوری فائدہ اٹھالیا۔ اورجب تک شیوسینا کو یہ احساس ہوکہ ’انتقام ‘ خوب لے لیاگیا تب تک تشدد اس کے لیڈروں کے کنٹرول کی پہنچ سے دورنکل گیاتھا ‘‘۔
کمیشن کی رپورٹ میںفرقہ وارانہ کشیدگی کے پھیلنے اور ممبئی کے فسادات کے اسباب میں بابری مسجد کی شہادت‘ بی جے پی کے لیڈروں کی رتھ یاترائیں اورسنگھ پریوار کی اشتعال انگیزی بھی شامل ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ’ممبئی کے فسادات ‘ کوسارے سنگھ پریوار کی کارستانی قرار دیاتھا توغلط نہیںہوگا … ظاہرہے کہ یہ رپورٹ نہ اس وقت شیوسینا اور بی جے پی کوبھائی تھی اورنہ آج بھارہی ہے۔ جب ممبئی کے فسادات کے بعدشیوسینا بی جے پی کی حکومت بنی تھی تب کمیشن کی رپورٹ کو جو1998میںپیش کی گئی تھی ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیاگیاتھا۔ وزیراعلیٰ منوہر جوشی اورریاستی سرکار نے ‘ریاستی اسمبلی اور کونسل میں اس رپورٹ کی پیشی کے بعداِسے ردّ کرکے ایوان میں ’ایکشن ٹیکن رپورٹ ‘ پیش کی تھی اور یہ کہا تھاکہ ’سری کرشنا کمیشن رپورٹ ‘’’ہندو مخالف ’مسلم موافق اورجانبدارانہ ہے ‘‘۔
شیوسینا اوربی جے پی کی ریاستی سرکار سے یہی توقع تھی۔ رپورٹ میں شیوسینا اوربی جے پی کو فسادات کا قصوروار قرار دیاگیاتھا اور بال ٹھاکرے سمیت کئی شیوسینکوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مشورہ دیاگیاتھا… شیوسینا اوربی جے پی کی حکومت اپنے قصورکو مان بھی کیسے سکتی تھی ! لیکن ’سری کرشنا کمیشن رپورٹ ‘ جوردکی گئی تھی دوبارہ اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کے کہنے پر پھرسے ’زندہ ‘کی گئی … ریاستی سرکار نے جسٹس شری کرشنا پریہ ذمہ داری عائد کی کہ وہ صرف فسادات کی نہیں 12مارچ 1993ء کے ممبئی کے سلسلہ واربم دھماکوں کی چھان بین بھی کریں اور فسادات اوربم دھماکوں میںکیا مطابقت ہے یا ان دونوں کا کیا ’رشتہ ‘ ہے ‘اسے بھی اپنی رپورٹ میں شامل کریں … جسٹس سری کرشنا نے یہ چھان بین بھی کی مگر مزیدچھان بین نے ان کی اس ’رپورٹ ‘کومزید تقویت بخشی کہ فسادات سنگھی ذہن رکھنے والوںکی سازش کا نتیجہ تھے اوریہ بم دھماکے نہ ہوتے اگر بابری مسجد شہید نہ ہوتی اورممبئی میں دومرحلوں میںفسادات نہ ہوئے ہوتے۔
بھلا ممبئی کے فسادات کوآج تقریباً 26برسوں کی طویل مدت کے بعد بھی نظراندازکیوںکیاجارہا ہے ؟کیا کانگریس پارٹی اور آج کے کانگریسی نہیںجانتے کہ واقعی میںمسلمانوں کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے اورانہیں انصاف مِلناچاہئے بالکل اسی طرح جس طرح 1984کے سکھ مخالف فسادات کے متاثرین کوانصاف فراہم کیاگیا ہے ؟ ممبئی کے فسادات اپنی شدت وبربریت ‘سنگدلی اوربے رحمی میںگجرات کے فسادات سے کم نہیںتھے ۔ جس طرح گجرات میںخواتین کا ریپ کیاگیا ‘لوگوںکو زندہ جلایا گیا اور بے رحمی کے ساتھ ‘لوگوں کی املاک تباہ کی گئیں اسی طرح ممبئی میںہوا تھا… ’سری کرشنا کمیشن رپورٹ ‘میںکئی واقعات کی تفصیلات موجود ہیں۔ مثلاً اگرپولس کی بربریت کی مثال چاہئے توممبئی کے محمد علی روڈ پرواقع سلیمان عثمان بیکری اوراس سے لگ کر دارالعلوم امدادیہ اور سیوڑی علاقہ کی ہری مسجد میںکی گئی گولی باریوںکی مثالیں موجود ہیں۔
سلیمان عثمان بیکری ابراہیم رحمت اللہ روڈپرواقع ہے ‘ 9جنوری 1993 کے روزوہاں موجود ایک پولس پارٹی نے یہ رپورٹ دی کہ سلیمان عثمان بیکری کی چھت سے ان پر فائرنگ کی گئی تھی ۔ اس رپورٹ کے بعداس وقت کے جوائنٹ پولس کمشنر رام دیوتیاگی (جو بعدمیں ممبئی کے پولس کمشنر بنے ) اپنے اسپیشل آپریشن اسکواڈ کے ہمراہ وہاںپہنچے… سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اسکواڈ کے لوگوں نے ’’صدردروازہ توڑدیا اوربیکری میں داخل ہوگئے ۔ پولس کے مطابق بیکری میںداخل ہونے کے بعدچاپڑوں‘ آہنی سلاخوںاور چاقوؤں سے لیس 40سے 50افراد نے پولس والوں پرحملہ کردیااورپولس کی وارننگ کے باوجود جب حملہ آوروںنے ہتھیارنہیں پھینکے تو پولس نے وارننگ دے کرگولی چلادی اور آگے بڑھنے لگی لیکن 40سے 50 افراد نے پولس والوںکو روکنے کی کوشش کی ‘ آپریشن اسپیشل اسکواڈ چھت پر پہنچ گیا جہاں 40سے 50افرا دپانی کی ٹنکی اورچونا بھٹی مسجد کی دیوارکے درمیان چھپے بیٹھے تھے ۔ انہیںسرینڈر کرنے کا حکم دیاگیا لیکن انہوںنے آٹومیٹک اسٹین گن سے پولس پرحملہ کردیا جواب میںپولس نے فائرنگ کی جس میں 8سے 10افراد نے مسجداوربیکری کے درمیان گٹرمیںچھلانگ لگادی اورفرار ہوگئے ۔ آپریشن اسپیشل اسکواڈنے چندکوپکڑلیا ‘ان سے ہتھیار چھین لیے اورانہیںحراست میںلے لیا ‘ بیکری میں موجود 78 افرادحراست میں لئے گئے اس کارروائی میں 9افراد مارے گئے ‘‘… پولس کے بیان پر جسٹس سری کرشنا خودموقعہ واردات پر پہنچے اور انہوںنے جائزہ لینے اورگواہوں سے مِِلنے کے بعدرپورٹ میںتحریر کیا :’’ بیکری میں موجود افراد غیرمسلح اورنہتے تھے اورانہیں بے دردی سے گولی ماری گئی تھی …ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ پولس کواندھا دھند فائرنگ کی ضرورت تھی‘ پولس نے خوشی خوشی گولیاںچلائی تھیں اور9بے گناہ افراد کو ہلاک کیاتھا۔ اس سارے معاملے کی ذمہ داری جوائنٹ پولس کمشنر آرڈی تیاگی ‘اے پی آئی دیشمکھ اورپولس انسپکٹر لہانے پرعائد ہوتی ہے ‘‘۔ اتنی واضح رپورٹ کے باوجود تیاگی ممبئی کے پولس کمشنر بنے اور سارے الزامات سے بری کردیئے گئے ۔ سیوڑی کی ہری مسجد میں ظہر کی نماز کے موقع پر ایک پولس اہلکار نکھل کاپسے نے گھس کرگولی باری جس میں9؍مسلمان شہید ہوئے۔کمیشن کی رپورٹ میں مسجدکے اندرمسلمانوں کی شہادت کا ذمے دار نکھل کاپسے کی اندھا دھند اور بلااشتعال فائرنگ کو قرار دیاگیاہے۔افسوس کہ آج تک کاپسے کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی ہے۔کارروائی صرف شیوسینا کے ایک ایم پی مدھوکر سرپوتداراور ان کے دو شیوسینک ساتھیوں جینت پرب اور اشوک شندے کے خلاف ہوئی۔خصوصی عدالت نے انہیں فسادات کا قصوروار قرا ر دیا مگر انہیں فوری ضمانت مل گئی۔اور دو سال بعدسرپوتدار کی موت ہو گئی۔یہ معاملہ بھی اب ختم ہو چکاہے۔بال ٹھاکرے کے خلاف ان کی موت تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔حال ہی میں دو فیصلے آئے ہیں ایک ہاشم پورہ قتل عام‘کاجسے ملک کے سب سے بڑے حراستی قتل سے تعبیر کیا جاتاہے،اوردوسرا 1984ء کے سکھ مخالف فسادات کاجو اپنی اصل میں فسادات کی بجائے قتل عام ہی تھا‘عدالت نے دونوں ہی معاملات میں ’مجرموں‘کوسزائیں سنائی ہیں۔حالانکہ جو’بڑے‘اور’بااثرمجرم‘ہیں وہ آج بھی قانون کی گرفت سے باہرہیں،مگران فیصلوں سے ایک امید بندھی ہے.....توکیا ممبئی فسادات کے متاثرین یہ امید رکھیں کہ انہیں بھی دیرسویر انصاف ملے گا ؟کیا واقعی ان سیاستدانوں کو اوران پولس افسران کو جو فسادات کے دوران فسادیوں کی بھیڑمیں گھس کر خود فسادی بن گئے تھے سزائیں ملیں گی؟ان سوالو ںکے جواب یقیناًہمارے پاس نہیں ہیں۔لیکن امید توبندھی ہے..... اورمتاثرین ومظلومین کے پاس امید کے سوا چارہ بھی کیاہے!