Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, December 27, 2018

ہم اتنا ڈرتے کیوں ہیں؟ ایک حقیقت پر مبنی طنزیہ تحریر۔

تحریر/ڈاکٹر اسرار انور۔/صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
نیا ڈنر سیٹ خریدا ہے تو کھانا پرانے میں کیوں کھایا جائے؟

نئے کپڑے سلوائے ہیں تو اُنہیں عام حالات میں بھی پہننے میں کیا مضائقہ ہے؟

گھر میں ڈیڑھ لٹر والے کولڈ ڈرنک کی خالی بوتلوں کے انبار لگتے جارہے ہیں لیکن پھینکنے کا حوصلہ نہیں پڑ رہا۔

نیا بلب خرید لیا ہے تو پرانے کو سٹور میں کیوں سنبھال کے رکھ دیا ہے؟

باتھ رو م میں نیا شیونگ ریزر موجود ہے تو پرانے پندرہ ریزر کا انبار کیوں لگا رکھا ہے؟

پانچ سو روپے والا لائٹر خرید ہی لیا ہے تو اُسے استعمال کیوں نہیں کرتے؟

نئی بیڈ شیٹ کیوں سوٹ کیس میں پڑی پڑی پرانی ہوجاتی ہے؟

جہیز میں ملی نئی رضائیاں کیوں بیس سال سے استعمال میں نہیں آئیں؟

باہر سے آیا ہوا لوشن کیوں پڑا پڑا ایکسپائر ہوگیا ہے؟؟؟

دل چاہیے۔۔۔! نئی چیز استعمال کرنے کے لیے پہاڑ جتنا دل چاہیے ‘جو لوگ اس جھنجٹ سے نکل جاتے ہیں ان کی زندگیوں میں عجیب طرح کی طمانیت آجاتی ہے۔ یہ شرٹ خریدیں تو اگلے دن پورے اہتمام سے پہن لیتے ہیں۔
یہ ہر اوریجنل چیز کو اُس کی اوریجنل شکل میں استعمال کرتے ہیں اور ہم جیسے دیکھنے والوں کو لگتاہے جیسے یہ بہت امیر ہیں حالانکہ یہ سب چیزیں ہمارے پاس بھی ہوتی ہیں لیکن ہماری ازلی بزدلی ہمیں ا ن کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتی۔

دن پہ دن گذرتے جاتے ہیں لیکن ہم نقل کی محبت میں اصل سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
کسی کے گھر سے کیک آجائے تو خود کھانے کی بجائے سوچنے لگتے ہیں کہ آگے کہاں دیا جاسکتا ہے۔
ہر وہ کیک جس پر لگی ٹیپ تھوڑی سی اکھڑی ہوئی ہو‘اس بات کا ثبوت ہے کہ اہل خانہ نے ڈبہ کھول کر چیک کیا ہے اور پھر اپنے تئیں کمال مہارت سے اسے دوبارہ پہلے والی حالت میں جوڑنے کی ناکام کوشش کی ہے۔پتانہیں کیوں ہم میں سے اکثر کو ایسا کیوں لگتاہے کہ اچھی چیز ہمارے لیے نہیں ہوسکتی۔

اور تو اور ہم بچے سے جوان ھو گئے مگر اپنے ناپ کے کپڑے اور جوتے نصیب نہ ھوئے ، جوتا احتیاطاً ایک دو نمبر بڑا لیا جاتا، لاکھ پہن کر رو کر بھی دکھایا کہ دیکھو اماں میری ایڑھی تو اس جوتے کی کمر تک جا رھی ھے مگر ایک ہی جواب کہ پاؤں بڑھ رھا ھے اگلے سال پورا ھو جائے گا اور قسم سے اگلا سال آیا بھی نہ ھوتا اور جوتا لیرو لیر ھو جاتا ، کپڑے ہمیشہ ایک بالشت بڑے رکھوانے ہیں تا کہ اگلے سال چھوٹے بھائی کو بھی پورے ھو جائیں ـ چلیں اس شر میں بھی خیر یہ تھی کہ جو لڑکیاں کسی کو بھی گھاس نہ ڈالتی تھیں وہ ہمیں دیکھ کر ضرور مسکراتی تھیں ،،

ہم ساری زندگی اچھے لباس کے میلا ہونے کے ڈر سے جیتے ہیں اور پھر ایک دن دودھ کی طرح اجلا لباس پہن کر مٹی میں اتر جاتے ہیں۔۔۔

'خوش رھیے اور خوشیاں بانٹیے "