Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, December 7, 2018

وہ مرد درویش جس کو حق نے دئیے ہیں انداز خسروانہ۔


تحریر/ شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی۔ (صدائے وقت)۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
اس دنیائے فانی میں بے شمار لوگ آنکھیں کھولتے ہیں، زندگی کی رہ گذر پر ان کا سفر جاری ہوتا ہے،
اور ایک حد پر پہنچ کر خاموشی سے مکمل ہوجاتاہے، ایک بے نام سی رہ گذر،جس کی کوئی منزل نہیں،ایک خاموش زندگی جو پانی کے بلبلے کی طرح سطح سمندر پر بلند ہوئی اور لمحوں میں فنا کی سرنگوں میں غائب۔
مقاصد حیات سے ناآشنا، محدود دائرے میں مقید،
کسی کارناموں کے تصور سے آزاد،کسی تاریخ میں داخل ہونے کے جذبوں سے یکسر لاتعلق،
انسانوں کی اس بھیڑ میں کچھ وجود ایسے بھی اس سینۂ گیتی پر رونما ہوتے ہیں جو اپنی خداداد صلاحیتوں،فطری استعدادوں اور تعمیر وتہذیب کے بے پناہ جذبوں کے ذریعے عظمتوں کا قدم قدم پر مینار کھڑا کردیتے ہیں،اپنی ذات کے ساتھ ساتھ ارد گرد کے ماحول اور زمانے کو روشن کر جاتے ہیں،
حضرت مولانا اسرار الحق قاسمی صاحب کی ذات انہیں تاریخ ساز لوگوں میں سے تھی جنھیں تاریخ نہیں بلکہ وہ زمانے کی پیشانیوں پر تاریخ رقم کرتے ہیں، مولانا اسرار الحق صاحب نے عام بچوں کی طرح اس عالم رنگ و بو میں آنکھیں کھولی تھیں مگر جب اس دنیا کو خیر باد کہا تو ان کی پشت پر کارناموں کی ایک کہکشاں تھی،ان کی رحلت سے ایک عالم میں ارتعاش پیدا ہوگیا،علمی دنیا سوگوار ہو گئی، دانشکدہ فکر و فن میں تاریکیوں کے سائے پھیل گئے،زبان خلق سے ہر سو یہ آواز آئی کہ أفق علم و فضل کا ایک تابناک ستارہ ٹوٹ کر بکھر گیا،
قدرت نے مولانا کو بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا،
وہ ایک ممتاز عالم دین بھی تھے اور اقلیم قلم کے بے تاج بادشاہ بھی،
ایک فیض رساں مدرس بھی تھے اور میدان خطابت کے بہترین شہسوار بھی،
سیاسی دشت کے کامیاب اور امانت دار رہنما بھی تھے اور سوداگران ضمیر وظرف کی بھیڑ میں حق وصداقت کا پرچم لہرانے والے بے باک صحافی بھی،

امت مسلمہ کا درد رکھنے والے عظیم داعی بھی تھےاور تزکیہ واحسان کی راہوں سے آشنا ایک مرد قلندر بھی،غرض ایک شخصیت تھی جو مختلف اوصاف وکمالات کے جلو میں راہ ارتقاء پر ہمہ دم رواں دواں تھی، آپ کی سرگرمیوں کے تسلسل،حرکت وعمل اور جہد ومشقت کے ہجوم کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی حیات،،
جاوداں،پیہم دواں ہردم رواں ہے زندگی،، کا مکمل آئینہ تھی،

اس سطح ارض پر ناموران زمانہ کی کمی نہیں ،خاندانی بلندیوں اور نسبی شہرتوں کی لہروں پر جو دنیا سے عظمتوں کا خراج وصول کرتے ہیں
مگر ایسی شخصیات خال خال وجود میں آتی ہیں جو خاندانی سناٹوں،ماحول کی کج ادائیوں،اور اسباب شہرت وناموری سے تہی مائیگی کے باوجود کارناموں کی ایک دنیا بساتی ہیں'
مولانا مرحوم کی زندگی نے اسی مؤخر الذکر صف میں رہ کر اپنے علمی ادبی سیاسی دعوتی سفر کا آغاز کیا اور اپنی فطری صلاحیتوں کی بنیاد پر زندگی کے ہر محاذ پر عظمتوں کے پرچم نصب کئے،

آپ کی ملی دینی تعلیمی،تصنیفی،صحافتی اور سیاسی خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے'کہ مختصر سے لفظوں میں اس کا سمیٹنا مشکل ہی نہیں بلکہ محال ہے،

مولانا مرحوم نے ابتدائی اور متوسط تعلیم علاقے کے مدرسے میں حاصل کی بعدازاں اعلیٰ تعلیم کے لئے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور 1964میں اساطین امت سے اکتساب فیض کے بعد فراغت حاصل کی
فراغت کے بعد مدرسہ بدر الاسلام بیگو سرائے میں کچھ عرصہ تک تدریس سے وابستہ رہے۔
مگر قوم مسلم کی پسماندگی نے زیادہ دن تک مدرسہ کی فضا میں رہنے نہیں دیا اور معاشرتی وسیاسی دشت میں پہونچا دیا،آپ نے محسوس کیا کہ امت کی ارتقاء علم میں پوشیدہ ہے اس علم کی ترویج کے لئے آپ نے جگہ جگہ مکاتیب قائم کئے،
عصری علوم کی دانش گاہیں قائم کیں،

اسلامی نظریات کی اشاعت اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے جذبات کے تحت صحافت کا سہارا لیا اور مختلف اخبارات ورسائل میں زندگی کے آخری مرحلے تک مضامین لکھے،جنھیں شوق کی نگاہوں سے لوگوں نے پڑھا،ان سے استفادہ کیا،اس سلسلے میں آپ کی تحریریں انتہائی سلیس،خوبصورت ،
ادبی محاسن اور خوبیوں سے معمور اور جاذبیت سے بھر پور ہوتی تھیں،کون جانتا ہے کہ کتنے لوگوں نے ان تحریروں سے اپنے قلوب کو منور کیا ہے'،کتنے بھٹکے ہوئے آہو کو حرم کا پتہ ملا ہے'،کتنے دلوں میں انقلاب کی ہوائیں چلی ہیں'،
جمعیت علمائے ہند کے پلیٹ فارم سے برسوں تک جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے آپ نے رفاہی اور ملی خدمات پیش کی ہیں'،
قاضی مجاہد الاسلام قاسمی علیہ الرحمہ کی معیت میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم سے بھی ایک عرصے تک آپ کی زندگی معاشرتی وسماجی سرگرمیوں میں مصروف رہی،
آپ کی صلاحیتوں سرگرمیوں اور بے خدمات کے پیشِ نظر بورڈ نے رکنیت پیش کی،ملک کے مختلف
معتبر اداروں نے سرپرست بنایا۔چنانچہ آپ جہاں دارالعلوم دیوبند کے شوری کے ممبر تھے وہیں مسلم اقلیت کا مائہ ناز ادارہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے بھی کورٹ کے ممبر تھے،
کشن گنج حلقہ سے دس سال تک پارلیمنٹ کے کامیاب ممبر ی بھی آپ کے حصہ میں رہی ہے،لیکن ان تمام بلندیوں کے باوجود آپ کی زندگی اس طرح سادہ تھی اور اس طرح بے نفس تھی کہ عام فرد یہ اندازہ ہی نہیں کرسکتا تھا کہ یہ وہی شخصیت ہے'جس کے روشن کردار کا پورے ملک ڈنکا بج رہا ہے۔
صحیح یہ ہے مولانا فطرتاً قلندر صفت تھے یہی وجہ تھی کہ شہرتوں اور عظمتوں کے ہفت آسماں پر پرواز کے باوجود بھی آپ کے طرز معاشرت آپ کی گفتگو،آپ کی نشست وبرخاست تمام تر تکلفات سے پاک اور قلندرانہ شان کے مطابق تھی،ہٹو بچو اور دیگر کروفر کا کہیں نام آپ کی رہ گذر میں نہیں تھا،اس کی ایک وجہ اغلبا یہ بھی تھی کہ آپ کی زندگی میکدہ معرفت کے بادہ و جام سے بھی سرشار تھی،فراغت کے بعد ہی آپ نے اپنا ہاتھ وقت کے ولی کامل مفتی مظفر حسین صاحب کے دست حق پرست میں دے دیا تھا ان کے انتقال کے بعد مولانا قمر زمان صاحب الہ آبادی کے آستانے سے آپ وابستہ ہوگئے تھے،

اس دنیا میں جو بھی آیا ہے اسے ایک دن جانا ہے
کہ زندگی موت کی تمہید ہے'لیکن کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے روشن کرداروں سے وقت کے چہرے پر اپنی عظمت کی تحریر لکھ جاتے ہیں، جو چراغوں سے بے شمار کارناموں کے سورج تراشتے ہیں،
وہ حسی اعتبار سے روپوش ضرور ہوتے ہیں مگر لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہوجاتے ہیں

وہ موت جو اوروں کے لئے گمنامی کا باعث ہے وہی ان کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والی جاوداں زندگی کا پیغام بن جاتی ہے،
مولانا مرحوم بھی یقینا خاک وجسم کے اعتبار سے رخصت ہوچکے ہیں مگر اس حقیقت کو کون سمجھائے کہ یہ رحلت درحقیقت اس زندگی کی تمہید ہے'جسے فنا نہیں ہے جو ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔۔۔۔۔۔لوگوں کے دلوں میں۔۔۔
تاریخ کے سنہرے اوراق میں۔۔۔۔
طالبان علوم کے اذہان میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔
۔۔۔فکر و فن کے دانشکدوں میں۔۔۔۔۔۔فرشتوں کی محفلوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی