Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, December 28, 2018

مولانا بدرالدین اجمل،سلفیت اور دہشت گردی۔

*ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ*
مولانا بدرالدین اجمل، سلفیت اور دہشتگردی :
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
تحریر/ سمیع اللہ خان۔/ صدائے وقت/مولانا سراج ہاشمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
اسوقت ہندوستان میں ہمارے سلفی / اہلحدیث بھائی مضطرب ہیں، ان کے اضطراب کی وجہ " مولانا بدرالدین اجمل صاحب " بنے ہیں، *مولانا نے کل اپنی پارلیمانی تقریر میں طلاق ثلاثہ بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سلفیت، غیر مقلدیت کو دہشتگرد کہہ دیا تھا، ہم مولانا کے اس بیان سے متفق نہیں ہیں، مولانا کی بات سو فیصد غلط ہے اور ہم اپنے اہلحدیث / سلفی بھائیوں کے حق میں اس کی پرزور تردید کرتےہیں،* اور اب تو خود صاحب معاملہ مولانا بدرالدین اجمل صاحب نے بلاکسی تاویل واضح الفاظ میں اپنے اس تبصرے پر معذرت پیش کی ہے، نیز، اس کو پارلیمانی ریکارڈ سے بھی حذف کروانے کا عزم ظاہر کیا ہے، یقینًا یہ ایک شدید قسم کی غلطی تھی جس کا صدور ایک ذمہ دار اور بااثر شخصیت کی جانب سے ہوا، مولانا بدرالدین اجمل مسلمانوں کی پسماندگی اور سیاسی زوال کے دور میں ایک مذہبی عالم ہونے کے باوجود جس طرح کامیاب تاجر اور مضبوط سیاستدان کی حیثیت سے کامیابی کے ساتھ گامزن ہیں وہ یقیناﹰ نئی نسل کے لیے نمونہ ہے، پارلیمنٹ میں اپنی غلطی کے بعد وہ اڑے نہیں، اپنے لیے پروپیگنڈا نہیں کرایا،  انہوں نے جس طرح اس موقع پر معذرت اور رجوع کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ظاہر ہوتاہے کہ انہیں اپنی غلطی کا احساس بھی ہوچکاہے اور منصب و کامیابی کا غرور ان میں نہیں ہے، ایسے میں ہمیں چاہیے کہ ان کی افادیت، منزلت اور خدمات کو بھی ملحوظ رکھیں، کسی کی ایک غلطی کی بنیاد پر اسے بیک قلم خارج نہیں کرنا چاہیے، اور پھر جب وہ بندہ باوجود اسباب تاویل و ہٹ دھرمی فراہم ہونے کے، صاحب منصب ہونے کے باوجود، ندامت اور پشیمانی کا اظہار کرے تو یہ بالکل بھی غیر اسلامی طرز ہوگا کہ ہم پھر بھی ان پر حملہ آور ہوں، ہم امید کرتےہیں کہ ملت اسلامیہ، خاص طورپر سلفی برادران اب امت کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر " خذ العفو " کا مظاہرہ فرمائیں گے، البتہ، *ہم پھر کہتےہیں کہ مولانا کے تبصرے سے ہمیں بھی ہرگز اتفاق نہیں، اور ہم اب تک اس کی مخالفت کرتے رہے لیکن بعد از ندامت و رجوع کے کوئی وجہ نہیں بچتی کہ ہم انہیں ٹارگٹ کرتے رہیں اسلامی اصول ہے، " التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ " ۔
*اس موقع پر ہم اپنے محترم اہلحدیث / سلفی بھائیوں کو یاد دلانا چاہیں گے کہ، آج جس طرح انہیں " دہشتگرد " کہے جانے پر تکلیف ہورہی ہے، بخدا ویسی ہی تکلیف پوری امت کو بارہا ہوتی رہی ہے جب آپ حضرات امت کے مصلحین و مجددین، علماء ربانیین اور مشائخ عظام کی نمائندہ جماعتیں، اخوان المسلمین، فلسطینی کاز کے عظیم مجاہدین،  تحریک حماس کے جیالوں اور عالم عربی کے جملہ اسلام پسند علماء حق کو إرهابي / دہشتگرد قرار دیتےہیں،* ذرا غور فرمائیں، آج یہی تبصرہ جب  سلفیت پر ایک دیوبندی عالم کی جانب سے کیاگیا تو سب سے آگے بڑھکر، دیوبندی، ندوی، مظاہری ہر مکتب فکر کے علما و افراد نے اس کی تردید کی اور تمام اختلافات کے باوجود اہلحدیث حضرات کا اسطرح دفاع کیا جیسے کہ اپنے گھر کا کیا جاتاہے، یہ منظر اور ردعمل انتہائی پیارا اور خوش آئند ہے، اور پھر *ایک ہی دن کے اندر اپنے تبصرے پر مولانا بدرالدین اجمل صاحب نے معذرت بھی کرلی، اور خود ہی اسے بے اصل قرار دے ديا، اس کا استقبال ہوناچاہئے لیکن دیکھنے میں یہ آرہاہے کہ کچھ لوگوں نے جیسے یہ ٹھان لیا ہے کہ وہ  مولانا کی قبر کھود کر رہیں گے اور انہیں پوری طرح بدنام کرینگے لہٰذا وہ مولانا کے رجوع کا مذاق بھی بنارہے ہیں نیز گندے مضامین کے انبار بھی لگارہے ہیں ایسے لوگوں کا ساتھ ہم ہرگزنہیں دے سکتے کیونکہ یہ بھی بے اعتدالی ہے،* اس وقت نہایت شدت سے یہ خواہش دل میں آتی ہے کہ ائے کاش ہمارے محترم سلفی / اہلحدیث بھائی عالم عربی کے عظیم علماء حق اور اسلام پسندوں پر اپنی جانب سے لگائے گئے دہشتگردانہ الزامات سے بھی اشاروں ہی میں سہی رجوع کرلیں،ان سے اختلاف ہے تو ضرور کریں، لیکن خدارا ان راست باز مجاہد صفت علما و کارکنان کو دہشتگرد نہ کہیں، جب آپ انہیں دہشتگرد کہتےہیں تو امت کو بالکل ویسی ہی تکلیف ہوتی ہے جیسے اسوقت آپکو ہورہی ہے، ملت اسلامیہ اپنے سلفی بھائیوں سے عاجزانہ ملتمس ہیکہ اگر وہ اپنی سابقہ الزام تراشیوں پر معذرت نہیں کرنا چاہیں تو نا کریں لیکن اب کم از کم آئندہ اپنے کلمہ گو مسلمانوں کو دہشتگرد کہنا چھوڑ دیں، ہماری یہ سطور " الدین النصیحۃ " کے جذبے کے تحت ہیں اسے کسی اور زاویے پر محمول نا کریں، زندہ اور باشعور قومیں غلطیوں سے عبرت و موعظت حاصل کرتی ہیں، امید ہیکہ اس موقع پر بھی مسالک کے انتہاءپسند معلمین بھی کچھ نہ کچھ سیکھ حاصل کرینگے اور ساتھ ہی سلفی/اہلحدیث برادری بھی اپنی سخت گوئی اور تنفر آمیز الزام تراشیوں سے دیگر مسلمانوں میں ہونے والی بے چینی کا احساس کرپائے ہوں گے اور آئندہ اس سے گریز کرینگے_
رہی بات مولانا بدرالدین اجمل صاحب کی تو وہ خود بھی بشر ہیں اور نفسیاتی دباؤ سے کو نہیں ہارتا؟ چنانچہ ان سے غلطی ہوئی ہے جس پر وہ خود بھی پشیمان ہیں اور انہوں نے بلا کسی لاگ و لپیٹ اپنی غلطی کا عاجزانہ اعتراف کرلیا ہے، دوسری طرف ان کی شخصیت کے دیگر قابل تحسین پہلو بھی ہیں، ان کی اپنی خدمات بھی ہیں نیز کئی جہتوں سے وہ ملت کے موجودہ اکابر علما میں مفید بھی ہیں، ایسے مخلص اور جدوجہد کرنے والے عالم دین، کامیاب تاجر، اور مضبوط سیاستدان  کو ہم محض ایک غلطی کی وجہ سے دشنام طرازی، اور الزامات کے تیر و تفنگ پر رکھ کر  ضائع نہیں کرسکتے، نیز، اختلافات اور غلطیوں کے سلسلے میں ہمارا نظریہ اور طرزعمل واضح ہے، ہم چند علمی یا نظریاتی اختلافات کی بنا پر کسی کو مطعون یا مبغوض نہیں کرتے کہ یہ سڑک کے جاہلوں والا رویہ ہے نیز غلطیوں پر کسی کی کردارکشی یا اس کے خلاف بدتہذیبی اور بداخلاقی کے ساتھ ننگے پن کا مظاہرہ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ یہ شریف، صحتمند اور مہذب سوسائٹی کے افراد کا شیوہ نہیں ہے، ہمارے نزدیک *" ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ "*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔