Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, December 6, 2018

سمر قند و بخارہ میں چند روز۔۔۔۔۔۔تیسری قسط۔

سمر قند وبخارا میں چند روز

___________قسط٣____
مولانا ندیم الواجدی۔
صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
جمعہ کی نماز کے بعد ہم نے اپنی قیام گاہ جانے کے بجائے یہ فیصلہ کیا کہ کسی مطعم میں کھانا کھا لیا جائے، اور وقت ضائع کئے بغیر بخارا کے قابل دید اور قابل زیارت مقامات تک پہنچنے کی کوشش کی جائے، طے ہوا کہ بخارا اور اس کی ارد گرد بستیوں میں نقش بندی سلسلے کے جو چھ بزرگ مدفون ہیں پہلے ان کے قبروں کی زیارت کرلی جائے، کھانا کھانے کے بعد گائڈ ہمیں لے کر بخارا کے قریب ایک بستی میں پہنچا، اس کا نام ازوان ہے، یہاں بارہویں صدی کے بزرگ خواجۂ جہاں عبد الخالق ازوانیؒ کی قبر ہے، امام مالکؒ کی اولاد میں بتلائے جاتے ہیں، ۱۱۰۵ء میں پیدا ہوئے اور ۱۱۷۵ء میں وفات پائی، اس علاقے میں نقش بندی سلسلے کے سب سے پہلے بزرگ اور صوفی ہیں، ان کے پیر خواجہ یوسف ھمدانیؒ تھے، ھمدان ایران کا ایک مشہور شہر ہے، خواجہ عبد الخالق ازوانیؒ کے استاذ علامہ صدر الدینؒ تھے، کچھ دیر ہم یہاں ٹھہرے، حسب توفیق قرآن کریم پڑھ کر ایصال ثواب کیا، یہاں سے ہماری گاڑی شاہ پور پہنچی، جو اس جگہ سے پندرہ منٹ کے فاصلے پر واقع ہے، یہ بستی ایرانی بادشاہ شاہ پور دوم نے قبل مسیح آباد کی تھی، اس بستی میں خواجہ عبد الخالق ازوانیؒ کے خلیفہ خواجہ محمد عارف ایوگریؒ کا مزار ہے، ایوگر کے معنی ترکی اور ازبکی زبان میں ہیں چاقو پر دھار رکھنے والا، پیشے سے یہ بزرگ چاقو پر دھار رکھنے والے تھے، اپنے پیر کے عاشقِ زار تھے، ان کے متعلق اس علاقے میں یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ وہ اپنے پیرو مرشد کی نصائح سننے کے لئے اپنی آنکھوں میں نمک ڈال لیا کرتے تھے تاکہ نیند نہ آئے، یہاں سے اس سلسلے کے تیسرے بزرگ خواجہ محمود انجیر فغنوی کے مزار پر گئے، ان کا مزار بھی قریب ہی کی ایک بستی میں واقع ہے، یہ خواجہ عارفؒ کے خلیفہ ہیں، جتنے بھی مشہو ر مزارات ومقابر یہاں ہیں وہ سب نہایت وسیع اراضی پر تعمیر کئے گئے ہیں، چاروں طرف خوب صورت باغیچے اور چمن ہیں، پھر مزار کی اصل عمارت ہے، وہ بھی نہایت بلند اور خوب صورت، سب عمارتوں کے اندرونی وبیرونی حصوں پر قرآنی آیات لکھی گئی ہیں، اور جاذب نظر رنگوں سے پھول بوٹے بنائے گئے ہیں، ہر درگاہ کے قریب ایک مسجد بھی ہے، حمامات بھی ہیں، یہاں ہم نے عصر اور مغرب کی نماز پڑھی، اس کے بعد ہمارا قافلہ رامیتن پہنچا، ویسے تو یہاں سے رامیتن کا فاصلہ دس کلو میٹر ہے، لیکن ڈرائیور راستہ بھٹک گیا، بجلی غائب تھی، آبادیاں تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھیں، کہیں کوئی اللہ کا بندہ نظر آجاتا تو اس سے منزل کا پتہ پوچھ لیتے، اور اس کے بتلائے ہوئے راستے پر چل پڑتے، اندھیرے میں گائڈ کو بھی راستے کی شناخت نہ ہوپائی، بخارا کے مشہور مدرسے مدرسہ میر عرب کے ایک طالب علم محمود بھی ہمارے ساتھ تھے، وہ بھی ان راستوں سے انجان نکلے، دو گھنٹے سڑکوں پر بھٹکنے کے بعد ہم نقش بندی سلسلے کے ایک اور بزرگ خواجہ عزیزان علی رامیتنیؒ کے مزار پر گئے، چاروں طرف تاریکی اپنے پر پھیلائے ہوئے تھی، گاڑی کی آواز سن کر کچھ لوگ درگاہ کی عمارت سے نکل کر آئے، ان کے ہاتھوں میں لالٹینیں تھیں، ان میں دو تین لوگ وہ تھے جو مستقل درگاہ میں رہتے ہیں، اور اس عمارت کی دیکھ بھال کرتے ہیں، کچھ لوگ مستری مزور تھے، درگاہ میں عمارت کی تعمیر وتوسیع کا کام چل رہا تھا، پورے ازبکستان میں ہر جگہ مقابر ومساجد کی توسیع کا کام تیزی کے ساتھ چل رہا ہے، موجودہ حکومت ان عمارتوں کی آرائش وزیبائش پر دل کھول کر خرچ کررہی ہے، کچھ تو اس لئے کہ موجودہ اصحابِ اقتدار کو اپنے بزرگوں سے محبت وعقیدت ہے، دوسرے یہ کہ یہ ایک بیش قیمت تاریخی ورثہ ہے، اس کی حفاظت ضروری ہے، حکومت اس ملک میں سیاحت کو بھی فروغ دینے کے لئے کوشاں ہے، اس سلسلے میں وہ تاریخی عمارتوں کے رکھ رکھاؤ پر کافی توجہ دے رہی ہے، خاص طور پر نقش بندی سلسلے کے جو بزرگ یہاں مدفون ہیں ان کے مقابر ومزارات کو سیاحتی مقامات کے طور پر فروغ دینے کی کوشش چل رہی ہے، اس سلسلے میں خواجہ بہاء الدین نقش بندی کے مزار کے احاطے میں ایک کانفرنس بھی کل صبح کو منعقد ہوگی، معلوم ہوا کہ پوری دنیا سے نقش بندی سلسلے کے مشاہیر تشریف لا رہے ہیں، پاکستان سے حضرت مولانا ذوالفقار نقش بندی بھی تشریف لا چکے ہیں، یاسر نے امریکہ سے ان کی تشریف آوری کی اطلاع دی تھی اور ان کے خادم خاص محمد مصطفی مکی کا رابطہ نمبر بھی مجھے دیا تھا، رات کو جب ہم اپنے ہوٹل ’’ایشیا‘‘ پہنچے تو معلوم ہوا کہ پیر ذوالفقار صاحب بھی قریب ہی کے ایک ہوٹل میں مقیم ہیں، خیال ہوا کہ ہندوستان میں بھی یہ سلسلہ کافی پھل پھول رہا ہے، خود دار العلوم دیوبند کے کئی استاذ اس سلسلے میں داخل ہیں، یقینا وہاں سے بھی کوئی نہ کوئی ضرور آیا ہوگا، معلوم ہوا کہ ہندوستان سے کوئی نہیں آیا، صرف کشمیر سے ایک صاحب ڈاکٹر مدثر تشریف لائے ہیں، جو پیر ذوالفقار صاحب کے خاص لوگوں میں سے ہیں، میری ان سے ملاقات واپسی پر جہاز میں ہوئی، یہ کانفرنس حکومت کے تعاون اور سرپرستی میں منعقد کی گئی اور اس میں نقش بندی سلسلے کو فروغ دینے اور بزرگوں کے مزارات کو قابل سیاحت بنانے کے طور طریقوں پر غور کیا گیا۔
خواجہ عزیز ان علی رامیتنی کے بارے میں یہ سناگیا کہ اس جگہ ان کی قبر محض علامتی اور رمزی ہے، اصل مزار ان کا خیوہ میں ہے، مگر خیوہ میں کسی کو اس سلسلے میں کچھ پتہ نہ تھا، رات کافی ہوچکی تھی، سردی لگاتار بڑھ رہی تھی مگر ہمیں یہ سلسلۂ زیارت آج ہی ختم کرنا تھا، رامتین سے ہم خواجہ محمد باباسماسیؒ کی قبر پر پہنچے، یہ بھی قریب ہی ہے، ان کا مزار ایک احاطے میں بنا ہوا ہے، ابھی تک اس پر کوئی عمارت نہیں ہے، ہماری اگلی منزل خواجہ بہاء الدین نقش بندیؒ کا مزار ہے، یہ سلسلۂ نقش بندیہ کے اصل الاصول مانے جاتے ہیں، کہتے ہیں کہ پہلے چشتی وغیرہ سلسلوں کی طرح اس سلسلے میں بھی ذکر جہری کیا جاتا تھا، خواجہ بہاء الدینؒ نے ذکر جہری کو ذکر سری میں تبدیل کیا، اور اب سارے نقش بندی پیر ومرید ذکر سری ہی کرتے ہیں، ان کا مزار بڑے وسیع رقبے میں ہے، چاروں طرف کئی بڑی بڑی عمارتیں بنی ہوئی ہیں، خوب صورت مسجد بھی ہے، مہمان خانہ بھی ہے، دفاتر بھی ہیں، لائبریری بھی ہے، کانفرنس ہال بھی ہے، صبح کو اسی ہال میں نقش بندی بزرگ جمع ہونے والے ہیں، اندر ایک وسیع احاطے میں ایک اونچے چبوترے پر مزار مبارک ہے، اس چبوترے پر چاروں طرف آدمی کے قد سے بھی کچھ زیادہ اونچی دیوار کردی گئی ہے، اس دیوار میں کوئی کھڑکی یا دروازہ نہیں ہے، ایسا اس لئے کیا گیا ہے تاکہ لوگ اندر نہ جاسکیں، معلوم ہوا کہ اس مزار کو لوگوں نے سجدہ گاہ بنا لیا تھا، احاطے کی دیوار سے چند فٹ پہلے چاروں طرف تار بھی لگا دئے گئے ہیں تاکہ لوگ دیوار کو بھی ہاتھ نہ لگا سکیں اور نہ اسے چوم سکیں، ایک خاص بات جو ان مزارات میں ہمیں نظر آئی وہ یہ کہ یہاں بدعات وخرافات کہیں نہیں ہیں، ہم نے کسی کو قبر کے آگے جھکتے، یا سجدہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا، ہر مزار پر ایک امام حکومت کی طرف سے متعین ہے وہ وقفے وقفے سے قرآن کریم کی تلاوت کرتا رہتا ہے اور کچھ لوگ آجاتے ہیں تو ان کے ساتھ مل کر دعا بھی کرلیتا ہے، مگر کچھ فاصلے پر بیٹھ کر، البتہ قبر یں تمام کی تمام پختہ ہیں، اور ان پر ہرے رنگ کی چادریں بھی ڈالی گئی ہیں، چادروں پر قرآنی آیات بھی کندہ ہیں، ہمارے ملک کی طرح نذر ونیاز اور چڑھاوے کا کوئی سلسلہ یہاں نہیں ہے، نہ گداگر اور بھکاری نظر آتے ہیں، ہمارے ملک میں تو تمام درگاہیں بھکاریوں سے آباد رہتی ہیں، ہم لوگ خواجہ بہاء الدین نقش بندیؒ کے مزار پر کافی دیر ٹھہرے، دل بھی خوب لگا، ایصال ثواب کے بعد باہر نکلے تو رات کافی ہوچکی تھی، صبح سے سفر میں تھے، دل چاہ رہا تھا آرام کیا جائے، ابھی عشاء کی نماز بھی پڑھنی تھی، ہوٹل پہنچ کر پہلے عشاء کی نماز پڑھی، اس کے بعد بستر پکڑا، رات کے کھانے سے میں نے معذرت کردی، بھوک بھی نہیں تھی اور تھکن بھی بہت ہوگئی تھی۔
صبح ہوٹل سے باہر نکلے تو عجیب منظر تھا، چاروں طرف پرانے طرز کی عمارتیں تھیں، کسی عمارت پر گنبد بھی نظر آرہا تھا، اکثر عمارتیں ترکی اور ایرانی فن تعمیر کا شاہ کار تھیں، سب عمارتوں کا ایک رنگ تھا، پیلا، یہ عمارتیں کسی زمانے میں مدرسے، مسجدیں اور خانقاہیں تھیں، اب ان میں سے کچھ عمارتیں ہوٹل بن گئی ہیں، کسی عمارت میں بازار لگنے لگے ہیں، کل دوپہر ہم نے جس ہوٹل میں کھانا کھایا تھا وہ ایک مدرسہ تھا، آج بھی اس میں طلبہ کے رہائشی کمرے بنے ہوئے ہیں، لیکن اب اس مدرسے میں ریسٹورنٹ ہے، کمروں کے بیچ سے دیواریں ہٹاکر ہال بنا دئے گئے ہیں، ہم نے وہاں کھانا تو کھایا لیکن تاریخ کی اس ستمگری پر آنسو بھی بہاتے رہے، ایک عمارت کے سامنے رُکے، گائڈ نے بتلایا کہ یہاں دو مدرسے آمنے سامنے تھے، دونوں کی عمارتیں ابھی تک باقی ہیں، ان میں سے ایک مدرسہ عبد اللہ خاں کا بنایا ہوا ہے اور دوسرا اس کی ماں کا تعمیر کرایا ہوا ہے، دونوں مدرسے اب بند ہیں، ایک میں تھیٹر چل رہا ہے، بخارا کسی زمانے میں تجارت کا بڑا مرکز تھا، اصل میں یہ علاقہ وسط ایشیا کا علاقہ کہلاتا ہے، مغرب ومشرق سے تاجر حضرات اپنا اپنا سامان تجارت لے کر چلتے تو یہاں ضرور رکتے، شاہ راہ ریشم بھی یہاں سے گزرتی ہے یہ شاہ راہ شام وفلسطین، عراق، ترکی اور وسط ایشیاء کے ان علاقوں سے ہوکر افغانستان،پاکستان اور چین تک جاتی ہے، اس زمانے کی ایک بڑی عمارت بھی یہاں موجود ہے جس میں بازار لگا کرتا تھا، تاجروں کے قیام کے لئے عمارتیں بنائی جاتی تھی، ان کو سرائے کہا جاتا تھا، یہ عمارتیں بھی موجود ہیں، البتہ اب ان کا مصرف بدل چکا ہے، یہ قدیم بخارا ہے، اس سرزمین کا چپہ چپہ تاریخی داستانوں سے بھرا پڑا ہے، جب یہ علاقہ اپنے علمی اور تجارتی عروج پر تھا تو اس کی رونق کا کیا عالم رہا ہوگا، میں چشم تصور سے دیکھ رہا تھا کہ اہل علم کے قافلے بغلوں میں کتابیں دبائے ادھر ادھر رواں دواں ہیں، دوسری طرف دنیا بھر سے کاروان تجارت تجارتی سازو سامان لے کر یہاں پہنچ رہے ہیں، خریداروں اور بیچنے والوں کا ایک ہجوم ہے، جگہ جگہ خانقاہیں آباد ہیں، مسجدوں کے میناروں سے اذان کی آواز بلند ہورہی ہیں، اب یہ سب کچھ قصۂ پارینہ بن چکا ہے، مدرسے بند ہوگئے ہیں، مسجدیں ویران ہیں، بازاروں میں سناٹا ہے، کچھ سیاح ضرور ہیں جو ادھر اُدھر گھومتے نظر آتے ہیں، بخارا کی گلیوں میں گھومتے ہوئے دل بڑا اداس رہا، ایک دکان کے اندر گئے، سردار جی بیٹھے ہوئے قالین بیچ رہے تھے، اندر سے عمارت دیکھی تو اندازہ ہوا کہ یہ عمارت کبھی مسجد رہی ہوگی، اس میں محراب بھی بنی ہوئی تھی، دل کی عجیب کیفیت ہوئی، معلوم ہوا کہ ایسی سینکڑوں مسجدیں ہیں جو اب دکانوں یا مکانوں میں تبدیل ہوچکی ہیں، خیال ہوا کہ یہ امام بخاریؒ کا شہر ہے، امام صاحبؒ کا بچپن ان ہی گلیوں میں گزرا ہوگا، اپنی والدہ اور بھائی کے ساتھ حجاز مقدس جانے سے پہلے انھوں نے اپنی زندگی کے روز وشب اسی بخارا میں بسر کئے، حجاز سے واپس آکر بھی وہ یہیں رہے، کہیں آس پاس ہی ان کا گھر بھی رہا ہوگا، طبیعت میں اس کا تقاضا ہوا کہ ہمیں اس محلے میں ضرور جانا چاہئے، جہاں امام بخاریؒ رہتے تھے، اس تقاضے کا اظہار گائڈ کے سامنے کیا تو اس نے وعدہ کیا کہ وہ شام کو اس محلے کی زیارت ضرور کرائے گا۔ (باقی)