Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, December 6, 2018

مولانا سلمان ندوی کے نام ابنائے قدیم ندوہ کا کھلا خط۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مولانا سید سلمان صاحب حسینی ندوی کے نام کھلا خط
صدائے وقت۔بشکریہ مولانا سراج ہاشمی۔سلطان پور۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
محترم جناب مولانا سید سلمان حسینی ندوی مدظلہ العالی

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے کہ آپ ہر طرح بخیروعافیت ہوں گے !

ہم ابنائے ندوہ آپ کی خدمت میں اپنی کچھ گزارشات پیش کرنے کی  جسارت کر رہے ہیں، امید ہے کہ آپ توجہ فرمائیں گے اور ہماری گزارشات کو لائق اعتنا سمجھیں گے۔

ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ آپ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مایہ ناز فرزند ہیں اللہ تعالی نے آپ کو گوناگوں خصوصیات اور صلاحیتوں سے نوازا ہے، عالم اسلام اور بالخصوص برصغیر میں آپ کو بحیثیت ایک بے باک داعی، پرجوش خطیب، فقیہ، و محدث، اور مفسر قرآن کے شہرت و مقبولیت حاصل ہے، نیز آپ ایک تعلیمی ادارے کے بانی و ذمہ دار، ایک اسلامی تنظیم کے سربراہ اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے استاذ حدیث و فقہ وتفسیر ہیں۔

ہماری نظر میں آپ کی سب سے اہم حیثیت یہ ہے کہ آپ کو دارالعلوم ندوۃ العلماء سے انتساب حاصل ہے اسی بناء پر آپ کو شہرت و مقبولیت حاصل ہے اور لوگ آپ کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں، لہذا اس حیثیت سے آپ پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ نہ صرف یہ کہ آپ کا فرض  منصبی ہے بلکہ دینی فریضہ بھی ہے۔ ہم یاد دہانی کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ اس فرض منصبی اور دینی فریضہ کی ادائیگی آپ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

آپ دارالعلوم کے استاذ ہیں اس لیے دیگر اساتذہ کی طرح آپ پر بھی دارالعلوم کے نظام اور قوانین کی پابندی لازم ہوجاتی ہے، یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ آپ کی رہنمائی کے لئے آج ہمارے اکابر موجود ہیں جن سے آپ کو شرف تلمذ بھی حاصل ہے۔
  ان میں سرفہرست ناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم ہیں جو آپ کے اور ہم سب کے استاد و مربی ہیں، جن سے ہم نے زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھا، انہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ دین اور علم کی خدمت میں گزارا، اپنی زبان اور قلم سے کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی نہ کبھی جاہ و مال کی طلب میں کسی کی خوشامد کی اور نہ شہرت و مقبولیت کے حصول کے لیے جدوجہد کی، وہ اللہ کے ان نیک بندوں میں ہیں جن کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے "ِّمن الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْه".

شہرت و مقبولیت در اصل اپنی جدوجہد اور علمی قابلیت سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ یہ اللہ کا عطیہ ہے جو اپنے نیک بندوں کو عطا کرتا ہے، اس لیے پرجوش تقریروں اور اشتہار بازی سے وہ مقبولیت حاصل نہیں کی جاسکتی جو عطیہ الہی ہے۔

ہمارے بزرگ اساتذہ کرام میں مہتمم دارالعلوم مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی اور معتمد تعلیمات مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی دامت برکاتہم وہ عالم باعمل  ہیں جن کی شخصیت زہد و تقوی اخلاص و للہیت اور علم و عمل کا پیکر ہے؛ یہ دونوں  حضرات آپ کے بھی استاد ہیں، انہوں نے اپنی پوری زندگی درس و تدریس میں بسر کردی، ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جو اپنے علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔

ہم نے سابق ناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمة اللہ علیہ کا دور نظامت بھی دیکھا ہے، ان کا دور نظامت ندوہ کی تاریخ کا سب سے تابناک دور ہے، انہوں نے جو اپنا علمی ورثہ چھوڑا ہے وہ بڑا وقیع قیمتی اور ہمارے لئے سبق آموز ہے ۔

ان کے قلم یا زبان نے کبھی لغزش نہیں کی، انہوں نے طلبہ، علماء، عوام اور امراء وملوک سب کو خطاب کیا اور سب کے سامنے حق بات کہی؛ لیکن کبھی جذبات سے مغلوب ہو کر ادب و شائستگی کا دامن نہیں چھوڑا، انہوں نے کبھی مختلف فیہ مسائل کو نہیں چھیڑا اور تمام مکاتب فکر کا احترام کیا؛ اس لئے ہر طبقہ میں مقبول رہے اور ان کی بات کو اہمیت دی گئی، نظامت کے ساتھ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت و رہنمائی کا کام بھی بحسن و خوبی انجام دیا۔

اس کے برعکس آپ ہر بات میں کوئی نہ کوئی اختلاف کا پہلو نکال لیتے ہیں اور اختلاف میں ایسی شدت پیدا کردیتے ہیں جسے انتہاپسندی کہنا بے جا نہ ہوگا، آپ کا اصل میدان تدریس ہے لیکن اس کو آپ زیادہ اہمیت نہیں دیتے، آپ کے گھنٹے عموما خالی ہوتے ہیں اور آپ امت اسلامیہ کی اصلاح کے لئے ملک و بیرون ملک کے اسفار میں مشغول ہوتے ہیں، کیا یہ فرض منصبی کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں ہے؟ کیا آپ دارالعلوم کے نظام الاوقات کے پابند نہیں ہیں؟ کیا مہتمم صاحب یا ناظم صاحب آپ کا مواخذہ نہیں کرسکتے؟ یا آپ تمام انتظامی اور قانونی پابندیوں سے بالا تر ہیں؟ اگر یہی رویہ دوسرے اساتذہ کرام کا بھی ہو تو دارالعلوم کا کیا حشر ہوگا؟

آپ عموما جن موضوعات پر لکھتے یا بولتے ہیں وہ مختلف فيہ ہوتے ہیں اور جب کسی کو مخاطب کرتے ہیں تو اس کے مرتبہ و مقام کا لحاظ نہیں کرتے، اس لیے حد سے تجاوز کر جاتے ہیں اور پھر جب ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے تو رجوع بھی فرماتے ہیں۔ رجوع کرنا بذات خود کوئی برا عمل نہیں ہے لیکن بار بار آپ کو اس کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟

عالم اسلام اس وقت جس نازک صورتحال سے گزر رہا ہے وہ ہمارے لیے باعث تشویش ہے لیکن ہندوستان کی سیاسی صورتحال ہمارے لئے اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل پر تو آپ کی زبان خاموش ہے لیکن جب عالم اسلام کے مسائل پر آپ بولتے ہیں تو حد سے زیادہ مشتعل ہو جاتے ہیں اور جوش خطابت میں ایسی زبان استعمال کرتے ہیں  جو انتہائی جارحانہ ہوتی ہے؛ اس سے اصلاح کے بجائے فتنہ کی آگ اور بھڑک اٹھتی ہے۔ یقینا کسی مصلح کا طریقہ کار یہ نہیں ہوسکتا؛  یہی وجہ ہے کہ آپ کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے اور اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا، ہاں اتنا      ضرور ہوتا ہے کہ آپ کی اشتعال انگیز تقریروں اور تحریروں سے ندوہ کو فائدے کے بجائے نقصان پہونچ جاتا ہے ۔

حضرت معاویہ اور خلفائے راشدین کے سلسلہ میں آپ کا موقف اور بیان شیعہ فرقے کی تایید میں جاتا ہے جس نے ندوہ کے لئے ایک نازک صورتحال پیدا کردی اور  نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت ناظم صاحب کو آپ کے موقف سے براءت کا اعلان کرنا پڑا۔

بابری مسجد کے سلسلے میں پرسنل لا سے آپ کا اختلاف بھی افسوسناک ہے، مسلمانوں کے اجتماعی مسائل جو باہم مشورہ سے حل کیے جاتے ہیں ان میں آپ کی انفرادیت قابل مواخذہ ہے؛ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں آپ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اندر رہتے ہوئے اختلاف کرتے ہیں جس کی ہم تحسین کرتے ہیں لیکن بابری مسجد کے سلسلے میں آپ مسلم پرسنل بورڈ سے الگ ہو کر کچھ لوگوں کے ساتھ باہر سمجھوتہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، آپ کے اس فعل سے مسلم پرسنل لا بورڈ اور ملی اتحاد کو دھکا لگ سکتا تھا لیکن الحمد للہ اللہ تعالی نے بورڈ کو کسی بھی قسم کے انتشار سے محفوظ رکھا۔

کچھ مفاد پرست اور چاپلوس لوگ  اپنے مفادات کے لئے آپ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور آپ کی ہر بات کی تائید کر کے یہ احساس دلاتے ہیں کہ آپ حق پر ہیں، حالانکہ یہ بات قرین قیاس نہیں ہے  آپ کے سوا سب غلط ہیں اور کسی کو حالات و مسائل کی نزاکت کا ادراک و علم نہیں ہے۔

آپ نے سیاسی میدان میں بھی طبع آزمائی کی اور اس کا نتیجہ دیکھ لیا، یہ حقیقت ہے کہ ہم سیاست سے دور نہیں رہ سکتے اور ہمیں سیاست میں بھی حصہ لینا چاہیے؛ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی دارالعلوم کا استاد، جو فقیہ و محدث اور مفسر بھی ہو، ایم پی اور ایم ایل اے کے امیدوار کے طور پر براہ راست الیکشن میں حصہ بھی لے۔ عالم دین کا منصب اس سے بہت بلند ہے، اس کا کام قوم و ملت کی رہنمائی کرنا اور اس کی دینی قیادت کا فریضہ انجام دینا ہے۔ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت کے جانشین موجودہ ناظم صاحب بھی سیاسی لیڈروں کے پیچھے کبھی نہیں گئے؛  اس لئے کہ سیاست ان کا اصل میدان عمل نہیں ہے، اس کے باوجود ان کا سیاسی اثر و رسوخ بھی آپ سے زیادہ ہے؛  اس لئے ہر سیاسی پارٹی یہ کوشش کرتی ہے کہ الیکشن میں حضرت کی تائید حاصل ہو جائے تاکہ وہ مسلمانوں کا ووٹ حاصل کر سکے۔آپ کو بھی انہی بزرگوں کے نقش قدم پر چلنا چاہیے تاکہ یکسوئی سے علمی کام کر سکیں ، لیکن اپ ایسا نہیں کرتے بلکہ باقاعدہ سیاسی پارٹیوں کی انتخابی مہم کا حصہ بن جاتے ہیں اور ان کے لئے ووٹ مانگتے ہیں۔
اگر آپ اپنے طریق کار کو تبدیل نہیں کرسکتے دارالعلوم کے نظام اور قوانین کی پابندی نہیں کر سکتے تو خدا را آپ اس کے وقار کو مجروح نہ کریں، آپ کے لئے بہتر یہی ہوگا کہ دارالعلوم سے علیحدگی اختیار کرلیں اور پھر اس کے بعد آزادی کے ساتھ جو دل چاہے کریں اور کہیں ۔

یہ خط ہم محض "الدین النصیحۃ" کے جذبہ سے آپ کی خدمت میں ارسال کر رہے ہیں ہے، اس لئے بڑی صراحت اور وضاحت سے اپنے جذبات  کا اظہار کیا ہے؛ اور یہی خیر خواہی کا تقاضا بھی ہے۔

وما علینا الا البلاغ

و السلام

یہ خط ہندوستان اور بیرون ملک مقیم ہزاروں فرزندان ندوہ کے جذبات کا ترجمان ہے۔ چند کے نام درج ذیل ہیں۔

ابنائے ندوہ، دوحہ:

ڈاکٹر عطاء الرحمن ندوی،
محمد عبد الحی ندوی، محمد حشمت اللہ ندوی، محمد شاہد خان ندوی، عبد الحسیب ندوی، ڈاکٹر ضیاء اللہ ندوی اور دیگر ہم خیال ابنائے ندوہ۔

عمران سعید ندوی، بمبئی، ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، دلی، نجم الحسن ندوی، بحرین، ڈاکٹر طارق شفیق ندوی، یو پی۔