Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, January 21, 2019

شعری افلاس

از/ شرف الدین عظیم قاسمی الاٙعظمی۔
صدائے وقت/ ماخوذ/ مولانا محمد اکرم قاسمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
     قوموں پر جب علمی ،ادبی یا فکری زوال آتا ہے تو  سود وزیاں کی تمیز اٹھ جاتی ہے، حقیقت بے معنی اور سراب چشمہ صافی نظر آنے لگتا ہے،
برصغیر میں اردو زبان کی بہت زیادہ عمر نہیں ہے،لیکن قطب شاہ قلی سے لیکر ساحر کیفی،ساغر اور کلیم عاجز تک اس خوبی سے اس زبان کی تعمیر،تہذیب اور تزئین کی ہے اور اس طرح اس کے گیسوؤں کو سجایا سنوارا اور نکھارا کہ شعری صنف کے حوالے سے یہ زبان دنیا کی اور زبانوں کے بہ نسبت انتہائی ثروت مند اور مستحکم ہوگئی،

لیکن ایک دہائی سے اس صنف میں بڑی تیزی سے زوال آیا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ مادیت اور سستی شہرت کا حصول ہے،اس متاع کے لئے ضمیر کو فروخت کردیا جاتا ہے،ظرف کی سوداگری کی جاتی ہے'، علم کے کا تقاضا نہیں بلکہ عوام کا مزاج دیکھا جاتا ہے،اور ان کے مذاق کی ضیافت کے لئے ادبی و شعری مزاج کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔
ادب کی پرورش کرنے والوں کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ خلوص نیت سے شاعری کی زلف پریشان کو سنوارنے کا عمل انجام دے،

مگر یہ چیز اسی وقت کرداروں کی صورت میں ظہور پاسکتی ہے'،جب تخیل کی بلند پروازی ہو،احساسات کو شعری پیکر میں ڈھالنے کا ہنر ہو، زبان کے محاورات پر اس کی گرفت ہو، تشبیہات و استعارات کی معلومات کے علاوہ انہیں استعمال کرنے کا سلیقہ ہو، تجربات و مشاہدات کو لفظوں کے طلسم میں قید کرنے کا فن ہو،تلمیحات کی لطافت کے ذریعے معانی کا جہاں آباد کرنے کا ملکہ ہو،

مذکورہ محاسن کے بغیر وجود میں آنے والی چیزیں بے ہنگم لفظوں کی بازیگری تو ہو سکتی ہے حقیقی شاعری قطعاً نہیں،

اس معروض کی روشنی میں اب ملک کے خود ساختہ شہرہ آفاق شاعر عمران صاحب کے کلام کو دیکھ لیں۔اندازہ ہوجائے گا کہ ان کی شاعری ادب کی شعری صنعت سے کتنا میل کھاتی ہے'، فنی لحاظ سے شعر و ادب سے اس کا کتنا تعلق ہے، ادبی محاسن جو شعری کے لئے لازم و ملزوم ہیں اس کے کلام میں کہیں اس کی رمق بھی نہیں پائی جاتی ہے،
اس طرح کے شعراء کے اذہان فنون شاعری سے چونکہ تہی مایہ ہوتے ہیں،ادب کی پرورش کے لئے ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا ہے'،
اس لیے جھوٹی عزت اور مصنوعی بلندیوں کے لئے عوام کی نفسیات کے مطابق سوقیانہ کلام سے ان کی ضیافت کرتے ہیں اور اسی زینے سے شہرتوں کے آسمان پر پہونچتے ہیں'،ظاہر ہے'یہ فن شعر کے ساتھ بدترین خیانت اور ادب کا خون ہے'،

تخیلات کی پاکیزگی،افکار کی بلندی،اور تجربات و مشاہدات کی قوت کے ذریعے معاشی تنگیوں کے باوجود خودداری اور وضعداری کے ساتھ پرورش لوح وقلم کرنے والے ادب کے ستاروں سے انہیں کیا نسبت؟
جو شاعری کی روح سے خالی غیر معیاری کلام اور مبتذلانہ وسوقیانہ کلام کے ذریعے عوامی اسٹیج پر آکر ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ کی خطیر رقم سے اپنے شب وروز روشن کرتے ھوں،

کسی کلام کے حسین وخوبصورت،اور معیاری ہونے کے لئے شہرتوں کا پر لگ جانا، عوامی سطح پر تسلیم ہو تو ہو، مگر
علمی محفلوں میں یہ سبب قطعاً کوئی معنی نہیں رکھتا،اور نہ ہی اس کی کوئی حیثیت ہے'۔

مذکورہ شاعر کی مدح کے وقت حسد کے متعلق جذبات کی رو میں لکھنے والا یہ بھول گیا کہ حسد کا وجود اس مقام پر ہوتاہے جہاں اثاثوں کی ایک دنیا آباد ہوتی ہے، جو زبنبیل کمالات کے سرمائے سے تہی دست ہے'،
ادبی محاسن کے حوالے جہاں مفلسی پاؤں پسارے ہوئے ہو،وہاں اس چیز کا کیا معنیٰ؟

انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ تاریکیوں کے دروازے پر اجالوں کی بھیک کے لئے دستک نہیں دی جاتی،
تپتے صحراؤں سے پیاس اور خشکی کا شکوہ نہیں کیا جاتا ہے،
ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ جاہل اور بے ضمیر عوام کی بھیڑ کا ایسے لوگوں کو حد سے شہرتوں سے نوازنا،انھیں مستند شعراء کے مقابلے میں ترجیح دینا،یقینا اردو زبان  کے معیار کی پستی کا ثبوت فراہم کرناہے،

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی