Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, January 22, 2019

تعلیم میں دینی و دنیوی اصطلاح۔

صدائے وقت/ نمائندہ خاص۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  . . . . . . 
آج کل ہم مسلمانوں میں بھی تعلیم کی نسبت سے دینی تعلیم اوردنیوی تعلیم کی اصطلاح قائم ہوگئی ہے، قرآن وحدیث کی تعلیم کو دینی تعلیم تصور کیا جاتا ہے اور عصری علوم کے سیکھنے سکھانے کو دنیوی تعلیم کہا جاتا ہے؛ حالاں کہ اسلام نے علم کی ایسی کو تقسیم نہیں کی ہے؛ بلکہ علم کی دو ہی قسمیں کی گئی ہیں “علم نافع” اور “علم غیرنافع” جو علم انسانیت کے لیے مفید اور کارآمد ہو وہ “علم نافع” ہے اور جو علم انسانیت کے نافع ہونے کے بجائے نقصان رساں ہو اور تعمیر کے بجائے تخریب کی طرف لے جاتا ہو وہ “علم غیر نافع” ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم نافع کی دعا مانگی ہے اورعلم غیرنافع سے پناہ چاہی ہے۔
میڈیکل تعلیم ہو، انجینئرنگ کا فن ہو یا تکنیکی تعلیم کے دوسرے شعبے ہوں، یہ جب انسانی خدمت اور انسانیت کی فلاح وبہود کے ذرائع ہیں اور یقینا یہ علم نافع کی فہرست میں آتے ہیں، ان کا حاصل کرنا قابل تعریف ہے نہ کہ لائق مذمت، اسی لیے امام شافعی سے منقول ہے کہ اصل علم دو ہی ہیں، ایک علم فقہ تاکہ آدمی زندگی بسر کرنے کا سلیقہ سیکھے، دوسرے فن طبابت تاکہ جسم انسانی کی بابت معلومات حاصل ہوسکے: “العلم علمان: علم الفقہ للأدیان، وعلم الطب للأبدان” (مفتاح السعادة، ص:۳۰۲) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ریاضی اور بعض اور فنون کا بھی ذکر کیا ہے۔ (حوالہٴ سابق)
اسلام نہ کسی علم کا مخالف ہے اور نہ کسی زبان کا، قرآن مجید نے کتنے ہی ایسے حقائق پر روشنی ڈالی ہے جن کا تعلق فلکیات، طبعیات، نباتات اور حیوانات کے علوم سے ہے، خود انسان کی اندرونی جسمانی کیفیات، اس کی مرحلہ وار پیدائش اور اس کی نفسیات کا بھی بار بار تذکرہ کیا گیا ہے، گزشتہ اقوام کے قصص وواقعات ذکر کیے گئے ہیں، ان کی آبادی اور ان پر ہونے والے عذاب خداوندی کے محل وقوع کی طرف اشارے کیے گئے ہیں اور پھر ان تمام چیزوں میں غور وفکر اور تدبر کی دعوت دی گئی ہے، ظاہر ہے کہ یہ تدبر ان علوم کی تحصیل کے بغیر کیوں کر ممکن ہوگا، اوران کو حاصل کیے بغیر کیسے ان میں تفکر کا حق ادا کیا جاسکتا ہے؟
پس ان علوم کو حاصل کرنا جن سے کائنات کے اسرار ورموز کو جانا جاسکے، قرآن مجید کا عین مطلوب ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں دوسری اقوام سے جو جدید تکنیک حاصل ہوسکتی تھی، اس میں کسی بخل سے کام نہیں لیا اور اس کو کبھی تقاضہٴ دین کے منافی تصور نہیں فرمایا۔ مدینہ کے لوگ زراعت پیشہ تھے اوراسلام سے پہلے کھجور کے نر اور مادہ درخت میں اختلاط کی ایک خاص صورت اختیار کرتے تھے، جس کو “تابیر” کہا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء اسے بے فائدہ اور فضول عمل تصور کرتے ہوئے اس سے منع فرمادیا؛ لیکن جب اس سال پیداوار کم ہوئی اور لوگوں نے آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ عیلہ وسلم نے اپنی رائے پر اصرار نہیں فرمایا اور آئندہ ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ تم اپنے دنیا کے اُمور کے بارے میں زیادہ واقف ہو “أنتم أعلم بأمور دنیاکم”۔ (مسند احمد: ۱۲۳۶)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض غزوات میں “منجنیق” کا استعمال فرمایا، یہ گویا اس زمانہ کی توپ تھی، جس کے ذریعے پتھر کی چٹانیں دور سے دشمن کے قلعوں اور فصیلوں پر پھیکی جاسکتی تھیں، فتح مکہ کے بعد جب بنوثقیف پر فوج کشی کی تو بنوثقیف کی ماہرانہ تیراندازی نے مجاہدین کو بڑی دشواری میں ڈال دیا، اس موقعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی گاڑیاں بنوائیں، جس پر اوپر چمڑے کا غلاف ڈالا گیا؛ تاکہ دشمن کے تیر چمڑے میں پھنس کر رہ جائیں اور مجاہدین قلعہ کی فصیل تک پہنچ سکیں، غزوہٴ خندق کا واقعہ تو مشہور ہی ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان جنگ کی پشت پر پہاڑیوں کو رکھتے ہوئے آگے کی سمت طویل وعریض خندق کھدوائی، یہ عربوں کے لیے بالکل نیا تجربہ تھا اور اس حسن تدبیر کے نتیجہ میں اعدائے اسلام کی متحدہ قوت (جو تقریباً دس ہزار افراد پر مشتمل تھی) خاسر وناکام واپس ہوئی اور اسلام کا ایسا رعب قائم ہوا کہ پھر کبھی اہل مکہ کو مدینہ کی طرف دیکھنے کی ہمت نہ ہوئی۔
اسی لیے اسلامی عہد میں قدیم سائنسی علوم کو نہ صرف قبول کیا گیا؛ بلکہ ان علوم کا ترجمہ اور ان پر مزید ریسرچ اور تحقیق کو جاری رکھنے کے لیے دارالخلافہ بغداد میں “بیت الحکمت” کا قیام عمل میں آیا اور مسلمان سائنس دانوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے کہ علم وفن کی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر ادھوری اور ناتمام رہے گی، چنانچہ خود منصف مزاج اور حقیقت پسند مغربی مصنفین نے بھی مسلمانوں کے اس علمی اور تحقیقی کارنامہ کا اعتراف کیا ہے اور اسے خراج تحسین پیش کیا ہے۔
یہی حال لغت اور زبان کا ہے، زبان کا ہے، زبان کوئی بھی اچھی اور بری نہیں ہوتی، زبان تو محض ذریعہٴ اظہار ہے، اگر اس کا استعمال خیر اور نیکی کی تبلیغ واشاعت کے لیے ہو تو قابل تعریف اور لائق ستائش ہے اور زبان خواہ کوئی بھی ہو، اگر اس کو برائی کی دعوت واشاعت کا وسیلہ بنالیا گیا تو اس سے زیادہ نامبارک بات کوئی نہیں ہوسکتی، عربی زبان، قرآن وحدیث کی زبان ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی اہل جنت کی زبان ہوگی، لیکن اسی زبان میں بعض ایسی اسلام دشمن اور اخلاق دشمن تحریریں وجود میں آئیں کہ جن سے شاید شیطان کو بھی شرم آتی ہوگی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام زبانیں اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کی ہوئی ہیں، قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرقوم میں انھیں کی زبان میں اپنا کلام نازل فرمایا ہے، تو نہ معلوم کتنی زبانیں ہیں جن کو اللہ کے کلام کے حامل ہونے کا شرف حاصل ہے، اس لیے کسی مسلمان کے لیے یہ بات ممکن نہیں کہ وہ کسی بھی زبان کو بحیثیت زبان برا تصور کرے اور ان کے سیکھے سکھانے کو بددینی اور گمراہی سمجھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ذہین رفیق حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو باضابطہ عبرانی زبان سیکھنے کی ترغیب دی تہی، جسے بہت کم عرصہ میں انھوں نے سیکھا اور اس زبان کے سمجھنے اور سمجھانے کے لائق ہوئے؛ بلکہ کہا جاتا ہے کہ وہ چھ زبانوں سے واقف تھے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فارسی زبان سے واقف تھے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی قدر فارسی میں بھی گفتگو کرلیتے تھے۔
نہ جانے کہاں یہ یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی کہ علماء جدید علوم اور انگریزی زبان کے حاصل کرنے کو منع کرتے ہیں یا یہ کہ کسی زمانے میں انھوں نے اس سے منع کیا تھا، یہ محض غلط فہمی؛ بلکہ بہت بڑا مغالطہ ہے، علما نے کبھی اس کی مخالفت نہیں کی، مولانا محمد قاسم نانوتوی نے جب دیوبند میں دارالعلوم کی بنیاد رکھی تو سنسکرت زبان کو بھی داخل نصاب فرمایا، سنسکرت زبان میں مشرکانہ محاورات وتعبیرات زیادہ ہیں، یہ بات کیوں کر سوچی جاسکتی ہے کہ مولانا نانوتوی سنسکرت زبان کے مخالف نہ ہوں اور اگریزی زبان کے مخالف ہوں، دیوبند کے نصاب میں شروع ہی سے انگریزی جیومیٹری اور فلسفہ داخل نصاب رہا۔
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی دوسری عصری درسگاہ جامعہ ملیہ ہے، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی نے اس کی بنیاد رکھی اس کے افتتاح میں نہایت بلیغ خطبہٴ صدارت ارشاد فرمایا اور اس یونیورسٹی کے قیام کی ستائش کی، دارالعلوم ندوة العلماء کی بنیاد ہی اسی نقطہٴ نظر کے تحت پڑی کہ دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کا بھی ایک متوازن حصہ شریک نصاب رکھا جائے، مولانا اشرف علی تھانوی نے تو انگریزی زبان کے حصول کو فرض کفایہ قرار دیا ہے، مولانا نانوتوی کی جب ایک انگریز سے اسلام کے بارے میں ترجمان کے واسطے سے گفتگو ہوئی اور آپ نے محسوس کیا کہ وہ آپ کی ترجمانی کا حق ادا نہیں کرپارہا ہے تو آپ کو اس پر بڑا افسوس ہوا اور اس وقت آپ نے اس ضرورت کا احساس فرمایا کہ فی زمانہ علماء اور مبلغین اسلام کے لیے انگریزی زبان سے واقفیت بھی ضروری ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ علماء نے کبھی بھی انگریزی زبان اورعصری علوم کی مخالفت نہیں کی، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہندوستان میں بعض ایسی شخصیتیں عصری تعلیم کا جھنڈا لے کر اٹھیں جو اگرچہ اسلام اور مسلمانوں کے تئیں مخلص تھیں؛ لیکن جیسا کہ عام طور پر مفتوح قومیں فاتحین کے سامنے نہ صرف مادی اور فوجی اعتبار سے ؛ بلکہ فکری اور ثقافتی اعتبار سے بھی سپرانداز جاتی ہیں اور احساس مرعوبیت میں مبتلا ہوکر فاتحین کے افکار اور ان کی تہذیب وثقافت کو رشک وتحسین کی نگاہ سے دیکھنے لگتی ہیں، اسی طرح انھوں نے بھی مغرب سے آنے والی ہرچیز پر لبیک کہنا شروع کیا، علماء کو اس انداز فکر سے اختلاف تھا، نہ کہ عصری تعلیم اور اس درسگاہ سے،جہاں تک ان مدارس کی بات ہے جہاں خالص اسلامی علوم وفنون پڑھائے جاتے ہیں تو وہاں پوری طرح عصری علوم کو شامل نصاب کرنا طلبہ کو بیک وقت دونوں علوم سے محروم کردینے کے مترادف ہوگا، اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اسلامی علوم وفنون کی کم ازکم تعداد چودہ پندرہ تو ہے ہی، پھر ان میں سے ہرفن کی مختلف اور متعدد شاخیں ہیں، ان سب کا حق ادا کرتے ہوئے عصری علوم کو بھی بہ کمال وتمام شامل نصاب رکھنا عملاً ایک ناممکن امر ہے، اسی لیے ان مدارس کے نصاب میں عصری علوم کا حصہ کم رکھا گیا ہے؛ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ علماء اور دینی جامعات عصری تعلیم کی مخالف ہیں۔
اس وقت اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ مسلمان اعلیٰ فنی تعلیم کی طرف توجہ دیں اور کوشش کریں کہ ہمارے سماج میں کوئی بچہ تعلیم سے محروم رہنے نہ پائے، تعلیمی سروے سے یہ بات ظاہر ہے کہ پرائمری سے ہائی اسکول تک پہنچتے پہنچتے مسلمان بچوں کی بڑي تعداد تعلیم چھوڑدیتی ہے، کالج تک جو تعداد پہنچ پاتی ہے ان کا تناسب اور بھی کم ہوجاتا ہے اور ظاہر ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور مسابقتی امتحان تک ان کا تناسب ناقابل شمار حد تک کم ہوجاتا ہے، یقیناً ان میں سے بہت سے بچے ذہین وذکی ہوتے ہوں گے اور محض اقتصادی حالات کی وجہ سے انھیں ترک تعلیم کرنا پڑتا ہوگا، آپ ہندوستان کے کسی بھی بڑے شہر میں چلے جائیں اور ہوٹلوں میں معمولی درجہ کا کام کرنے والے چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھیں، ان میں اکثریت مسلمان بچوں کی ہوگی، ان کی آنکھوں میں ذہانت جھانکتی ہوگی اور ان کی پیشانیوں پر فراست کی چمک ہوگی؛ لیکن معاشی حالات نے ان کے پاوٴں تھام لیے ہیں اور وہ اس بات پر مجبور ہیں کہ برتن دھوکر اور جھاڑودے کر اپنا اور اپنے گھروالوں کا پیٹ بھریں۔
بدقسمتی سے جو ادارے اقلیتوں کی طرف منسوب ہیں اور ان کو مسلم ادارہ سمجھا جاتا ہے وہ عام طور پر تعلیم کو ایک مقدس قومی فریضہ سمجھنے کے بجائے ایک ایسی “تجارت” کا تصور رکھتے ہیں جو کم خرچ میں زیادہ سے زیادہ اور جلد سے جلد نفع حاصل کرنے کے اصول پر مبنی ہے، غریبوں پر ان اداروں کا دروازہ بند ہے اور انھیں لوگوں کے لیے یہاں حصول تعلیم کی گنجائش ہے جو خطیر اور کثیر رقم خرچ کرکے غیراقلیتی اداروں میں بھی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں، کاش! قوم کا ہرفرد پوری امت کو ایک خاندان اورایک کنبہ تصور کرنے کو تیار ہو، قوم کے بچوں کی جہالت اور تعلیم سے محرومی ان کو اسی طرح بے چین کردے، جیسے خود اپنے بچوں کی جہالت اور آج کے “تاجران علم” اس بات کا احساس کریں کہ تعلیم ایک عبادت نہ کہ تجارت۔مدرسہ