Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, January 22, 2019

کالا پانی !!! سیلولر جیل(cellular jail)

جزائر انڈمان و نیکو بار آزاد ہندوستان کا ایک حصہ ہے ۔آزادی سے قبل ایک غیر آباد علاقہ تھا جہاں پر مجاہد آزدی کو سزا کے طور پر بھیجا جاتا تھا جسے کالا پانی کی سزا کہا جاتا ہے ۔اس کا استعمال بطور جیل / سزا 1857 سے 1947 تک ہوا۔

صدائے وقت / فیچر. / کالا پانی 1857---1947۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
کرہ ارض کی سب سے خوفناک جیل!
جہاں سے فرار قید سے زيادہ المناک تھا
کالی کیچڑ والی دلدلوں سے بھرے، بچھو کے سآئز کے مچھر، خطرناک سانپ اژدھوں بچھوئوں، جونکوں اور عجیب و غریب قسم کے بے شمار اقسام کے زہریلے کیڑوں مکوڑوں  اور چھپکلیوں کی بھرمار!
شاید آج بھی یہاں رات کی تاریکی میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کرھلاک ہونے والے لاکھوں قیدیوں کی سسکیاں، چیخیں اور کراہیں سنائ دیتی ہوں اور روحیں بھٹکتی ہونگی!
جہاں زندگی سسک سسک کر موت کی دعأئیں مانگتی تھی!

کالا پانی کے نام سے کون واقف نہیں۔
سیلولر جیل جو کالا پانی کے نام سے معروف ہے (کالا لفظ سنسکرت زبان کے لفظ کال سے مشتق ہیں جس کے معنی وقت یا موت کے ہیں)، جزائر انڈمان و نکوبار میں واقع ایک استعماری جیل تھی۔ ہندوستان کے استعماری عہد میں برطانوی حکومت خصوصاً اپنے سیاسی قیدیوں کو یہاں جلا وطن کرتی تھی۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کے دوران میں متعدد معروف تحریکی افراد یہاں قید رہے جن میں محمود حسن دیوبندی، حسین احمد مدنی، جعفر تھانیسری، بٹوکیشور دت اور ویر ساورکر وغیرہ کے نام ملتے ہیں۔ اب اس جیل کی عمارت کو ایک یادگار قومی عمارت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے
یہ  ایک ایسی جیل تھی جس کا نام ہی خوف و دہشت اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کی علامت تھا۔ یہ جیل خاص طور پر ان افراد کے لئے تھی جن کو انگریز سرکار نشان عبرت بنا دینا چاہتی تھی۔ ایسا باغی یا سیاسی مخالف جس کو صرف سزائے موت دینے سے انگریز کی تسکین نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ اس کو تڑپا تڑپا کر اور سسکا سسکا کر مارنا چاہتے تھے۔ ایسے افراد کو کالا پانی بھیج دیا جاتا تھا۔ یہ کالا پانی آخر کیا تھا اور کہاں تھا؟ اکثر لوگ کالا پانی کے نام سے تو واقف ہیں لیکن اس کے بارے میں مزید کچھ معلوامات نہیں رکھتے۔ یہ ایک پراسرار راز سمجھا جاتا ہے۔ اس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو کالا پانی کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے اور ان رازوں سے پردہ اٹھایا جائے جن سے آپ واقف نہیں۔
اگر  آپ برصغیر کے نقشے کو دیکھیں تو ہندوستان  کے مشرق میں موجود بحر ہند کی خلیج بنگال میں ملائشیا  سے کچھ فاصلے پرچھوٹے چھوٹے جزائر کی ایک پٹی نظر آئے گی۔ یہ جزائر انڈمان کہلاتے ہیں۔  ان جزائر کو ہی انگریز نے ایک ایسی جیل اور قیدخانے میں بدل دیاجہاں سے فرار ناممکن تھا۔ پہلے ہم زرا یہ جانتے ہیں کہ یہ جزائر اتنے بھیانک و خوفناک کیوں تھے۔
جزائر انڈمان نکو بار بحرِ ہند میں واقع ہیں۔ ہندوستان سے جزائر انڈمان نکو بار کی غیر معمولی دُوری کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ انڈومان کی جنوبی سرحد سے ملیشیا صرف ایک سو کلومیٹر دور ہے ،اسی طرح اس کی سرحد کی لمبائی کا اندازہ صرف اس سے ہوتاہے کہ اس کی شمالی سرحد سے برما صرف ایک سو بیس کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے ،انڈومان پوری دنیا میں اس اعتبار سے اپنی الگ پہچان رکھتا ہے کہ وسطی انڈومان میں تقریباً ساڑھے چھ سو مربع کلومیٹر کے جزیروں میں پتھروں اور فولاد کے زمانہ کے تہذیب وتمدن سے عاری وحشی قسم کے لوگ آج بھی موجود ہیں جو ہمیشہ برہنہ رہتے ہیں ،پوری دنیامیں ان کی زبان کوئی نہیں سمجھ سکتا ،وہ مہذب انسانوں سے دور بھاگتے ہیں ،زندگی بھر جنگلوں سے باہر نہیں نکلتے ،ان کے سر گول ہیں اور آنکھیں باہر نکلی ہوئی
لیکن ان کے دانت نہایت چمکیلے وسفید اور بال گھنگریالے ہیں ،ان کی غذا کیڑے مکوڑے ، سمندری کیچوے اور جنگلی پھل ہیں،آج بھی وہ ماچس کے بجائے پتھر رگڑ کر آگ جلاتے ہیں ،ان کے مکانات اور رہن سہن کو دیکھ کر ہر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ حضرت آدم کے زمانہ کے قرن اول کے لوگ ہیں ۔ زمانہ میں رونما ہونے والے کسی بھی واقعہ یا زمین پر ہونے والے کسی بھی حادثہ کا نہ ان کو علم ہے نہ اس سے کوئی واسطہ ،حکومت کا کوئی قانون ان پر نافذ نہیں ہوتا، یہ لوگ شہری اور مہذب انسانوں سے وحشت کرتے ہیں اور ان سے دور بھاگتے ہیں یا پھر ان پر حملہ کرتے ہیں ،ان کے علاقوں کو حکومت نے محفوظ قرار دے کر اس کے آس پاس پہرہ بٹھا دیا ہے ،سرکاری اجازت کے بغیر کوئی وہاں نہیں جاسکتا،آج بھی ان وحشی انسانوں کی تعداد کا صحیح علم نہ حکومت کو ہے اور نہ کسی اور کو۔ انڈومان کے یہ جزائر یوں تو صدیوں سے آباد ہیں اور وہاں کے قریب سے ہمیشہ تجارتی وسیاحتی قافلے گزرتے رہے لیکن وہاں رک کر مستقل آباد ہونے کی ان وحشی انسانوں سے ڈر کی وجہ سے کسی کی ہمت نہیں ہوئی پہلی دفعہ 1759 ء میں سبز قدم انگریز قیدیوں کی مستقل کالونی بنانے کے لیے اس کالونی پر وارد ہوئے تو یہاں کے غیرمہذب وحشیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ اور ایک خوں ریز جنگ کے بعد انگریز یہاں کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس وقت فرنگی لشکری یہاں اپنے200 قیدیوں کو لے کر اس زمین پر قابض ہونے آئے تھے۔یہ جزائر کالی کیچڑ والی دلدلوں سے بھرے ہویے تھے۔ یہاں کنگ سائز مچھر، خطرناک سانپ بچھوئوں، جونکوں اور عجیب و غریب قسم کے بے شمار اقسام کے زہریلے کیڑوں مکوڑوں  اور چھپکلیوں کی بھرمار تھی۔کرہ ارض پر یوں توکئی اور جیلیں بھی موجود ہیں امریکہ نے القاعدہ اور طالبان قیدیوں کیلئے گوانتاناموبے جیسی اذیت ناک جیل بنائی ہے مگر کالا پانی کی جیل اس سے بھی بدتر تھی۔ اس جیل میں قیدی اگر سخت جسمانی مشقت سے نہ مرتے تو ملیریا سے ضرور مر جاتے کیوں کہ جس جزیرے پر وہ بنائی گئی تھی وہاں ملیریا کی بیماری عام تھی اور اس کا علاج نہ ہونے کے برابر۔ جو قیدی خوش قسمتی سے1947میں آزادی ہند کے موقع پر وہاں سے رہا ہو کر واپس آئے ان کی زبانی اس قید خانے میں ان کے ساتھ جو ذلت آمیز سلوک کیا گیا تھا اس کی روداد سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
جب ہندوستان میں جنگ آزادی کی آگ بھی بھڑک اٹھی اور ہزاروں آزادی کے متوالوں کو گرفتار کیا گیا جن کو محفوظ جیلوں میں رکھنا مقصود تھا چناں چہ ان کو بطور سزا ان دلدلی جزیروں میں بھجوایا گیا اور ان کو جبری مشقت پر مجبور کرکے ان سے وہاں جیل کی تعمیر میں مزدوری کرائی۔ اس جیل کی تعمیر1906ء میں سلطنتِ انگلشیہ کے باغیوں کو اذیت دینے کے لیے کی گئی تھی۔ چوں کہ اس جیل کی اندرونی ساخت سیل(کوٹھری) جیسے ہے ، اس لیے اس کا نام سیلولر جیل رکھا گیا۔ تعمیری لحاظ سے دیکھا جائے تو اس جیل کے درمیان میں ایک ٹاور بنا ہے، جس سے سات شاخیں پھوٹتی ہیں۔
یہاں سے قیدیوں کی سخت نگرانی کی جاتی تھی۔یہاں ملک کے مختلف حصوں سے لائے گئے مجاہدینِ آزادی کو رکھا جاتا تھا، انھیں سخت اذیتیں دی جاتی تھیں جن میں چکی پیسنا ، تیل نکالنا، پتھر توڑنا، لکڑی کاٹنا، ایک ایک ہفتے تک ہتھکڑیاں باندھے کھڑے رہنا، تنہائی کے دن گزارنا، چار چار دن تک بھوکے رکھنا، دس دس دنوں تک کراس بار کی حالت میں رہنا وغیرہ شامل تھے۔ تیل نکالنے کی مل میں کام کرنا تو اور بھی درد ناک تھا۔ عموماً یہاں سانس لینا بہت دشوار ہوتا تھا ، زبان سوکھ جاتی تھی، دماغ سن ہو جاتے تھے، ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے۔کالا پانی جیل کا عملہ انگریزکی خواہش کے مطابق مقرر کیا جاتا تھا ۔ ا ُس دور میں کچھ قیدی وہاں سے بھاگ جانے میں کامیاب ہو گئے ، بہت سے بھاگنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار تے تھے۔اُس جیل میں ملاوٹ شدہ خوراک ، جھوٹ ، رشوت خوری ، قتل ، زنا بالجبر، اغوا ، حرام کاری ، حرام خوری سے لے کر زندہ اور مردہ انسانوں کی عزت لوٹنے کا جرم کرنے والے ، ساری عمرکے لئے قیدکئے جاتے تھے تا کہ باقی انسانیت کو محفوظ رکھا جا سکے۔
آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کسی قیدی کو انڈمان بھیجنے کے لیے ”کالا پانی” لفظ کا استعمال کیوں کیا جاتا تھا۔ ممکن ہے اس کا مطلب ”سمندر پار” بھیجنا رہا ہو جو ہندوستان سے ہزاروں کوسوں دور واقع تھا، اور ہندوستانی محاورے میں طویل فاصلے کے لیے ”کالے کوس” جیسے الفاظ پہلے ہی سے رائج تھے۔کالا پانی کا نام سنتے ہی ذہن میں اس جیل خانے کا نقشہ ابھر آتا ہے کہ جہاں جو بھی ایک مرتبہ گیا وہ شاذ ہی زندہ واپس لوٹا بلکہ اس کی لاش کو بھی اپنے وطن کی مٹی نصیب نہ ہوئی۔
کالا پانی کے بارے میں مفصل تفصیلات ہمیں مولانا محمد جعفر تھانیسری کی کتاب تواریخ عجیب میں ملتا ہے۔ مولانا جنگ آزادی1857 کے سرگرم مجاہد تھے۔  کالا پانی سے رہائ پانے کے بعد مولانا نے اپنی یادداشتوں پر ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب کواردو کی پہلی خودنوشت سوانح عمری اور پہلی سیاسی خودنوشت سوانح عمری ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
کالا پانی المعروف تواریخ عجائب
مولانا جعفر تھانیسری کی داستان اسیری
1856ء تک آپ تحریک مجاہدین میں باقاعدہ شامل ہوچکے تھے ۔ آپ  تحریک کے سینیئر ممبر اور بہت بڑے رازدار تھے  1864ء میں مجاہدین کی مالی وجانی مدد کرنےپر آپ  پر مقدمہ  چلایا گیا اور آپ کی تمام منقولہ وغیر منقولہ جائیداد ضبط اور پھانسی کی سزا سنائی  گئی۔پھانسی کی سزاسن کر آپ پر مسرت کی کچھ ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ انگریزیہ دیکھ کر ششدرہ رہ گئے ۔تو آپ کی پھانسی کی سزا کوقید میں تبدیل کردیا گیا آپ  انبالہ ، لاہور ،ملتان،سکھر،کوٹری سے  ہوتے ہوئے کراچی پہنچے ۔ایک ہفتہ کراچی جیل میں رہنے کےبعد بادبانی جہاز کےذریعہ بمبئی روانہ ہوگئے ۔ وہاں ایک ماہ تھانہ جیل میں مقیم رہے اور پھر 11جنوری 1866ءکو آپ  جزیرہ انڈیمان پہنچ گئے ۔ سترہ سال دس ماہ بسر کرنے کے بعد انڈیمان سے9 نومبر 1883ء کوہندوستان روانہ ہوئے  اور  20 نومبر 1883ء کو9 بجے  شب انبالہ چھاؤنی کے اسٹیشن پر پہنچے۔ اس طرح تقریبا18 برس کے بعد اس مرد مجاہد کو وطن کی مقدس سرزمین دیکھنا نصیب ہوئی ۔کالاپانی ‘‘ اسی مرد مجاہد محمد جعفر تھانیسری کی خودنوشت سرگذشت ہے  جس میں آپ  نےجزائر انڈمان سے واپسی پراحباب  کےاصرار پر اپنی گرفتاری ،مقدمے ،قید سفرِ انڈیمان،انڈیمان کی زندگی کے حالات و واقعات  دلنشیں انداز میں  تحریر فرمائے ہیں۔  مولاناجعفرتھانیسری اس  کتاب  میں  تحریرفرماتے ہیں:”ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پیروں میں بیڑیاں، جسم پرجیل کا لباس اور کمرپرلوہے کی سلاخیں تھیں۔انگریز  نےہمارے  لیے خاص لوہے کے قفس تیار کروائے اور ہمیں ان میں ڈال دیا۔اس پنجرے میں لوہے کی چونچ دارسلاخیں بھی لگوائیں، جس کی وجہ سے ہم نہ سہارالے سکتے تھے، نہ بیٹھ سکتے تھے۔ہماری آنکھوں سے آنسوں اورپیروں سے خون بہہ رہے تھے۔غدر کے ملزمان انگریزوں کی نگاہ میں اتنے بڑے مجرم سمجھے گئے کہ غدر1857ء میں پکڑے گئے لوگوں کو یاتوسرعام پھانسی دیدی گئی یابہت سے لوگوں کواسی جزیرے انڈمان میں موت سے بدترزندگی گذارنے کے لیے بھیجاگیا‘
کالا پانی کے بارے میں جس دوسری شخصیت نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے وہ مولانا فضل حق خیر آبادی تھے۔علامہ فضل حق خیر آبادی انقلاب1857 کے پیش رو تھے۔ اس لیے ان کو30؍ جنوری1859 کو گرفتار کیا گیا اور لکھنؤ میں مقدمہ چلایا گیا۔ 4؍ مارچ1859 کو قتل برانگیختہ اور بغاوت کے الزام میں بطور شاہی قیدی حین حیات حبس بعبور دریاے شور (کالا پانی) اور تمام جائداد کی ضبطی کی سزا سنا دی گئی۔
اپنی اس سزا کا حال علامہ فضل حق خیر آبادی نے اپنی کتاب الثورۃ الہندیہ میں رقم کیا ہے ملاحظہ فرمائیں:
”مکر و تلبیس سے نصاریٰ نے جب مجھے قید کرلیا تو ایک قید خانے سے دوسرے قید خانے، اور ایک سخت زمین سے دوسری سخت زمین میں منتقل کرنا شروع کیا۔ مصیبت پر مصیبت اور غم پر غم پہنچایا۔ میرا جوتا اور لباس تک اتار کر موٹے، اور سخت کپڑے پہنا دیے۔ نرم و بہتر بستر چھین کر، خراب، سخت اور تکلیف دہ بچھونا حوالہ کر دیا۔ گویا اس پر کانٹے بچھادئیے گئے تھے یا دہکتی ہوئی چنگاریاں ڈال دی گئی تھیں۔ میرے پاس لوٹا، پیالہ اور کوئی برتن تک نہ چھوڑا۔ بخل سے ماش کی دال کھلائی۔ اور گرم پانی پلایا، محبان مخلص کے آبِ محبت کے بجائے گرم پانی اور ناتوانی و کبر سنی کے باوجود ذلت و رسوائی سے ہر وقت سامنا رہا۔
پھر ترش رو، دشمن کے ظلم نے مجھے دریاے شور کے کنارے ایک بلند و مضبوط، ناموافق آب و ہوا والے پہاڑ پر پہنچا دیا۔ جہاں سورج ہمیشہ سر پر ہی رہتا تھا۔ اس میں دشوار گزار گھاٹیاں اور راہیں تھیں، جنھیں دریائے شور کی موجیں ڈھانپ لیتی تھیں۔ اس کی نسیم صبح بھی گرم و تیز ہوا سے زیادہ سخت اور اس کی نعمت زہر ہلاہل سے زیادہ مضر تھی۔ اس کی غذا حنظل سے زیادہ کڑوی، اس کا پانی سانپوں کے زہر سے بڑھ کر ضرر رساں، اس کا آسمان غموں کی بارش کرنے والا، اس کا بادل رنج و غم برسانے والا، اس کی زمین آبلہ دار، اس کے سنگ ریزے بدن کی پھنسیاں اور اس کی ہوا ذلت و خواری کی وجہ سے ٹیڑھی چلنے والی تھی۔ ہر کوٹھری پر چھپر تھا۔ جس میں رنج و مرض بھرا ہوا تھا۔ میری آنکھوں کی طرح ان کی چھتیں ٹپکتی رہتی تھیں۔ ہوا بدبودار اور بیماریوں کا مخزن تھی۔ مرض سستا اور دوا گراں، بیماریاں بے شمار، خارش وقوباء (وہ مرض جس سے بدن کی کھال پھٹنے اور چھلنے لگتی ہے) عام تھی بیمار کے علاج، تندرست کے بقائے صحت اور زخم کے اندر مال کی کوئی صورت نہ تھی، معالج، مرض میں اضافہ کرنے والا، معالج، ہلاک ہونے والا، طبیب، تکلیف و رنج بڑھانے والا تھا۔ رنجیدہ کی نہ غم خواری ہی کی جاتی نہ اس پر رنج و افسوس کا ہی اظہار ہوتا۔ دنیا کی کوئی مصیبت یہاں کی الم نام مصیبتوں پر قیاس نہیں کی جاسکتی یہاں کی معمولی بیماری بھی خطرناک ہے۔ بخار موت کا پیغام، مرض سر سام اور برسام (دماغ کے پردوں کو ورم) ہلاکت کی علت تام ہے۔ بہت مرض ایسے ہیں جن کا کتب طب میں نام و نشان نہیں۔ نصرانی ماہر طبیب، مریضوں کی آنتوں کو تنور کی طرح جلاتا اور مریض کی حفاظت نہ کرتے ہوئے آگ کا قبہ اس کے اوپر بناتا ہے۔ مرض نہ پہچانتے ہوئے دوا پلا کر موت کے منہ کے قریب پہنچا دیتا ہے۔ جب کوئی ان میں سے مر جاتا ہے تو نجس و ناپاک خاکروب جو در حقیقت شیطانِ خناس یا دیو ہوتا ہے اس کی ٹانگ پکڑ کر کھینچتا ہوا غسل و کفن کے بغیر اس کے کپڑے اتار کر ریگ کے تودے میں دیا دیتا ہے۔ نہ اس کی قبر کھودی جاتی ہے نہ نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔
یہ کیسی عبرت ناک و الم انگیز کہانی ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اگر میت کے ساتھ یہ برتاؤ نہ ہوتا تو اس جزیرے میں مر جانا سب سے بڑی آرزو ہوتی۔ اور اچانک موت سب سے زیادہ تسلی بخش تھی۔ اور اگر مسلمان کی خود کشی مذہب میں ممنوع اور قیامت کے دن عذاب و عقاب کا باعث نہ ہوتی تو کوئی بھی یہاں مقید و مجبور بنا کر تکلیف مالا یطاق نہ دیا جاسکتا۔ اور مصیبت سے نجات پالینا بڑا آسان ہوتا۔
یہ ناقابل برداشت حالات تھے ہی کہ میں متعدد سخت امراض میں مبتلا ہوگیا۔ جس کی وجہ سے میرا صبر مغلوب، میرا سینہ تنگ، میرا چاند دھندلا، اور میری عزت و ذلت سے بدل گئی۔ میں نہیں جانتا کہ اس دشوار و سخت رنج و غم سے کیوں کر چھٹکارا ہوسکے گا۔ خارش وقوباء میں ابتلا اس پر مستزاد ہے صبح و شام اس طرح بسر ہوتی ہے کہ تمام بدن زخموں سے چھلنی بن چکا ہے روح کو تحلیل کر دینے والے درد و تکلیف کے ساتھ زخموں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اور دقت دور نہیں جب یہ پھنسیاں مجھے ہلاکت کے قریب پہنچا دیں۔
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب عیش و عشرت و مسرت، راحت و عافیت میں زندگی بسر ہوتی تھی۔ اب محبوس و قریب ہلاکت ہوں۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب محسود ِ خلائق غنی، اور صحیح و سالم تھا، اب اپاہج اور زخمی ہوں۔ بڑی سخت مصیبتیں اور بیسیوں صعوبتیں جھیلنا پڑ رہی ہیں:
ٹوٹی ہوئی ہڈی جس طرح لکڑی اور پٹی کا بوجھ اٹھاتی ہے اسی طرح ہم بھی ناقابل برداشت مصیبتیں اٹھا رہے ہیں۔
ان تمام مصائب کے باوجود اللہ کے فضل و احسان کا شکر گزار ہوں کیوں کہ اپنی آنکھوں سے دوسرے قیدیوں کو بیمار ہوتے ہوئے بھی ، بیڑیاں پہنے ہوئے زنجیروں میں کھینچے جاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ انھیں لوہے کی بیڑیوں اور زنجیروں میں ایک سخت تیز، اور غلیظ انسان کھینچتا ہے۔ محنت اور مہنت، کینہ و عداوت کا پورا مظاہرہ کرتا ہے۔ تکلیفوں پر تکلیفیں پہنچاتا اور بھوکے پیاسے پر بھی رحم نہیں کھاتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ان آفات و تکالیف سے محفوظ رکھا۔ میرے دشمن میری ایذا رسانی میں کوشاں اور میری ہلاکت کے در پے رہتے ہیں۔ میرے دوست میرے مرض کے مداوا سے لاچار ہیں۔ دشمنوں کے دل میں میری طرف سے بغض و کینہ مذہبی عقائد کی طرح راسخ ہوگیا ہے۔ ان کے پلید سینے کینہ و عداوت کے دفینے بن گئے ہیں۔“
30دسمبر 1943ء کو یہاں نیتا جی سباش چندر بوس نے ہندوستانی پرچم لہرایا، دوسری جنگ عظیم کے سبب اب یہاں قیدیوں کو لانا ممکن نہیں رہ گیاتھا اس لیے برطانوی حکومت نے اس قید خانے کا استعمال ترک کر دیا۔1945ء میں جب کالے پانی کی جیل کی عمارت کو منہدم کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے تو آزادی کی متوالوں نے کہا “نہیں ظلم کی یہ علامت گرائی نہیں جا سکتی یہ تو آنے والی نسلوں کو اس بات کی خبر دے گی کہ ظلم کی کس تاریک رات سے گزر کر ہم یہاں تک آئے ہیں”۔1947 میں آزادیِ ہند کے ساتھ ہی یہ جیل ہمیشہ کے لیے بند کر دی گئی جزائر انڈیماں اورنکور بار پر اب انڈیا کا کنڑول ہے اور کالا پانی جیل میں اب ایک پانچ سو بستروں کا ہسپتال اور میوزیم قائم ہے۔آپ اب بھی جزائر انڈمان جا کر کالا پانی کی اس جیل کا معائنہ کرسکتے ہیں۔شاید آج بھی یہاں رات کی تاریکی میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کرھلاک ہونے والے لاکھوں قیدیوں کی سسکیاں، چیخیں اور کراہیں سنائ دیتی ہوں اور روحیں بھٹکتی ہونگی جن کے گلے سڑے زخموں کو حشرات الارض چوستے اور کاٹتے تھے، جن پر انسانیت سوز تشدد کیا جاتا تھا، وہ ہزاروں جو کالا پانی سے فرار کی کوشش میں سمندر کے کھارے پانی میں ڈوب مرے اور پھر ان کی پھولی ہوئ گلی سڑی سیاہ لاشوں کو سمندر نے دوبارہ ساحل پر لا پٹخا ہوگا ۔ جن کو ان کے مزہب کے مطابق نہ تو آخری رسومات نصیب ہوئیں اور نہ کفن اور قبر۔

. . . . . . . . . .  نوٹ. . . . . . . . . . . . 

( اس مضمون کی تیاری میں جیو اردو پر جناب محمد وسیم کے کالم سے اقتباسات،  محمد جعفر تھانیسری کی تصنیف " کالا پانی" اور علامہ فضل حق خیر آبادی کی کتاب الثورۃ الہندیہ سے بھی مدد لی گئ ہے