Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, January 14, 2019

اکھیلیش یادو اور مایا وتی کا انتخابی اتحاد اور مسلمان۔

تحریر / ڈاکٹر شرف الدین اعظمی/ چیف ایڈیٹر/ صدائے وقت / نیوز پورٹل۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
گزشتہ دنوں سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اکھیلش یادو  اور  بہوجن سماج پارٹی کی قومی صدر مایا وتی نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرکے دونوں سیاسی پارٹیوں کے انتخابی اتحاد کا اعلان کردیا۔اس اتحاد کے مطابق دونوں پارٹیاں یو پی کی 38/38 سیٹوں پر باہمی اتحاد سے الیکشن لڑیں گی۔دو سیٹ امیٹھی اور رائے بریلی، کانگریس کے راہل گاندھی و سونیا گاندھی کے لئیے چھوڑ کر کانگریس پر احسان کیا حالانکہ ان دونوں سیٹوں پر بھی اگر متحدہ امیدوار کھڑا ہوتا تو بھی ان لوگوں کو ہرانا مشکل ہوتا۔جب بی جے پی کی زبردست لہر میں یہ دونوں سیٹیں کانگریس نے جیت لی تو مشترکہ امیدوار بھی یہاں شکست کھا جاتا۔اب باقی دو سیٹیں کس کے اوپر احسان کرنے کے لئیے چھوڑی ہیں ، معلوم نہیں۔
اس اتحاد سے مسلمانوں میں کئی طرح کے ردعمل ہیں وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخروہ سیاسی پارٹیاں جن کے قائد مسلم ہیں ان کو اس اتحاد میں پوچھا کیوں نہیں گیا؟۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر اس اتحاد کو مسلم ووٹ نہ ملے تو ان کی ایک بھی سیٹ نہیں نکل سکتی۔ایک اندازے کے مطابق ریاست اتر پردیش میں مسلمانوں کی تعداد 20 فیصد ہے جبکہ سماجوادی پارٹی کا بنیادی ووٹ یادو صرف 8 فیصد اور بہوجن سماج پارٹی کا چمار ووٹ(دلت نہیں) صرف 12 سے 14 فیصد ہے۔گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی کی بڑی جیت کی ایک وجہ یا پالیسی یہ بھی تھی کہ اس نے اکثر و بیشتر یادو، چمار ووٹوں پر کم دھیان دیا اور مسلم ووٹوں کو بلکل اچھوتا کر دیا ۔یہ تینوں ملکر یو پی کی پوری آبادی کا 40 فیصد ووٹ ہوا۔باقی بچے 60 فیصد ووٹ جس میں ہندو اعلیٰ ذات  کے15فیصد اور دیگر ہندو پسماندہ ذات کے  45 فیصد ووٹ کو " راشٹر واد " کا سبق پڑھا دیا۔مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی۔سنگھ کے دو دو کی تعداد میں کارکنان ایک ایک گھر جاکر مندر کی بات کی ، مسلمانوں کی جائیداد کو جبریہ قبضہ کرکے آپس میں تقسیم کر لینے کی بات کی، چھوٹے چھوٹے گاوں میں بھی بس/ رتھ لے کر " راشٹر واد"  کی تعلیم دی۔نتیجہ یہ ہوا کہ 60 فیصد ووٹوں میں سے 40 فیصد ووٹ بی جے پی کی جھولی میں گئیے۔بقیہ ووٹ سپا، بسپا، کانگریس ، آر ایل ڈی و دیگر چھوٹی پارٹیوں میں تقسیم ہوکر رہ گئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ بی جے پی 73 سیٹوں پر کامیاب ہوئی ۔اس الیکشن میں مایاوتی کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔ملائم خاندان اور سونیا خاندان کے علاوہ کوئی دوسرا کسی بھی پارٹی کا امیدوار نہیں جیت سکا۔حالانکہ ہندو ووٹوں کے پولرائزیشن میں ہمارے کچھ علماء کرام اور شاہی امام صاحب کی بھی ان لوگوں کے بیجا بیانات سے مدد شامل رہی۔جو بی جے پی کی بھاری اکثریت سے جیت کی ایک وجہ بنی۔
دونوں اتحادی پارٹیاں مسلمانوں کو اپنا ووٹ سمجھتی ہیں اور اسی فارمولے کے تحت ان کا اتحاد ہوا ہے کہ 40 فیصد ووٹ تو ان کا فکس ہے باقی کچھ ووٹ امیدوار بھی اپنے ذاتی اثر سے لے لیگا اور یہ اتحاد بی جے پی کا صفایا کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔
بات تو اچھی لگتی ہے مگر یہ لوگ مسلم ووٹ کو کیوں اپنا سمجھتے ہیں؟ صرف اس لئیے کہ مسلمان بی جے پی سے ڈر کر ان لوگوں کو ووٹ کریگا۔مسلم قائدین اور مسلم ہیڈیڈ پارٹیوں کی اتنی بے قدری؟؟۔جبکہ کوئی بھی خالص مسلم مسلہ آتا ہے تو یہی مسلم پارٹیاں ہی سامنے آتی ہیں۔اکھیلیش و مایا کی زبان بند ہی رہتی ہے۔
اس کے علاوہ پو پی میں کئی ایک چھوٹی پارٹیاں ہیں جو کسی نہ کسی طرح، محدود علاقے اور مخصوص برادری تک ہی صحیح اپنا ا ثر رکھتی ہیں۔ان کو بھی درکنار کرکے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ یو پی میں جو کچھ بھی ہیں وہ ہم ہی ہیں ، ہمیں کسی کی ضرورت نہیں ہے۔
اس اتحاد کو لے کر مسلمانوں کا ردعمل مختلف ہے ، کچھ لوگ تو اس اتحاد سے خوش ہیں صرف اس بنا پر کہ یہ اتحاد بی جے پی کو ہرا دیگا۔مگر مسلمانوں کا ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو سوال کر رہا ہے کہ " جمن میاں کا کیا ہوگا " صرف دری بچھائیں گے یا جھنڈا اٹھا کر زندہ باد ، مردا باد کریں گے۔" بیگانے کی شادی میں عبد اللہ دیوانے" جیسے فقرے بھی سنائی پڑتے ہیں، " کیا واقعی میں ہم مجبور ہیں ان کو ووٹ دینے کے لئیے؟ کیا ہمارے پاس کوئی ایسا قائد نہیں ہے یا سیاسی پارٹی نہیں ہے جسکو ہم متحد ہوکر ووٹنگ کر سکیں ؟جواب ملیگا یقیناً ایسا ہی ہے ۔تو پھر راستہ کیا ہے۔؟ راستہ ہے اتحاد کا!!
ابھی بھی وقت ہے۔مغربی اتر پردیش کی آر ایل ڈی سے لیکر مشرقی یو پی علماء کونسل اور پیس پارٹی تک سبھی اپنے کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں،
حالانکہ یہ دونوں پارٹیاں قابل قدر تعداد میں مسلمانوں کو ٹکٹ دیں گیں اور اس میں سے مسلم امید واروں کی  خاصی تعداد کامیاب بھی ہوگی مگر وہ لوگ وہی کریں گے جو پارٹی کی پالیسی ہوگی۔کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوگی کہ وہ پارٹی پالیسی یا اپنے آقا کی مرضی سے ہٹ کر کوئی قدم اٹھا ئے۔
ان دونوں پارٹیوں ( سپا/ بسپا ) کی مغروریت کو ختم کرنے کے لئیے ، مسلم ووٹوں کی قدر و قیمت کو سمجھانے کے لئیے ایک "  عظیم  اتحاد "" کی ضرورت ہے۔جس میں کانگریس، سماجوادی و بہوجن سماج پارٹی کو چھوڑ کر باقی سبھی پارٹیاں شامل ہوں ۔ان میں، آر ایل ڈی، پیس پارٹی، علماء کونسل، بھیم سینا، اپنا دل کا ایک دھڑا، اتحاد المسلمین،عام آدمی پارٹی، بھارت رکشا دل، سی پی آئی، سی پی ایم  و دیگر قومی پارٹیاں جن کا ریاست میں کچھ وجود ہے، جو کسی بھی الیکشن میں 3 سے 5 ہزار تک ووٹ لے لیتی ہیں اور بھی دیگر بہت سی چھوٹی پارٹیاں
  ہیں جو کہ شامل ہو سکتی ہیں۔تقریباً ہر برادری کی ایک پارٹی موجود ہے اگر سبکو ملا کر ایک عظیم اتحاد برائے یو پی بنا لیا جائے جس کی قیادت کوئی مسلم رہنما ہی کرے تو تقریباً 65  فیصد ووٹ سبکو ملا کر ہو جائے گا ۔اس 65 فیصد کا اگر 40 فیصد ووٹ بھی اتحاد کو مل جائے تو بی جے پی سمیت دونوں اتحادیوں کے غرور کو چکنا چور کیا جا سکتا ہے۔
اس اتحاد کے نتائج کا جائزہ لیں تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بی جے پی پھر سے یو پی میں ایک بڑی طاقت بن جائے لیکن کسی بھی حالت میں اسکو گزشتہ الیکشن جیسی جیت یو پی میں نہیں ملے گی۔اس طرح کے تجربات دوسری ریاستوں میں بھی وہاں کی علاقائی ہارٹیوں کو شامل کر کئیے جا سکتے ہیں۔اس سے ایک بات کا فائدہ تو ضرور ہوگا کہ ایسی مسلم قیادت ابھر کر سامنے آئے گی جو مسلم حصار سے باہر نکل کر غیروں میں بھی مقبول ہوگی اور مسلم ووٹوں کی قدر منزلت میں بھی اضافہ ہوگا۔آئندہ کوئی مسلم ووٹوں کو درکنار کر کسی طرح کے اتحاد کی ہمت نہیں کرے گا۔
کام مشکل ہے مگر" ہمت مرداں ، مدد خدا " پر یقین کرکے قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔ایمانداری" ایثار، و باہم اتحاد کا جذبہ اگر پیدا ہوجائے تو کچھ بھی نا ممکن نہیں۔ آج فیس بک یا سوشل میڈیا پر لوگ دبی ہوئی زبان میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ابھی وقت ہے اٹھیئے اور زمانے کو بتا دیجئیے کہ مسلمان مردہ نہیں بلکہ ایک زندہ قوم ہے اور اتحاد اس کے ایمان کا ایک جز ہے۔