Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, February 16, 2019

پلوامہ حملے کا ذمے دار کون؟؟؟کیا پاکستان سے جنگ، دہشت گردی کے مسئلہ کو حل کر دے گی؟؟


شکیل رشید کی تحریر/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
شدید غم اور غصے کی کیفیت ہے۔
غم اس کا کہ سی آرپی ایف کے کوئی انچاس جوان ایک بزدلانہ دہشت گردانہ حملے میں مارے گئے اور غصّہ اس بات کا کہ ہم اس حملے کوروک تک نہ سکے حالانکہ کشمیر پولس نے پہلے سے باخبر کردیا تھا کہ سی آر پی ایف کے قافلے پر حملہ ، وہ بھی اس طرح کا خودکش حملہ جیسے شام میں کیا جاتا ہے ، ممکن ہے ! غم اس کا کہ ، ملک کی حفاظت کے لئے اپنے گھر بار اور اپنے گھروالوں کو چھوڑ کر کشمیر میں تعینات فوجی اہلکاروں کو دوبدولڑنے کا موقعہ تک نہیں ملا ، ایک خودکش حملہ آور نے اپنی کار اس بس سے ٹکرا دی جس میں جوان سوار تھے  اور ایک زوردار دھماکہ ہوا جو اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کی ایک المناک کہانی چھوڑ گیا ، اور غصہ اس بات کا کہ تمام تر خبر ہوتے ہوئے بھی جوانوں کے قافلہ کو جموں سے وادی کی طرف یوں جانے کی اجازت دی گئی جیسے کہ یہ عام مسافروں کا قافلہ ہو ، نہ آنے جانے والوں کو قافلے سے دور کیاگیا ، نہ ہی اطراف کی گاڑیاں روکی گئیں اور نہ ہی بڑے پیمانے پر سیکوریٹی کے انتظامات رکھے گئے ، گویا یہ کہ انتظامیہ نے ’خطرہ‘  کے ’ انتباہ‘ کو ایک کان سے سنا اور دوسرے کان سے اڑادیا۔۔۔ بھلا ایسا کیوں کیا گیا؟؟
یہ وہ سوال ہے جو اس ملک کا ہر شہری دریافت کررہا ہے ۔ یہ سوال مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے بھی دریافت کیا ہے ۔۔۔ ان کا سیدھا ساسوال ہے کہ’ ’ جنتا یہ پوچھ رہی ہے کہ قومی سلامتی کے مشیر اور انٹلی جنس کیا کررہی تھی؟‘‘ انہوں نے بڑے  ہی سیدھے انداز میں یہ جتادیا ہے کہ اس حملے کی ساری ذمہ داری انٹلی جنس کی ناکامی پر عائد ہوتی ہے ۔۔۔ انہوں نے سیدھا ساسوال کیا ہے کہ ’’ جب سیکوریٹی کو خطرہ تھا تب اتنی بڑی تعداد میں سی آر پی ایف کے جوانوں کی گاڑیوں کے قافلے کو کیوں گذرنے کی اجازت دی گئی۔۔۔؟‘‘ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب نہ فوجی سربراہ بپن راؤت دے رہے ہیں اور نہ ہی وزارتِ داخلہ دے رہی ہے ۔۔۔ اور نہ ہی اس ملک کے وزیراعظم یعنی ہمارے پردھان  سیوک نریندر مودی دے رہے ہیں ۔ ماہرین کی مانیں تو پلوامہ حملہ ،جسے کشمیر کا ابتک کا سب سے بڑا دہشت گردانہ حملہ کہا جاسکتا ہے ، مودی سرکار کی شدید  قسم کی  ناکامی کو اجاگر کرتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ کشمیر کے تئیں ان کی پالیسی فلاپ رہی ہے ۔ جموں وکشمیر کے نوجوانوں میں شدت پسندی (Radicalisation) میں اضافہ ہوا  ہے ، دہشت گرد تنظیموں میں بڑے پیمانے پر بھرتیاں (Recruitments) ہوئی ہیں اور یہ سب اس وقت ہوا ، جب مرکز کی مودی سرکار نے جموں وکشمیر میں مفتی محبوبہ کا دامن تھاما تھا اور وہاں ان کی مدد سے اپنی سرکار بنائی تھی۔ یعنی جب پی ڈی پی اور بی جے پی  کی جموں وکشمیر میں حکومت تھی۔ اس دوران سرحد پار سے گولہ باری بھی زوروں پر تھی اور گولی باری بھی۔ اور اس بیچ کشمیر میں’پتھر بازی‘ کرنے والے نوجوانوں پر ’پیلٹ فائرنگ ‘بھی  اپنی شدت پر تھی۔ ۱۴؍ فروری کے پلوامہ حملے کے خودکش حملہ آور کا نام عادل احمد ڈار بتایا گیا ہے ، اس کی عمر بیس سال تھی ، یہ کشمیر کے لیٹھی پورہ گاؤں کا رہنے والا تھا۔ اس کے اس  پاکستانی دہشت گرد تنظیم میں جس نے پلوامہ حملے کی ذمےداری قبول کی ہے ، یعنی ’ جیش محمد‘ میں شامل ہونے کی کہانی اس کے والد غلام حسین ڈار کے مطابق  ،جو کہ ایک کسان ہے ، یہ ہے کہ اس کے بیٹے اور بیٹے کے دوست کو 2016 میں ، جب وہ اسکول سے واپس گھر لوٹ رہے تھے پولس نے روک لیا ، فوجی اہلکار بھی روکنے والوں میں شامل تھے ، انہیں روک کر ان کی بے تحاشا پٹائی کی گئی، اس کے بعد ہی سے بقول غلام حسین ڈار ’ ’وہ انتہا پسندوں میں شامل ہونا چاہتا تھا۔ ‘‘
عالمی خبر رساں ایجنسی ’رائٹر‘ نے مذکورہ انکشاف خودکش حملہ آور کے والد سے گفتگو کے بعد کیا ہے ۔۔۔ ’رائٹر‘ نے ڈار کی والدہ  فہمیدہ سے بھی بات کی ہے ، فہمیدہ نے بھی اپنے شوہر کی بات کی تصدیق کی ہے ۔۔۔ ’’جیش محمد‘‘ جیسی دہشت گردانہ تنظیمیں ایسے ہی نوجوانوں کی تلاش میں رہتی ہیں جو جذباتی طور پر غصے اور طیش میں ہوں ، جن کے سینے میں بدلے کی آگ جل رہی ہو ، ایسے نوجوانوں کو Radicalise کرنا کچھ مشکل نہیں ہوتا ۔ اورآ ج کشمیر میں ایسے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو ’ پیلٹ گنوں‘ اور  پولس وسیکوریٹی اہلکاروں کی  مارپیٹ اور مسلسل خانہ تلاشی کی وجہ سے بہک رہی ہے ۔ لیکن ان نوجوانوں کے ’ بہکنے‘ اور ان کے ’ جیش محمد‘ ’ داعش‘ یا ’ لشکر طیبہ‘ جیسی دہشت گردانہ تنظیموں کے ہتھے چڑھنے کا ذمے دار کون ہے ؟ ظاہر ہے کہ انتظامیہ ۔۔۔ ایسی انتظامیہ جس کی پالیسیاں ’جوڑے‘ کی جگہ ’ توڑنے‘ کا کام کریں ۔۔۔
ویب پورٹل ’ اسکرال ڈاٹ اِن‘ کی ایک رپورٹ میں مرکز کی مودی سرکار اور اس کی پالیسیوں کو ’پلوامہ حملے‘ کا صدفی صد ذمے دار قرار دیا گیا ہے ۔۔۔ رپورٹ میں لیفٹنٹ جنرل ایس ایس ہڈا کا شدید ردّعمل ہے ۔ وہ کہتے ہیں ’’ اس حملے پر ہمیں بہت حیرت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، گذشتہ چار سالوں کے دوران سرحد پار سے دراندازیاں ہورہی ہیں ، مسلسل حملے اور جنگ بند ی کی خلاف ورزیاں اور ٹریرفنڈنگ ہورہی ہے ۔ ’جیش محمد‘ اور ’ لشکر طیبہ‘ پاکستان سے کھلے عام ہندوستان پر حملہ کرنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں ۔ سب کچھ بے حد واضح ہے ۔ وادی میں شدت پسندی اور بھرتیوں میں اضافہ ہوا ہے ، ہم حیرت کیوں کریں؟‘‘۔ یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ مودی سرکار نے محبوبہ مفتی کا ساتھ ہونے کے باوجود کیوں شدت پسندی ، بھرتیوں اور دراندازی پر قابو پانے کی کوشش نہیں کی ؟ یہ سوال بھی کیا جانا چاہیئے کہ محبوبہ مفتی کے ساتھ ساڑھے تین سال تک حکومت کرنے کے باوجود مرکز کی مودی سرکار نے کیوں کشمیر کے تئیں ایسی پالیسی نہیں بنائی کہ وہاں کے لوگوں کو یہ احساس ہوتا کہ یہ حکومت واقعی ’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ چاہتی ہے ؟
ویب پورٹل ’ دی کوئنٹ ‘ میں آدتیہ مینن کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں پلوامہ دہشت گردانہ حملے کے ضمن میں یہ بتایا گیا ہے کہ مودی راج میں  کشمیر میں دہشت گردی میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے ۔ وہ تحریر کرتے ہیں کہ ’’پلوامہ حملہ کئی طرح سے نریندر مودی کی کشمیر پالیسی کی ناکامی کو ، اری حملے سے بھی زیادہ ، اجاگر کرتا ہے ‘‘۔ انہوں نے اعدادوشمار دیئے ہیں کہ گذشتہ پانچ برسوں میں جموں وکشمیر میں دہشت گردانہ حملوں میں 261 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ 2013 میں 170 حملے ہوئے تھے اور 2018 میں 614 ۔۔۔ مینن نے مودی سرکار کی  کشمیر پالیسی کی ناکامی کی جو سب سے بڑی وجہ بیان کی ہے وہ ان کے اپنے الفاظ  میں یہ  ہے کہ ’ ’بی جے پی کی تریمورتی وزیراعظم نریندر مودی ، بی جے پی صدر امیت شاہ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوال کے ساتھ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ کشمیر کو سیاسی مسئلہ سمجھنے کی بجائے اسے ایک طرح کی نظریاتی لڑائی کے لئے میدان جنگ تصور کرتے ہیں ۔‘‘ ان کا یہ ماننا ہے کہ ’’یہ تشویش کی بات ہے اور اس پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ پلوامہ حملہ  ایک مقامی انتہا پسند عادل احمد ڈار نے کیا‘‘۔۔۔۔ غور اب اس با ت پر کیا جانا چاہیئے کہ کشمیر کیسے پٹری پر آئے ، وہاں کے نوجوان کیسے مین اسٹریم میںآئیںاور کیسے کشمیر کے بگڑے حالات سدھریں  تاکہ یہ جو عرصۂ دراز سے خون خرابہ ہوتا چلا آرہا ہے وہ بند ہو اور کسی کا مزید خون  نہ بہے ۔ اس کے لئے وادی کی ان سیاسی جماعتوں کو ساتھ لینا ہوگا جو ’ قومی دھارے‘ میں شامل ہیں جیسے کہ پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس ، لیکن ایک مایوس کن بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ ان سیاسی پارٹیوں کو بی جے پی اور مرکزی حکومت نظرانداز کررہی ہے ۔ پی ایم او کے وزیر مملکت جتیندر سنگھ نے کھل کر ان پارٹیوں پر تنقید کی ہے ۔ پلوامہ حملے کے بعد وہی غلطیاں دوہرائی جارہی ہیں جو 26/11 اورپٹھان کوٹ و اری حملے کے بعد کی گئی تھیں ۔ جہاں کشمیر اور کشمیریوں کے خلاف نعرے لگ رہے اور کشمیری لیڈروںپر انگلیاں اٹھ رہی ہیں وہیں سارے کشمیر اور سارے کشمیریوں کو ’ ملک دشمن‘ قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔۔۔ حالانکہ  مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اری حملے کے بعد یہ کہہ چکے ہیں کہ ’سارے کشمیری دہشت گرد نہیں ہیں ۔‘‘ یہ وہ ردّعمل ہیں جن کا فائدہ ہمیشہ ’ جیش محمد‘ جیسی دہشت گرد تنظیمیں اٹھاتی ہیں ۔ ہ تو یہ چاہیں گی ہی کہ ’کشمیریوں ‘کے خلاف نفرت کی لہر چلے ۔
جہاں تک پاکستان کا سوال ہے تو بلاشبہ اس کا یہ  کہنا  کہ حملے میں اس کا ہاتھ نہیں ہے ’ بکواس‘ ہے ۔ کوئی حکومت اس طرح کے حملے نہیں کرتی لیکن وہ جن ’ تنظیموں‘ کو پالتی ہے وہ حملے کرتی ہیں اور ’ جیش محمد‘ ایک ایسی ہی تنظیم ہے جو پاکستانی سرکار کی یا باالفاظ دیگر پاکستانی فوج اور اس کے محکمۂ خفیہ ’ آئی ایس آئی ‘ کی چھترچھایا میں محفوظ رہ کر ہندوستان کو بار بار نشانہ  بناتی چلی آئی ہے ۔ پاکستان کو اس حملے کا جواب  دینا ہوگا ، اسے ’ جیش محمد‘ کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی ۔ ہندوستان میں پاکستان کو ’ منھ توڑ جواب‘ دینے کی بات چل رہی ہے ، سرجیکل اسٹرائک اور فوجی حملے کے لئے مودی سرکار پر دباؤ ڈالا جارہا ہے لیکن جنگ کوئی ’ پکنک‘ نہیں ہے اس میں جانی اور مالی نقصان دونوں طرف ہوگا ۔ یہ ملک کی ترقی کی رفتار کو بھی روک دے گا اور ہم جیت کر بھی بہت کچھ ہاردیں گے ۔  سرجیکل اسٹرائک بھی کوئی حل نہیں ہے کیونکہ اری کے بعد سرجیکل اسٹرائک کی گئی تھی مگر نہ دراندازی  رکی اور نہ دہشت گردانہ حملے رکے ۔۔۔ مودی سرکار کو متبادلات پر غور کرنا ہوگا ۔  اقتصادی اور معاشی ناکہ بندی ، ساری دنیا میں پاکستان کو تنہا کرنا بلکہ ’ پرایا‘ کرنا اور پاکستان کو ’دہشت گردوں کا دوست‘  ثابت کرکے اس کی ہر طرف سے ناکہ بندی کرادینا ۔۔۔ یہ کچھ متبادلات ہیں  جوپاکستان کو نقصان بھی پہنچاسکتے ہیں ، کمزور بھی کرسکتے ہیں اور ہم جنگ لڑے بغیر اپنے مقصد میں ’ امن وامان‘ کے ساتھ کامیاب بھی ہوسکتے ہیں ۔۔۔ چند باتیں مزید ہیں، پلوامہ حملے کو فرقہ وارانہ دراڑ یا مذہبی تفریق کے لئے استعمال  کرنے کی کسی کو اجازت  نہ دی جائے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو یہ ’ جیش محمد‘ کے لئے خوشی کی بات ہوگی، اسے لوگوں کو بہکانے اور بھرتی کرنے کا موقع مل جائے گا ۔ پلوامہ حملہ سیاست بازی کا شکار نہ ہو ، کوئی پارٹی اس حملے پر اپنی سیاست کو فروغ نہ دے ۔ امن کی امید برقرار رکھی جائے ۔ وہ جو یہ کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔ تشدد کی بات کرنے والوں کا منھ کالا کرکے گدھے پر بٹھاکر گھمایا جائے وہ صرف جذباتی  ہوکر سوچ رہے ہیں ۔ امن ضروری ہے ، امن نہ ہوا تو مزید عادل ڈار پیدا ہونگے ،  اور ہماری جانوں کی حفاظت کرنے والے جوان ہمیشہ خطرے میں  رہیں گے ۔ اور کشمیری شہری ہمیشہ بدامنی کی سزا بھگتنے پر مجبور ہونگے ۔