Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, February 14, 2019

ندوة العلماء اور دارالعلوم دیوبند کا باہمی ربط۔


تحریر/عبدالمالک بلندشہری/صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
        بر صغیر کے معروف اداروں و تربیت گاہوں میں سر فہرست دو ادارہ آتے ہیں ایک دیوبند میں واقع "دارالعلوم "اور دوسرا لکھنو میں واقع "ندوة العلماء "یہ دونوں ادارہ تاریخ کا تابناک و درخشاں باب ہیں ۔۔غیر منقسم ہندوستان میں جب الحاد و دہریت اور بے دینی و ضلالت کی آندھیاں چل رہی تھیں اس وقت اصحاب علم و فضل کے صف اول کے بعض دور اندیش و اولوالعزم علماء نے ان طاغوتی تھپیڑوں سے قندیل رہبانی و شمع آلہی کی حفاظت کے خاطر جن دونوں قلعوں کی داغ بیل ڈالی تھی انہوں نے روز اول سے تا  امروز دین حق کے چراغ روشن رکھے اور ہر طرح کے نامساعد حالات و مخالف فضا کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کی دینی، ایمانی اور روحانی تشنگی کو سیراب کیا اور دین الہی مذہب خدائی کے متعلق ان کے قلوب و اذہان میں پنپنے والے شکوک و شبہات کا بڑی حسن و خوبی کے ساتھ ازالہ کیا ۔۔۔۔۔دونوں اداروں کا جس طرح علمی نسب اور فکری منہج مسند الہند شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رح پر منتج ہوتا ہے اسی طرح روحانی سلسلہ بھی شخص واحد پر منتھی ہوتا ہے ۔۔۔۔یاد رہے  اگر حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ،کے ایک خاص خلیفہ و مجاز حجتہ الاسلام مولانا محمدقاسم ناناتوی علیہ الرحمة  نے دارالعلوم دیوبند قائم کیا تھا تو وہیں حاجی صاح ہی کے دوسرے خلیفہ مجاز بیعت  مولانا سید محمد علی مونگیریؒ نے ندوة العلماء کی داغ بیل ڈالی تھی ۔۔اگر حاجی صاحب کے دو خلیفہ مولانا رشید احمد گنگوہیؒ،و مولانا اشرف علی تھانویؒ نے دیوبند کی عرصہ دراز تک بے لوث سرپرستی و عظیم خدمت کی تھی تو دوسری طرف حاجی صاحب ہی کے دوسرے دو ممتاز خلیفہ مولانا سید عبدالحئی حسنیؒ و مولانا حیدر حسن خان ٹونکویؒ نے اپنے خون جگر سےندوة العلماء کی آبیاری کی ۔۔۔۔جس طرح حاجی صاحب دیوبند کے متعلق فکر مند رہتے تھے بلکل اسی طرح ندوہ کی ترقی و رفعت کے لئے بھی ہمہ دم متفکر و دعا گو رہتے  ۔۔۔یہ باتیں بلا دلیل و برہان کے نہیں کہیں جارہی ہیں دونوں اداروں کی تاریخ سے ہر باخبر شخص اس بات سے سو فیصد اتفاق کرے گا ۔۔۔۔۔خود ندوة العلماء کے قیام میں جو حضرات معاون رہے ان میں حضرت شیخ الہندؒو حضرت حکیم الامتؒ وغیرہ بھی شامل تھے ۔۔۔۔دونوں اداروں میں ہمیشہ اپنائیت و محبت کا تعلق رہا ہے ۔۔۔۔یہی وجہ ہے کہ جانشین شبلی علامہ سلیمان ندویؒ، و معروف ندوی فاضل مولانا عبدالباری ندویؒ نے اپنی باطنی اصلاح و تزکیہ نفس کے لئے، سرپرست دارالعلوم دیوبند حضرت حکیم الامتؒ کے آستانہ پر حاضری دے کر اپنی جبین نیاز خم کی اور بے خوف و خطر اپنے اس عمل سے اس بات کا بین ثبوت دیا کہ ندوہ اور دیوبند دونوں فکری و روحانی طور پر ایک ہی ادارہ ہیں ۔۔اسی طرح ڈاکٹر عبدالعلی حسنیؒ نے شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرے اسی تعلق کو مضبوط کیا پھر آگے چل کر اسی روایت کو مفکر اسلام مولانا علی میاںؒ نے برقرار رکھا۔۔وہ حضرت مدنیؒ کے صرف شاگرد رشید ہی نہیں تھی بلکہ خلیفہ مجاز بھی تھے  ۔۔حضرت مدنیؒ نے از خود علی میاں صاحبؒ کو بیعت کرنا چاہا تھا اور آپ پر مکمل اعتماد ظاہر کیا تھا ۔۔۔اسی طرح قاسمی عالم دین مولانا مناظر احسن گیلانیؒ  کو تو ندوہ کے در و بام سے حد درجہ عشق تھا ۔۔۔معروف مناظر اور دیوبند کے رکن شوریٰ علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے نامور شاگردمولانا منظور نعمانیؒ و مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ  کی طویل رفاقت اور مثالی معاصرت سے آگاہ تو ہر عالم دین ضرور ہوں گے ۔۔۔۔۔۔
    
    دارالعلوم دیوبند سے علی میاںؒ و اکابرین ندوہ کا بڑا گہرا تعلق رہا ہے یہی وجہ تھی کہ جشن صد سالہ کے مبارک موقع پر ناظم ندوہ مولانا علی میاںؒ کو بھی خطاب عام  کا موقع دیا گیا تھا ۔۔۔ان کی یہ تقریر کافی مشہور بھی ہوئی اور آگے چل کر کتابی شکل میں بھی شائع ہوئی۔۔اسی طرح علی میاں رح کو دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کا ممبر بھی نامزد کیا گیا تھا ۔۔ایک عرصہ تک حضرت نے وہاں کی انتظامیہ کو اپنے مفید مشوروں و بے لاگ تبصروں سے نوازا تھا۔۔آخری دور میں جب قضیہ نا مرضیہ پیش آیا تو حضرت قاری صدیق باندویؒ، مولانا شاہ عبدالحلیم جونپوریؒ، مولانا منظور نعمانیؒ کی طرح علی میاںؒ نے بھی غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا اور آخر دم تک دونوں دھڑوں میں اتحاد کرنے کی  بے لوث کوشش کرتے رہے ۔۔۔۔۔نیز مولانا علی میاںؒ کی اکابر دیوبند کے ہاں بڑی قدر و منزلت تھی ۔۔۔حضرت شیخ زکریاؒ کو تو حضرت علی میاں پر حد درجہ اعتماد تھا اسی طرح حضرت تھانوی رح کے خلیفہ مصلح الامت مولانا شاہ وصی اللہؒ کا یہ جملہ تو کتابوں میں بھی مذکور ہے کہ بہت سے لوگوں سے ملنا ہوا سب کو دیکھا لیکن جو دل کی صفائی علی میاںؒ کے ہاں دیکھی وہ کہیں نا ملی ۔علی میاں کا دل آئینہ کی طرح صاف و شفاف اور بے داغ و غبار ہے ۔۔۔ اسی طرح حضرت رائےپوری کا ارشاد علی میاں مثل آفتاب و ماہتاب ہے جس کی ضوفشانی سے سارا عالم تابندہ ہے ان کے علاوہ مولانا الیاس کاندھلویؒ کا حضرت ندوی سے جو تعلق تھا وہ سب پر عیاں ہے تبلیغی جماعت کو آفاقیت و ہمہ گیریت سے شادکام کرانے میں حضرت علی میاںؒ کے علاوہ فضلائے ندوہ مولانا عمران خان ازہری بھوپالیؒ، مولانا محمد حسنیؒ ،مولانا معین اللہ اندوریؒ، مولانا سید رابع حسنی مدظلہ (1929)، مولانا عبداللہ حسنیؒ اور مولانا غزالی بھٹکلیؒ،کا جو کردار رہا ہے وہ جگ ظاہر ہے ۔۔اس میدان میں فضلائے ندوہ نے جو لازوال نقوش ثبت کئے ہیں وہ اظہر من الشمس ہیں ۔۔ اور نا صرف کل بلکہ ہنوز  علمائے  ندوہ  کا دیوبند و مظاہر علوم سے ربط اسی طرح مستحکم و پائیدار  ہے ۔۔خود ناظم ندوہ مولانا سید رابع حسنی مدظلہ حضرت مدنیؒ کے شاگرد ہیں اسی طرح حضرت مدنیؒ کے آخری دور کے شاگرد اور 1957 میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کرنے والے ملک کے عظیم فقیہ مولانا برہان الدین سنبھلی مدظلہ ندوہ کے قدیم و موقر استاذوں میں سے ہیں بلکہ شیخ التفسیر کے عہدہ پر بھی فائز رہ چکے ہیں ۔۔اسی طرح دوسرے استاذ مولانا عتیق احمد بستوی مدظلہ (1954)بھی دیوبند ہی کے  فیض یافتہ ہیں ۔۔شیخ الحدیث ندوہ مولانا زکریا سنبھلی مدظلہ(1943) نے بھی ابتدا دارالعلوم دیوبند سے 1966 میں فراغت حاصل کی اور شیخ فخر الدین مرادآبادیؒ سے بخاری شریف پڑھی ۔۔۔اسی طرح  مولانا مظہر الحق کریمی مدظلہ بھی دیوبند کے فارغ ہیں ۔۔۔۔۔
   دوسری طرف دیوبند کے مایہ ناز ادیب مولانا نور عالم خلیل امینی مدظلہ؟(1952) نے ایک طویل عرصہ تک ندوة العلماء میں تدریسی فرائض انجام دئے ہیں  اور ساتھ ہی ساتھ مولانا علی میاں ندوی سے کسب فیض کیا ۔۔ان کے علاوہ دارالعلوم وقف دیوبند کے سابق مہتمم خطیب الاسلام مولانا سالم قاسمیؒ(1926۔2017) بھی طویل عرصہ تک ندوة العلماء کی مجلس انتظامیہ کے معتبر رکن رہے ہیں ۔۔۔ان سب تصریحات کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ندوہ و دیوبند کوئی علیحدہ یا مختلف ادارہ نہیں ہیں بلکہ دونوں ایک ہی مشن کے علمبردار اور ایک ہی مقصد کے تحت سرگرم عمل ہیں۔
۔______(طویل مضمون کواختصارکےساتھ پیش کیاجارہاہے۔ادارہ ۔