Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, February 14, 2019

سیکولرزم ، صرف ایک سیاسی ڈھکوسلہ!!

تحریر/ عزیز اعظمی/ صدائے وقت۔
 .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  
مداری نے جب کھیل دیکھانا شروع کیا تو اپنے ہنر کا ایسا مظاہرہ  کیا اپنے جادوئی کردار کا ایسا نظارہ پیش کیا اسے پرکشش بناکر اس میں ایسی مقناطیسیت ڈالی کی دیکھنے والا اس کی طرف کھینچا چلا آیا  ۔۔ کبھی راستے کی دھول سے گرم جلیبی بناتا تو کبھی اپنے رومال سے خوبصورت پھول ، کبھی ڈنڈے سے سانپ بناتا تو کبھی اپنے تھیلے کو ہوا میں غائب کر تا اس جادوئی فن سے جب اس نے اپنے پاس لوگوں کا ایک ہجوم کھڑا کر لیا  تو اپنے مقصد کے حصول کے لئے وحشت کا ایسا کھیل شروع کیا دہشت کا ایسا ماحول بنایا پیسہ نہ دینے والوں کے منھ سے گرتے ہوئے خون کا ایسا خوفناک منظر پیش کیا کہ وہاں موجود بھیڑ کی ہر ہر جیب سے سکے نکال لئے ۔۔۔ اور جو کچھ اس نے دکھایا وہ نظروں کے دھوکے اور فرضی کردار کے سوا کچھ نہیں تھا ۔۔ لیکن ہماری کم علمی اور کم عقلی کہ ہم اسے سچ سمجھتے رہے  ۔۔

آج  ہماری سیاست اسی مداری کے کھیل کی طرح ہے اور ہماری حالت اسی تماشبین کی طرح ۔۔۔۔ مداری خوف دیکھا کر ہمارا پیسہ لوٹ لیتا ہے اور سیاست خوف دکھا کر ہمارا ووٹ ۔۔۔ سیکولر سے لیکر کمیونل تک سیاست کے سارے کردار منھ سے خون پھینکنے والے اسی مداری کے ساتھی کی طرح فرضی ہیں جو لوگوں کی جیب سے پیسہ نکلانے کے لئے ڈھونگ کرتا ہے جس طرح سیاست ہمارا ووٹ لینے کے لئے سیکولرازم کا ڈھونگ کرتی ہے ، حقیقت سے نہ اس مداری کا کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اس سیکولر سیاست کا ۔۔۔ مداری ہمارے خوف کا فائدہ اٹھاکر ِِِسِکّہ کماتا ہے اور سیاست ہمارے خوف کا فائدہ اٹھاکر سَتّہ ۔۔

 بھیا جی بھری سبھا میں گڑھ جوڑ کر رہے ہیں ، باؤ جی راجیہ سبھا میں پراررتھنا کر رہے ہیں ، چاچا جی نیا محاذ بنا رہے ہیں ایک ہی گھر میں سیاست کے اتنے رنگ ، سیکولرازم کے اتنے اصول ۔۔۔ اور ہم ایک ہی اصول پر قائم ہیں کہ نیتا جی زندہ باد ، سیکولرازم پائندہ باد  ۔۔۔ ہم واقعی مداری کے تماشائی کے سوا کچھ نہیں ۔۔

   ہندوستان کی ساری راجنیتی ساری سیاست اسی تماشبین نمامسلمانوں کے ارد گرد گھومتی ہے یہی سیاسی مہرہ بھی ہے اور محور بھی ۔۔ اسی کو ڈرایا بھی جاتا ہے ، اسی کو مارا بھی ، اسی کو نکالا بھی جاتا ہے ، اسی کو بھگایا  بھی ۔۔  وہی دہشت گرد بھی ہے وہی دیش دروہی بھی   ۔وہی فسادی بھی ہیں وہی جہادی بھی ، وہی قاتل بھی وہی مقتول بھی ۔۔۔۔ ہمارے وجود کے سارے فیصلے وہی کرتے ہیں  ۔۔۔۔ لیکن  ہم کیا ہیں ۔۔ ہماری طاقت کیا ہے ، ہماری صلاحیت کیا ہے ، ہماری حقیقت کیا ہے ہماری حیثیت کیا ہے ہم ان تمام باتوں سے انجان بیگانے کی شادی میں جمن دیوانے کی طرح مجرا کر تے ہیں ۔۔۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے ذاتی مفاد کو مقدم رکھتے ہیں اجتماعی مفاد کو نہیں ۔ ذاتی طاقت و قوت کو تو بڑھانا چاہتے ہیں لیکن اجتماعی قوت کو نہیں ہماری اجتماعی قوت اس ملک میں کیا حیثیت رکھتی ہے اس کی ایک چھوٹی سی مثال کہ ۔۔۔

جب جب ضرورت پڑی ہے ہم نے اپنے خون پسینے سے اس ملک کو سینچا ہے لیکن اس کو بتانے کے لئے ہمارے پاس کوئی اپنا مضبوط سیاسی پلیٹ فارم نہیں لوگ اپنے سیاسی پلیٹ فارم سے جھوٹ بیچ لیتے ہیں اور ہم سچ نہیں کہ پاتے ، موجودہ سرکار ملکی معیشت کو تباہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ڈالر کے مقابلے روپئے کی قیمت حد درجہ گھٹ گئی مسلمانوں کی اجتماعی قوت نے اس ملک کی معیشت کو سنبھالے رکھا ملک کی معیشت اور روپئے کی قدر کو کو دنیا کے سامنے نیلام ہونے نہیں دیا،  باہر ممالک کمانے والے ہندوستانیوں نے 2018 میں 80 بلین ڈالر ملک میں بھیج کر ملکی معیشت کو گرنے نہیں دیا جس میں باہر ممالک رہنے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔۔ اس ملک کی معیشت ، تحفظ و بقاء کی پاسبانی جو اس ملک کا مسلمان کرتا ہے  وہ سیاست اور سیکولر کا کھیل دیکھانے والا مداری کبھی نہیں کر سکتا ۔۔۔  
ہمارے اندر قابلیت ہے ، صلاحیت ہے لیکن کسی قابل شخص کی قابلیت ، صلاحیت ، قومیت ، اس وقت تک  آسمان چھوتی ہیں جب تک وہ آزاد رہتا ہے ۔۔

ماتحتی غلامی قابلیت کو زنگ آلود کر دیتی ہے اسکی زبان کو کاٹ دیتی ہے  اور اسکی قابلیت صرف ذاتی اور شخصی نفع و نقصان تک محدود رہ جاتی ہے  ۔۔ ایسے سیاسی شیر اور جیالے بہت آئے لیکن جب سیاسی ماتحتی میں گئے تو گونگے اور بہرے ہو گئے۔۔

اس لئے ضرورت ہے کہ اپنی سیاسی پارٹیوں کو اوٹ دو انکو مضبوط کرو چاہے ایک ہی سیٹ کیوں نہ ملے لیکن وہ اکیلی سیٹ آزادانہ طور سے آپکی ترجمان ہوگی۔۔
مسلمانوں یہ جان لو  زخموں پر اپنوں کے علاوہ کوئی دوسرا مرہم رکھنے نہیں آئے گا ۔۔ اس کا موازنہ اپنے گھر کے کسی مریض سے کر لیں کہ اس کے زخموں پر مرہم رکھنے اسکی خدمت کے لئے خون کھڑا ہوتا ہے ۔۔ دنیا تو صرف تیمار داری کرتی ہیں ۔۔
۔____________
عزیزاعظمی