Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, March 11, 2019

داغ دہلوی کے شاگرد اور صاحب کمال شاعر " آغا شاعر قزلباش کے یوم وفات 11 مارچ کے موقع پر خراج عقیدت۔

یوم وفات/ 11 / مارچ / 1940
صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
*آغا شاعرؔ قزلباش دہلوی* ان شاعروں میں سے ایک تھے جن کو اپنے عہد میں ملک گیر شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ وہ داغ دہلوی کے شاگرد تھے لیکن ان کی شاگردی میں آنے سے پہلے ہی وہ مشاعروں میں اپنی خوش گوئی کی داد حاصل کر کے عوام و خواص میں شہرت و مقبولیت حاصل کر چکے تھے۔ ان کے ہم عصر اساتذہ ان کے کلام کی فصاحت روانی اور برجستگی کے معترف تھے۔ نہ صرف دہلی بلکہ ملک کے بیشتر حصوں میں ان کی شخصیت اور شاعری کا سکہ بیٹھا ہوا تھا۔وہ استاد فن ،صاحب کمال اور زبان داں تسلیم کئے جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی سیکڑوں شعراء نے ان کی شاگردی اختیار کی تھی ۔علامہ اقبال جیسی بلند پایہ ہستیاں زبان کے معاملہ میں ان سے رجوع کرتی تھیں۔  وہ گوناگوں صلاحیتوں کے مالک تھے۔غزلوں کے علاوہ ان کی نظمیں، مرثئےاور منظوم ترجمے بھی ان کے عہد میں مقبول تھے۔انھوں نے ڈرامہ نگاری،انشائیہ،ناول نگاری اور اپنی صحافت سے بھی اردو ادب کو مالامال کیا، آغا شاعر نے داغ اسکول کی ہی خدمت نہیں کی بلکہ جدید شاعری کی راہوں کو بھی روشن کیا۔ رباعیات عمر خیام اور قران حکیم کے منظوم تراجم اردو ادب میں ان کی ایسی خدمات ہیں جن کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
*آغا شاعرؔ قزلباش* کا اصل نام  *ظفر علی بیگ* تھا۔
وہ *5 مارچ 1871ء* کو *آغا شاعر* پیدا ہوئے۔ آغا شاعر کا گھرانہ آسودہ حال اور فارغ البال تھا۔ وہ اپنی ماں کے بہت لاڈلے تھے۔ آغا کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔دو اساتذہ ان کو عربی اور قرآن کا درس دینے آتے تھے۔فارسی ان کے گھر کی زبان تھی۔ابتدائی تعلیم کے بعد ان کو اس وقت دہلی کی مشہور درسگاہ اینگلو عربک اسکول میں داخل کرایا گیا جہاں سے انو ں نے آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا، اسکول کے زمانہ میں ہی ان کو مضمون نویسی اور شاعری کا شوق پیدا ہوا *آغا شاعرؔ قزلباش* نے یوں تو نثرو نظم میں بہت کچھ لکھا لیکن ان کا اصل میدان غزل ہے۔  *١١ مارچ ١٩٤٠ء* کو ان کا انتقال ہوا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
*آغا شاعرؔ قزلباش کے  منتخب اشعار ...
اس لئے کہتے تھے دیکھا منہ لگانے کا مزہ
آئینہ اب آپ کا مد مقابل ہو گیا
---
ابرو نہ سنوارا کرو کٹ جائے گی انگلی
نادان ہو تلوار سے کھیلا نہیں کرتے
---
اک بات کہیں تم سے خفا تو نہیں ہو گے
پہلو میں ہمارے دلِ مضطر نہیں ملتا
---
*پامال کر کے پوچھتے ہیں کس ادا سے وہ*
*اس دل میں آگ تھی مرے تلوے جھلس گئے*
---
تم کہاں وصل کہاں وصل کی امید کہاں
دل کے بہکانے کو اک بات بنا رکھی ہے
---
*پہلے اس میں اک ادا تھی ناز تھا انداز تھا*
*روٹھنا اب تو تری عادت میں شامل ہو گیا*
---
ملنا نہ ملنا یہ تو مقدر کی بات ہے
تم خوش رہو رہو مرے پیارے جہاں کہیں
---
کس طرح جوانی میں چلوں راہ پہ ناصح
یہ عمر ہی ایسی ہے سجھائی نہیں دیتا
---
کلیجے میں ہزاروں داغ دل میں حسرتیں لاکھوں
کمائی لے چلا ہوں ساتھ اپنے زندگی بھر کی
---
جس نے تجھے خلوت میں بھی تنہا نہیں دیکھا
اس دیکھنے والے کا کلیجہ نہیں دیکھا
---
لاکھ لاکھ احسان جس نے درد پیدا کر دیا
جس نے اس دل کو ہتھیلی کا پھپھولا کر دیا
---
*کیا خبر تھی رازِ دل اپنا عیاں ہو جائے گا*
*کیا خبر تھی آہ کا شعلہ زباں ہو جائے گا*
---
*جان دیتے ہی بنی عشق کے دیوانے سے*
*شمع کا حال نہ دیکھا گیا پروانے سے*
---
میں خودی میں مبتلا خود کو مٹانے کے لیے
تو نے تو ہر ذرے کو ضو دی جگمگانے کے لیے
---
*ہمیں ہیں موجب بابِ فصاحت حضرتِ شاعرؔ*
*زمانہ سیکھتا ہے ہم سے ہم وہ دلی والے ہیں۔