Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, March 30, 2019

اپریل فول کی تاریخی و شرعی حیثیت۔



از: ابوجندل قاسمی‏ رامپور۔/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
اسلام ایک آفاقی مذہب ہے۔ اس نے زندگی کے تمام شعبہ جات کے لیے اپنے ماننے والوں کو بہترین اور عمدہ اصول وقوانین پیش کیے ہیں۔ اخلاقی زندگی ہو یا سیاسی، معاشرتی ہو یا اجتماعی اور سماجی ہر قسم کی زندگی کے ہر گوشہ کے لیے اسلام کی جامع ہدایات موجود ہیں اور اسی مذہب میں ہماری نجات مضمر ہے۔
مگر آج ہمیں یورپ اور یہودونصاریٰ کی تقلید کا شوق ہے اور مغربی تہذیب کے ہم دلدادہ ہیں۔ یورپی تہذیب وتمدن اور طرزِ معاشرت نے مسلمانوں کی زندگی کے مختلف شعبوں کو اپنے رنگ میں رنگ دیا ہے۔ مسلمانوں کی زندگی میں انگریزی تہذیب کے بعض ایسے اثرات بھی داخل ہوگئے ہیں، جن کی اصلیت وماہیت پر مطلع ہونے کے بعد ان کو اختیار کرنا انسانیت کے قطعاً خلاف ہے؛ مگر افسوس کہ آج مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ان اثرات پر مضبوطی سے کاربند ہے؛ حالاں کہ قوموں کا اپنی تہذیب وتمدن کو کھودینا اور دوسروں کے طریقہٴ رہائش کو اختیار کرلینا ان کے زوال اور خاتمہ کا سبب ہوا کرتا ہے۔ مذہبِ اسلام کا تو اپنے متبعین سے یہ مطالبہ ہے.
*”یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِیْ السِّلْمِ کَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ“ (البقرہ آیت۲۰۸)*
ترجمہ: اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدم پر مت چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔ *(بیان القرآن)*
یہود ونصاریٰ کی جو رسومات ہمارے معاشرہ میں رائج ہوتی جارہی ہیں، انھیں میں سے ایک رسم ”اپریل فول“ منانے کی رسم بھی ہے۔ اس رسم کے تحت یکم اپریل کی تاریخ میں جھوٹ بول کر کسی کو دھوکا دینا، مذاق کے نام پر بے وقوف بنانا اور اذیت دینا نہ صرف جائز سمجھا جاتا ہے؛ بلکہ اسے ایک کمال قرار دیا جاتا ہے۔ جو شخص جتنی صفائی اور چابک دستی سے دوسروں کو جتنا بڑا دھوکا دے دے، اُتنا ہی اُس کو ذہین، قابلِ تعریف اور یکم اپریل کی تاریخ سے صحیح فائدہ اٹھانے والا سمجھا جاتا ہے۔ یہ رسم اخلاقی، شرعی اور تاریخی ہر اعتبار سے خلافِ مروت، خلافِ تہذیب اور انتہائی شرمناک ہے۔ نیز عقل ونقل کے بھی خلاف ہے۔
اس رسم بد کی دو حیثیتیں ہیں: (۱) تاریخی۔ (۲) شرعی۔
*اپریل فول کی تاریخی حیثیت*
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
اس رسم کی ابتداء کیسے ہوئی؟ اس بارے میں موٴرخین کے بیانات مختلف ہیں۔ ہم یہاں ان میں سے ایک قول پیش کرتے ہیں؛ تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ عقل وخرد کے دعوے داروں نے اس رسم کو اپنانے میں کیسی بے عقلی اور حماقت کا ثبوت دیا ہے۔
(1)انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا میں اس رسم کی ایک اور وجہ بیان کی گئی ہے کہ اکیس مارچ سے موسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہوجاتی ہیں، ان تبدیلیوں کو بعض لوگوں نے اس طرح تعبیر کیا کہ (معاذ اللہ) قدرت ہمارے ساتھ اس طرح مذاق کرکے ہمیں بے وقوف بنارہی ہے؛ لہٰذا لوگوں نے بھی اس زمانے میں ایک دوسرے کو بے وقوف بنانا شروع کردیا۔ *(انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا ۱/۴۹۶ بحوالہ ”ذکروفکر“ ص۶۷، مفتی تقی عثمانی مدظلہ)*
*اپریل فول کی شرعی حیثیت*
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
مندرجہ بالا تفصیل سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ تاریخی اعتبار سے یہ رسم بد قطعاً اس قابل نہیں کہ اس کو اپنایا جائے؛ کیونکہ اس کا رشتہ یا تو کسی توہم پرستی سے جڑا ہوا ہے، جیساکہ پہلی صورت میں بیاں کیا گیا ہے.
اس کے علاوہ یہ رسم اس لیے بھی قابلِ ترک ہے کہ یہ مندرجہ ذیل کئی گناہوں کا مجموعہ ہے:
(۱) مشابہت کفار ویہود ونصاریٰ
(۲)جھوٹا اور ناحق مذاق
(۳)جھوٹ بولنا
(۴)دھوکہ دینا
(۵)دوسرے کواذیت پہنچانا
ان میں سے ہر ایک پر الگ الگ عنوانات کے تحت مختصر کلام کیا جاتا ہے؛ تاکہ یہ بات معلوم ہوجائے کہ احادیثِ شریفہ میں ان گناہوں پر کتنی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔
*کفار اور یہودونصاریٰ کی مشابہت*
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود ونصاریٰ اور کفار ومشرکین کی مشابہت اور بودوباش اختیار کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے، مثلاً: آقا  صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی رکھنے کا اور مشرکین ومجوس کی مخالفت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح یہود کی مشابہت سے بچنے کے لیے دسویں محرم کے ساتھ نویں تاریخ کو روزہ رکھنے کا بھی حکم فرمایا۔ غرض کہ ہر موقع پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرقوموں کے طریقہٴ زندگی کو اپنانے سے منع فرمایا ہے۔ اور ان الفاظ میں وعید فرمائی ہے کہ: ”من تشبّہ بقوم فہو منہم“ (مشکوٰة شریف ۲/۳۷۵) یعنی
جو شخص کسی قوم سے مشابہت اور ان کے طور طریقے کو اختیار کرے گا اس کا شمار انہی میں ہوگا؛ مگر افسوس کہ غیرقوموں کا طریقہ ہی آج ہمیں پسند ہے۔
حالانکہ ہمیشہ ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دی ہے، آپ کی حیات میں بھی اور وفات ظاہری کے بعد بھی۔ نیز ہمیشہ ان کی کوششیں دین اسلام اور مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے پر صرف ہوتی ہیں؛ مگر ہم مسلمان ذرا اس بات پر غور نہیں کرتے اور انھیں کے طور طریقوں میں مگن رہتے ہیں اور اپنے عمل سے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیتے ہیں۔