Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, March 29, 2019

امانت و اطاعت اور امامت و امارت۔


ڈاکٹر سلیم خان/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
اسلام انفرادیت و اجتماعیت کا حسین ترین امتزاج ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ انفرادی کامیابی  کا حصول اجتماعی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا متقاضی ہے۔ اس طرح ہر فردِ بشر کا اپنے فرض منصبی کی ادائیگی اور اخروی فلاح  کے  لیے  کسی نہ کسی صالح اجتماعیت سے وابستہ ہونا لازم قرار پاتا ہے۔رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:’’میں تم کو پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں جس کا حکم اللہ نے مجھے دیا ہے۔ جماعت، سمع، طاعت، ہجرت اور خدا کی راہ میں جہاد ۰۰۰۰‘‘اس حدیث قدسی کی  قدرو منزلت کا اندازہ  اس بات سے لگایا جاسکتا ہے یہ   حکم اللہ تبارک و تعالیٰ  کا ہے ۔  اس  طرح  اہمیت کا احساس دلانے کے بعد سب سے پہلے فرمایا جماعت یعنی اجتماعیت سے وابستہ ہونا (اگر موجود نہ ہو توشمولیت کے لیے اسے قائم کرنا ، اس حکم میں شامل ہے)۔ 
یہ اجتماعیت چار پہیوں کی گاڑی ہے ۔ اس کے اگلے دو پہیے سمع و طاعت ہیں پچھلے دو پہیوں کا نام ہجرت و جہاد ہے۔  یعنی اگر کسی اجتماعیت سے وابستہ افراد سننے اور ماننے کے قائل نہ ہوں۔ ان میں کوئی کسی کی بات پر کان نہ دھرے  اور ہر کوئی اپنی من مانی کرے تو وہ  اجتماعیت قائم ہی نہیں ہوگی اور بفرض محال اگر قائم بھی ہوجائے تو جلد ہی  منتشر ہوجائے گی  ۔ لیکن  اگر سارا زور سننے سنانے پر ہومگر کرنے کرانے کاجذبۂ عمل  مفقود ہو تو تحریک پیش رفت  نہیں کر سکےگی ۔  تحریک اسلامی کی سرگرمیاں   اس حدیث میں ہجرت و جہاد سے منسوب ہیں ۔ یہ بے ضرر نمائشی سرگرمیوں  پر اکتفاء نہیں کرتی کہ جن سے’ پاسباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی ‘ بلکہ اس کی راہ میں دنیا کا ساری کمائی یہاں تک کہ وطن عزیز  سے ہجرت   کی بھی نوبت آسکتی ہے اور اس جدجہد میں جان عزیز  کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑسکتا ہے۔ یہ تحریک اسلامی کا انقلابی پہلو ہے۔   
حضرت عمرؓ نے فرمایا کوئی اسلام نہیں بغیر جماعت کے؛ کوئی جماعت نہیں بغیر امیر اور کوئی امیر نہیں بغیر مامور کے۔یعنی امیر و مامور سے مل کر جماعت بنتی ہے۔ یہاں مشکل یہ ہے کہ مامورین تو بے شمار ہوتے ہیں لیکن ان میں سے امیر کوئی ایک ہی  ہوتا ہے اس لیے امیر کا تعین کیسے کیا جائے ؟  اس بابت ارشادِ ربانی ہے:‘‘ بےشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو،۰۰۰’’۔ اس مطلب  ہے کہ یہ کام رائے مشورے سے ہوگا۔ یہ رائے اللہ کی امانت ہے اور اس کا استعمال اسی کے حق میں ہوگا کہ جو اہل ترین  ہو۔  آگے فرمایا‘‘۰۰۰۰  اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۰۰۰۰’’، یعنی عظیم  ترین مصالح کےتحت   بھی یہ رائے اگر کسی نااہل کے حق میں جائے تو وہ ناانصافی،  امانت میں خیانت کے مترادف ہو گی۔  اس آیت کے آخر میں رب کائنات انذار کے طور پر فرماتے ہیں‘‘۰۰۰  اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے’’۔ یعنی خبردار،  اس امانت کا استعمال کرتے وقت تمہارے دلوں کی کیفیت سے رب کائنات خوب واقف ہے (النساء۵۸)۔
انسانی فیصلوں میں تما م تر اخلاص و احتیاط کے باوجود نسیان کا احتمال  ہوتا ہے لیکن انفرادی کجی و کمزوری پر قابو پانے  کےلیے اجتماعی ضابطے وضع کیے جاتے ہیں۔ کتاب الٰہی میں   اگلی ہی آیت کے اندراس  کااہتمام  فرمادیا گیا ہے‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ہوئے، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں’’، یعنی صاحب امر کی اطاعت تو ہوگی لیکن وہ  اللہ اور رسولؐ کے تابع  رہےگی۔  وہی حکم قابلِ  اطاعت ہوگا جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی احکامات سے متصادم نہ  ہو بصورتِ دیگرخالق کی معصیت میں مخلوق کی عدم اطاعت کی آزادی مامور کے لیے بحال ہوجائے گی۔  امیر و مامور ین کے درمیان تنازعات کے حل کی بابت  فرمانِ خداوندی ہے‘‘۰۰۰ پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے’’ ۔ قرآن و سنت کی بنیاد پر اپنے داخلی وخارجی  تنازعات پر قابو پا لینا اسلامی اجتماعت کا طرۂ امتیاز ہے۔