Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, March 31, 2019

عارف محمد خان اور پروفیسر محمد لقمان خان کا جونپور میں والہانہ استقبال۔




جونپور۔۔اتر پردیش۔۔۔صدائے وقت / ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
مورخہ 28 مارچ، کو اے ایم یو اولڈ بوائز ایسو سی ایشن شاہ گنج کے زیر اہتمام قبا انٹرنیشنل اسکول اسرہٹہ شاہ گنج جونپور میں ایک سمپوزیم بعنوان " سر سید ایک مصلح قوم" کا انعقاد ہوا ۔۔۔اس پروگرام کے مہمان خصوصی عارف محمد خان تھے۔عارف محمد خان اے ایم یو طلباء یونین کے صدر رہ چکے ہیں ۔۔۔سابق مرکزی وزیر کے علاوہ ایک معروف اسکالر ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔راجیو گاندھی کے دور حکومت میں بحیثیت مرکزی وزیر شاہ بانو معاملے میں متنازعہ رہے ہیں۔۔۔خاص طور پر علماء کرام کی نظر میں۔ان کی آمد پر علیگرین میں ایک زبردست حوصلہ تھا خاص طور پر اس زمانے کے سابق طلباء اور ان کے ساتھ کے ہاسٹل فیلو اور سپورٹر جو کہ بڑی تعداد میں شاہگنج، اعظم گڑھ و جونپور میں مقیم ہیں۔
28 تاریخ کی صبح 6۔30 پر ان کی ٹرین جونپور سٹی ریلوے اسٹیشن پر پہنچنی تھی۔جلسہ گاہ سے 30 کلو میٹر دور۔حالانکہ ان کو پروگرام کے منتظمین نے ایر ٹکٹ کا آفر دیا تھا مگر انھوں نے یہ کہکر انکار کردیا کہ " اپنے چھوٹے بھائیوں کے پروگرام میں ہوائی جہاز کا ٹکٹ لینا مناسب نہیں ۔میں ٹرین سے آجاوں گا جس کا ٹکٹ مجھے فری میں ملتا ہے۔(سابق یونین منسٹر کیوجہ سے )۔اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔
صبح سویرے ساڑھے 6 بجے شاہ گنج اور جونپور کے علیگیرین ( جن میں بیشتر کی عادت 9 بجے تک سونے کی ہے) جونپور سٹی اسٹیشن گلدستوں کے ساتھ پہنچ گئے۔۔اتفاق سے ٹرین ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ تھی ۔۔لوگوں نے خوشی خوشی انتظار کیا ۔شاہگنج سے زیڈ کے فیضان، ڈاکٹر شرف الدین اعظمی ، ڈاکٹر تبریز عالم ۔اعجاز احمد بطور خاص رہے۔۔۔۔۔جونپور شہر سے ایڈوکیٹ افروز احمد ۔ڈاکٹر فیض احمد ، نجم الحسن نجمی وغیرہ بطور خاص تھے.  استقبال کرنے والوں کی تعداد 15 سے 20 علیگ کی رہی ہوگی۔۔۔۔ٹرین کے آتے ہی لوگوں نے والہانہ استقبال کیا کچھ گلے ملے تو کچھ  مصافہ تک محدود رہے۔کئی ایک لوگوں کو 45 سال کے بعد کی ملاقات میں پہچان لیا۔کچھ کو تعارف کرانا پڑا ۔۔وہ علیگ جو ان کے بعد کے تھے یا جنھوں نے ان سے کبھی نہیں ملاقات کی تھی وہ اپنے سینیر کے جذبات کو دیکھتے رہے۔اسٹیشن سے ریسیو کرکے ان کو موضع ڈھنڈھوارہ لانا تھا مگر جونپور شہر میں ایڈوکیٹ افروز احمد نے اپنے دولت کدہ پر مہمان کی شان میں "پرتکلف ناشتہ" کا اہتمام کیا تھا ۔ناشتے پر باتیں ہوتی رہیں کبھی ہاسٹل کی تو کبھی اس دور کے سیاست کی۔۔۔۔۔۔۔
ناشتہ پر بہت سارے پر تکلف لوزامات کیساتھ جلیبیاں بھی تھیں۔۔۔۔جلیبی کھاتے ہوئے عارف محمد خان نے بتایا کہ جلیبی ہندوستانی مٹھائی نہیں ہے بلکہ یہ یونان و ترک سے عرب و ایران ہوتے ہوئے ہندوستان پہنچی ہے۔
ناشتے سے فراغت کے بعد ان کا کاروں روانہ ہوا اب انکی منزل جلسہ گاہ کے قریب ہی واقع موضع ڈھنڈوراہ کلاں تھی جہاں پر انجینیر مصلح الدین خان کے دولت کدہ پر ان کو رک کر آرام کرنا تھا۔۔۔۔۔ویاں پہنچنے پر اہل موضع نے ان کا استقبال کیا۔
مہمان اعزازی پروفیسر ڈاکٹر محمد لقمان خان ، زولوجی  کے سائنسداں ، سابق وائس چانسلر محمد علی جوہر یونیورسٹی
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طالب علم علیگس کے پروگرام میں شرکت کے لئیے اور سرزمین جونپور و اعظم گڑھ آکر اپنے پرانے دوستوں اور ہاسٹل فیلوز کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے لئیے پروگرام سے ایک روز پہلے یعنی 27 مارچ کو ہی کیفیات ایکسپریس سے شاہگنج آگئے۔۔۔یہاں یہ بات واضح کردوں کی محمد لقمان خان سر سلیمان ہال کے ہوسٹل بھوپال ہاوس میں رہتے تھے۔اس ہاسٹل میں جونپور و اعظم گڑھ کے طلباء خاصی تعداد میں تھے اسی وجہ سے ان کے ساتھی خطے میں بہت ہیں۔27 کی صبح شاہگنج اسٹیشن پر زیڈ کے فیضان،میں خود(ڈاکٹر شرف الدین اعظمی)،اعجاز احمد، انجنیر امتیاز احمد اسٹیشن پر پہنچے اور ان کو لیکر اپنے غریب خانہ پر آئے ۔ پروگرام یہ تھا کہ کچھ دیر قیام کے بعد امتیاز احمد کے ساتھ موضع رمو پور (اعظم گڑھ)۔چلے جائیں گے مگر شاہگنج میں ڈاکٹر عقیل الرحمن ، ندیم ظفر، محمد آصف اور کئی ایک علیگ ان سے ملنے آتے گئے اور جب باتیں / پرانی یادیں تازہ ہونے لگیں تو یہ شعر یاد آگیا۔
غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا۔
زرا عمر رفتہ کو آواز دینا۔
پرانی یادوں اور ہوسٹل کی زندگی کے علاوہ ذاتی تجربات کے ساتھ کافی سنجیدہ باتیں بھی ہوئیں اور اندازہ ہوا کہ موصوف کو مسلم بچوں کے حالات اور تعلیم کیطرف سے عدم رغبت کا کتنا غم و افسوس ہے۔۔۔جب ایک مسلم زولوجی ساینسداں قرآن کی روشنی میں انسانی اعضاء کی نشو نما کی بات کرے تو اسکی اسلامی فکر اور قومی و ملی ہمدردی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
باتوں ہی باتوں میں وقت کا کچھ پتا نہیں چلا ڈھائی گھنٹہ ہوگئے ۔۔بے تکلفی کے ساتھ دوبارہ چائے کی فرمائش ہوئی۔اس وعدے کے ساتھ غریب خانے سے سبلوگ رخصت ہوئے کہ رات کو کھانے پر  رمو پور میں سب سے ملاقات ہوگی۔
رمو پور ، انجنیر امتیاز احمد نے پرتکلف اعشائیہ کا انتظام کر رکھا تھا ۔میری بد قسمتی کی اس ڈنر میں شریک نہ ہوسکا 28 کے پروگرام کی تیاریوں کے لئیے کچھ وقت درکار تھے۔مگر جیسا کہ مجھے بتایا گیا/ یا جلایا گیا کہ کون کون سے آئٹم کتنے مزیدار تھے۔
28 کی صبح پروگرام کے شروع ہونے سے 5 گھنٹہ قبل شاہگنج میں ندیم ظفر نے مہمان اعزازی کے اعزاز میں پر تکلف ناشتے کا انتظام کیا تھا جس میں علیگس کے علاوہ قصبہ کی کئی ایک شخصیات نے شرکت کی۔
اب مہمان خصوصی عارف محمد خان ڈھنڈوارہ پہنچ چکے تھے اور مہان اعزازی کو بھی وہاں پہنچنا تھا ۔۔انجینیر ایم یو خان نے لنچ کا انتظام کر رکھا تھا۔۔۔یہ لنچ بالکل بے تکلفی کیساتھ بلکل نئیے انداز میں تھا۔۔۔ایک بجے دوپہر کو سبکو " آئر مانس" ڈھابہ پر بلایا گیا ۔دونوں مہمان اور دوسرے علیگس بھی وقت مقررہ پر ڈھابہ پر پہنچ گئے۔۔۔کیا پرتکلف لنچ" پہلے سوپ پھر اسٹارٹر ، اسٹار ٹر میں بھی پہلے فش دو قسم کی اور بعد میں چکن اس کے بعد اصل کھانا۔ یہاں بھی میری بدقسمتی کام آئی اور مجھے درمیان میں ہی چھوڑ کر جانا پڑا ۔۔دو بج چکے تھے پروگرام کی جگہ پر لوگوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا ۔۔۔ان کا بھی استقبال ضروری تھا جنکی آمد ہی پروگرام کی کامیابی کی ضمانت تھی۔
دو بجے کے تک سبھی مہمانان کرام جلسہ گاہ پہنچے ، قبا انٹر نیشنل اسکول کی رسمی طور پر چائے کے بعد اسٹیج کا رخ ہوا۔
پروگرام کے خاتمے پر مصلح الدین صاحب کے دولت کدہ پر ناشتہ کا انتظام (بطور عصرانہ)۔پھر دونوں مہمانوں کی جونپور کے لئیے روانگی۔گلے لگاکر نم آنکھوں سے اپنے مہمانوں کو الوداع کیا گیا۔۔۔زیڈ کے فیضان، عبد اللہ ایڈوکیٹ ۔ امتیاز احمد سی آف کرنے جونپور گئے ۔جونپور شہر کے علیگ ڈاکٹر محمد فیض کے
کے دولت کدہ پر مہمانوں کا استقبال ہوا اور شہر کی علیگ برادری نے یادگار الوداعی تقریب کی ۔۔وقت مقررہ پر مہا منا ایکسپریس کے ذریعہ ان لوگوں کی واپسی ہوئی۔
جونپور ریلوے اسٹیشن پر عارف محمد خان کا استقبال