Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, March 28, 2019

اصلاح معاشرہ اور بڑھتا ہوا ارتداد/اسباب و عوامل۔


              . .    از . . . . .
محمد عظیم فیض آبادی خادم دارالعلوم النصرہ/دیوبند/صدائے وقت/ عاصم طاہر اعظمی۔
    . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .          
اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بڑھ کر ہے انسان وحیوان کے درمیان جسم وروح کے اعتبار سے کوئی امتیاز نہیں مگر زیور علم سے مزین ہوجانے کے بعدانسان کو سب پر برتری و فضیلت حاصل ہوجاتی ہے
لیکن افسوس کہ آج امت کے بیشتر افراد وخاندان علم دین سے محروم قرآنی تعلیمات اور نبی کی ھدایات سے یکسر غافل ہیں یا یہ کہہ لیجئے کہ مادیت کے زور وغلبے نے  اس طرح مغلوب کردیا ہے کہ انھیں دین اور حصول دین کی کوئی فکر ہی نہیں اخروی زندگی کو فراموش کرکے حصول دنیا میں اس قدر مگن ہیں کہ اپنی آنے والی نسلوں کی کوئی فکر نہیں دنیاوی علوم تو اس قدر لگن اور محنت سے حاصل کر لئے کہ چاند پر کمندیں ڈال دیں لیکن دینی علوم انتابھی حاصل کرنے کی زحمت نہ کی کہ باپ کی نماز جنازہ ہی ٹھیک سے ادا کرلیں
   آج امت کے پاس مال ودولت کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن دین پر خرچ کرنے کے لئے نہیں، دنیاوی علوم پر تو لاکھوں خرچ ہو رہے ہیں لیکن دین کو فرسودہ خیال کرکے اس کی ضرورت نہ سمجھی بلکہ آج تو صورت حال یہ ہے کہ دینی تعلیم حاصل کرنےوالوں پر بھی ڈورے ڈالے جارہے ہیں ان کو اپنے نیک مقصدصحیح ڈگر سے ہٹانے ، درست منھج سے بھٹکانے کےلئے چوطرفہ محنت ہورہی ہے اور ہر طرح سے کوشش کی جارہی ہے تقریروں ، تحریروں کے ذریعہ کوئی دینی مدارس کے لئے علوم عصریہ کو لازم گردانتاہے تو کوئی انگریزی کونصاب تعلیم کاحصہ بنانے کی رٹ لگارہاہے، کوئی دیگر ٹکنالوجی سے مدارس کو لیس دیکھنا چاہتاہے
لیکن کوئی اس بات پر آواز بلند کرنے کے لئےتیار نہیں ہے کہ کالج ویونیورسٹیوں میں بھی بقدر ضرورت ہی صحیح دینی تعلیم کو لازم کیا جائے اور دنیاوی علوم سے آراستہ افراد امت کے لئے بھی کم از کم فرائض وواجبات کی ادائیگی کی حد تک ہی سہی  دینی علوم سے واقفیت کا نظم کیاجائے تاکہ قوم کا ہربچہ ڈاکٹر ، وکیل انجینئر وغیرہ ہونے کے ساتھ ساتھ سچا پکّامسلمان بھی ہو حقیقتاً آج جس کی امت کوضرورت ہے
   اس میں کوئی شک نہیں کہ علم دین ، دینی واخروی فلاح وبہبود کے ساتھ ساتھ انسان کے جان ومال اس کی عزت وآبرو کی حفاظت کابھی ذریعہ ہے اس کے برخلاف جو فرد یا خاندان یاجو بستی وعلاقے دین سے ناآشنا مذہب سے بےگانے ہوں اس کی عزت وآبرو بھی خطرے میں ہے اوراس کے خاندان وکنبہ مذہبی شیرازہ بھی منتشر ہوجاتاہے ، پھر ارتداد وبددینی کےٹھپیڑے کسی وقت بھی کسی طرف طرف اڑالے جاتے ہیں ، فسق وفجور ان کی زندگی کا حصہ ہوجاتاہے عزت وناموس مرد وزن کا اختلاط ان کے نزدیک بے معنی چیز ہے ، وہ حجاب بلکہ خود دین کوہی دقیانوسیت اورقدامت پسندی سے تعبیر کرنے لگتے ہیں ماضی قریب میں ارتداد کے جتنے بھی واقعات پیش آئے ، غیروں کے ساتھ ہماری  بہن بیٹیوں کی عزتوں کی نیلامی کے جو حادثات رونماہوئے وہ سب کے سب ایسے ہی علاقے یا خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو دین سے دور قرانی تعلمیات سے بے بہرہ ، عقائد واخلاق کے اعتبار سے وہ اتنے کمزور ہیں کہ کوئی بھی تنظیم انھیں مادیت کے دلدل میں الجھاکر ان کے ایمان وعقائدکا سودا کرسکتی ہے
    اور اس طرح کے واقعات کے رونماہونے کے بعد عام طور پر لوگ حکومت وسیاست کو ذمہ دار ٹھراتے ہیں لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رہے کہ اپنے دین وایمان ، عقائد واخلاق کی حفاظت اور مذہب کی اشاعت وترویح کے حوالے سے سیاست کے ٹھیکے داروں پر کبھی بھی اعتماد نہیں کرسکتے وہ آپ کوترقی کا نعرہ دے کر تسلی تو دےسکتے ہیں ، بیٹی پڑھاؤ اور بیٹی بچاؤ کا لالی پاپ تو دکھا سکتے ہیں سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نام پر آپ کے ووٹ پر ڈاکا تو ڈال سکتے ہیں لیکن آپ مذہبی اعتبار سے مضبوط ہوں ، آپ اپنے دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں وہ اس بات کو کبھی بھی گوارا نہیں کرسکتے
   اسی کے ساتھ اس حقیقت سےبھی  انکار کی گنجائش نہیں کہ امت میں اس قدر پھیلی ہوئی بد اعتقادی وبد دینی اور اخلاقی گراوٹ کے جتنے ذمہ دار عوام ہیں اتنے ہی ذمہ دارخواص ، علماءکرام اور ذمہ دارانِ مدارس بھی ہیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری قوم نے سوسائٹی خوب بنائی ، طرح طرح کی تنظیموں کو تشکیل دیا ،  ہرگلی کوچوں میں آج مدارس وتنظیمیں آپ کومل جائیں گیں امت کی مسیحائی کرنے والی بھاری بھرکم شخصیات کی بھی کوئی کمی نہیں لیکن افسو س کہ عوام الناس پر عقائد واخلاق اورمعاشرے میں پھیلی ہوئی طرح طرح کی برائیوں کے تعلق بلکہ نت نئے بگاڑ کی روک تھام کے لئے جو محنت ہونی چاہئے تھی وہ نہ ہوسکی
  مثال کے طور پر شادیوں کی دوسری برائیوں کا خاتمہ یا اس میں کمی تو نہ ہوسکی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے کھڑے کھڑے کھانے کا چلن عام ہوگیا اور پھر اس طرح کی شادیوں میں وہ طبقہ بھی بلاروک ٹوک شرکت کرہاہے جس کے کندھوں پر امت کی اصلاح کا بیڑاہے
     الغرض اس حقیقت کے اظہار میں مجھے کوئی باک نہیں کہ عقائد و اصلاح کی درستگی اور معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں کے خاتمہ کا جو نظم علماء،حفاظ وائمہ،  مدارس اور تنظیموں کے ذمہ داران کو جس طرح کرنا چاہئے تھا نہیں کیا سال دو سال میں ایک آدھ جلسے کو اس تعلق سے کافی سمجھ لیا گیا باقی ہم نے ان کو ان کے حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا جسکا یہ نتیجہ ہے جو آج ہم اور آپ دیکھ رہے ہیں
    ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام سے رابطہ قائم رکھا جائے ان کے لئے نظم بنایاجائے وقتافوقتا ان کے لئے مجالس قائم کی جائے ، دنیاوی تعلیم یافتہ حضرات کےلئے الگ سے ان کت وقت کا لحاظ کرتے ترتیب بنائی جائے اسکول وکالج میں پڑھنے والوں کے لئے دینی تعلیم کا الگ سے کوئی نظم بنایاجائے تعلیم بالغاں کے عنوان سے ہر ہر بستی کے اندر لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے علاحدہ علاحدہ کورس الگ الگ ان کے لئے نظم کیا جائے ان کے درمیاں مقابلہ جاتی پروگرام کرکے ان کو دینی تعلیم کی طرف راغب کیا جائے ائمہ مساجد اور مقامی علماء وحفاظ سے کام لیاجائے اور ان کے لئے معقول مشاہرہ مقرر کیا جائے اہل ثروت کو بھی اسمین جوڑا جائے اور یاد رہے کہ ائمہء کرام اور علماء وحفاظ کا استحصال کرکے معمولی اجرت پر یہ فریضہ بحسن خوبی انجام نہیں دیا جاسکتا
     اور عوام الناس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علماء کرام حفاظ وائمہ کا احترام کریں ان ہر طرح رابطہ میں رہنے کی کوشش کریں اور ہر طرح اس حوالے سے ان کی مددکریں ان کی بنائی ہوئی ترتیب اور ان کی ہدایات پر دینی فریضہ سمجھ کر عمل کریں
     اس لئے تمام مسلمانوں مرد وخواتیں خصوصا نوجوان نسل سے یہ التماس ہے کہ جس طرح ہم دنیاوی تعلیم پر توجہ دیتے ہیں اسی کے ساتھ ساتھ ہم اپنی اور اپنے بچوں کی دینی تعلیم پر بھی توجہ دیں ، اسکے لئے لائح عمل تیارکر  یں اور اس طرح ہم میدان عمل میں قدم رکھیں کہ ہمارے معاشرے کا کوئی بھی فرد دیں سے بے گانہ نبی کی تعلیمات وہدایات سے غافل عقائداخلاق کے اعتبار سے مفلوج نہ رہ جائے خواہ وہ دنیاوی اعتبار سے تعلیم یافتہ ہو یا نہ ہو
محمد عظیم فیض آبادی دارالعلوم النصرہ دیوبند
Mob.9358163428.