Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, March 26, 2019

شاہ فیصل کے چند یادگار واقعات۔!!!!

. . . . . . .  صدائے وقت. . . . . . . . . . 

ایک سرکاری دورے پر شاہ فیصل (شہید) برطانیہ تشریف لے گئے۔ کھانے کی میز پر انتہائی نفیس برتنوں کے ساتھ چمچے اور کانٹے بھی رکھے ہوئے تھے۔ دعوت شروع گہوئی۔ سب لوگوں نے چمچے اور کانٹے استعمال کئے لیکن شاہ فیصل نے سنتِ نبوی کے مطابق ہاتھ ہی سے کھانا کھایا۔ کھانا ختم ہوا تو کچھ صحافیوں نے شاہ فیصل سے چمچہ استعمال نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو شاہ فیصل نے کہا: ” میں اس چیز کا استعمال کیوں کروں جو آج میرے منہ میں ہے اور کل کسی اور کے منہ میں جائیں گا۔ یہ ہاتھ کی اُنگلیاں تو میری اپنی ہیں۔ یہ تو ہمیشہ میرے منہ میں جائیں گی اس لیے میں اپنے ہاتھ سے کھانے کو ترجیح دیتا ہوں۔“

ایک دفعہ امریکی صحافیوں کا ایک وفد سعودی عرب دورے پر آیا۔ وہ وہاں ایک ہفتہ ٹھہرا۔ اس دوران وفد کے ارکان نے سعودی عرب میں امن و امان کی صورتِ حال کا بغور جائزہ لیا۔ انھوں نے اس چیز کو شدت سے محسوس کیا کہ سعودی عرب میں چوری کرنے والے کے ہاتھ سزا کے طور پر کاٹ دیے جاتے ہیں۔

شاہ فیصل نے کہا: انھیں لگا یہ سزا سراسر زیادتی اور انسانی حقوق کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ وفد کو یہ بھی معلوم ہو اکہ دہرے جرائم میں مجرموں کو سرِ عام کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے۔ امریکا میں تو ایسی سزاوں کا تصور بھی نہیں تھا۔ وفد کی ملاقات شاہ فیصل سے بھی طے تھی۔ ملاقات کے دوران ایک صحافی نے شاہ فیصل سے ان سزاوں کا ذکر کیا کہ اتنی سخت سزائیں آپ نے کیوں نافذ کر رکھی ہیں۔ یہ تو سراسر انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ صحافی کے اس چبھتے سوال سے شاہ فیصل کے چہرے پر کوئی شگن دیکھنے میں نہ آئی ، بلکہ انھوں نے اس صحافی کی بات کو تحمل سے سنا۔جب وہ صحافی اپنی بات مکمل کر چکا تو شاہ فیصل چند سیکنڈ خاموش رہے۔ صحافی یہ سمجھا کہ اس نے شاہ فیصل کو لاجواب کر دیا ہے۔ کچھ دیر رُک کر شاہ فیصل بولے، ” کیا آپ لوگ اپنی بیگمات کو بھی ساتھ لے کر آئے ہوئے ہیں؟
“ کچھ صحافیوں نے ہاں میں سر ہلائے۔ اس کے بعد شاہ فیصل نے کہا” ابھی آپ کا دورہ ختم ہونے میں چند دن باقی ہیں۔ آپ اپنی بیگمات کے ساتھ شہر کی سونے کی مارکیٹ میں چلے جائیں اور اپنی خواتین سے کہیں کہ وہ اپنی پسند سے سونے کے زیورات کی خریداری کریں۔ ان سب زیورات کی قیمت میں اپنی جیب سے ادا کروں گا۔ اس کے بعد وہ زیورات پہن کر آپ سعودی عرب کے بازاروں اور گلیوں میں آزادانہ گھومیں پھریں۔ ان زیورات کی طرف کوئی میلی آنکھ سے بھی دیکھ نہیں پائے گا۔ دو دن کے بعد آپ کی امریکہ واپسی ہوگی۔ کیا وہ زیورات پہنے ہوئے آپ اور آپ کی خواتین بلاخوف وخطر اپنے اپنے گھروں کو پہنچ جائیں گے؟
“جب شاہ فیصل نے صحافیوں سے یہ پوچھا تو سارے صحافی ایک دوسرے کا ہونقوں کی طرح منہ تکنے لگے۔ شاہ فیصل نے دوبارہ پوچھا تو چند صحافیوں نے کہا” بلا خوف وخطر ائیرپورٹ سے نکل کر گھر پہنچنا تو درکنار ہم ائیرپورٹ سے باہر قدم بھی نہیں رکھ سکتے۔“شاہ فیصل نے جواب دیا۔” سعودی عرب میں اتنی سخت سزاوں کا نفاذ ہی آپ کی پریشانی کا جواب ہے۔ آپ نے اپنے سوال کا جواب خود ہی دے دیا۔
:
عربوں کی اسرائیل کے ساتھ 1973 میں لڑی گئی مشہورِ زمانہ جنگ میں امریکہ اگر پسِ پردہ اسرئیل کی امداد نہ کرتا تو مؤرخین لکھتے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ فخر کی بات یہ ہے کہ اس جنگ میں پاکستان نے بھی مقدور بھر حصہ لے کر تاریخ میں اپنا نام امر کیا۔

اس جنگ کے دوران شاه فیصل مرحوم نے ایک دلیرانہ فیصلہ کرتے ہوئے تیل کی پیداوار کو بند کردیا تھا، ان کا یہ مشہور قول (ہمارے آباء و اجداد نے اپنی زندگیاں دودھ اور کھجور کھا کر گزاری آج اگر ہمیں بھی ایسا کرنا پڑ جاتا ہے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا) اپنی ایک علیٰحدہ ہی تاریخ رکھتا ہے۔

شاه فیصل مرحوم کا یہ فیصلہ امریکہ کیلئے ایک کاری ضرب کی حیثیت رکھتا تھا جس کو تبدیل کرنے کی ہر امریکی تدبیر ناکام ہو رہی تھی۔

امریکی وزیرِ خارجہ کسنجر نے شاه فیصل مرحوم سے 1973 میں اسی سلسلے میں جدہ میں ایک ملاقات کی تیل کی پیداوار کو دوبارہ شروع کرنے میں قائل کرنے کی ناکامی کے بعد کسنجر نے گفتگو کو ایک جذباتی موڑ دینے کی کوشش کرتے ہوئے شاه فیصل مرحوم سے کہا کہ "اے معزز بادشاہ، میرا جہاز ایندھن نہ ہونے کے سبب آپ کے ہوائی اڈے پر ناکارہ کھڑا ہے، کیا آپ اس میں تیل بھرنے کاحکم نہیں دیں گے؟"
دیکھ لیجئے کہ میں آپ کو اسکی ہر قسم کی قیمت ادا کرنے کیلئے تیار بیٹھا ہوں۔ کسنجر خود لکھتا ہے ۔ کہ میری اس بات سے شاہ فیصل مرحوم کے چہرے پر کسی قسم کی کوئی مسکراہٹ تک نہ آئی، سوائے اس کے کہ انہوں نے اپنا جذبات سے عاری چہرہ اٹھا کر میری طرف دیکھا اور کہا، "میں ایک عمر رسیدہ اور ضعیف آدمی ہوں، میری ایک ہی خواہش ہے کہ مرنے سے پہلے مسجد اقصی میں نماز کی دو رکعتیں پڑھ لوں، کیا میری اس خواہش کو پورا کرنے میں تم میری کوئی مدد کر سکتے ہو؟"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتخاب و پیشکش : نیرہ نور