Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, March 31, 2019

اٹاوہ کے ایک نادار بچے کی دل کو چھو لینے والی داستان

تھانیدار آلوک ورما کا بھی کردار قابل تحسین ہے اور قابل مبارکباد ہے۔
           فضل الرحمان قاسمی
     الہ آبادی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
لوگوں نے سچ کہاہے اگر انسان خود پر بھروسہ کرے اور محنت ومشقت کوجاری رکھے، اور اس کام کوکرنے کے لئے عزم مصمم کرلے توکوئی رکاوٹ مانع نہیں ہوتی! کچھ ایسا ہی واقعہ اٹاوہ میں ایک بچہ کے ساتھ پیش آیا، اس بچہ نے اس بات کوثابت کردکھایا کہ اگر ارادہ پکا ہوتوکامیابی بھی پکی ہے،ہمارے ملک میں ایک طرف یہ دعوی کیاجاتا ہے، ملک سے غریبی دور ہوگئی ہے، غریبوں کو تعلیم مفت دی جارہی ہے، لیکن جب ہم زمینی سطح پر جائزہ لیتے ہیں توپتہ چلتا ہے، ملک کی ایک بڑی آبادی غربت میں زندگی بسر کررہی ہے، بہت ایسے غریب بچے ہیں جن کی تعلیم کی طرف دلچسپی بھی ہے، ان کے اندر مستقبل میں کچھ بڑاکارنامہ انجام دینے کی صلاحیت ہے، وہ اس لائق ہیں کہ ملک وقوم کانام روشن کرسکیں،لیکن بیچارے وہ  مالی حالت کی تنگی کی وجہ سے تعلیم کی طرف رغبت کے باوجود تعلیم منقطع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، اور غریب ماں باپ بھی مجبور ہوتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں تعلیم کابوجھ اٹھانا ایک غریب باپ کے ہمت سےباہر ہے، ورنہ ہرماں باپ کی یہ تمنا اور آرزو ہوتی ہے کہ اس کابچہ عمدہ تعلیم حاصل کرے اور خوب ترقی کرے، والدین اور قوم کانام روشن کرے،جب والدین مجبوری کےسبب تعلیم کابوجھ اٹھانے سے قاصر ہوتے ہیں، لیکن اگر ماں بیوہ ہو تواولاد کی پرورش  انتہائی مشکل کام ہے، پرورش کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم کاخرچ برداشت کرنا اس زمانہ میں انتہائی دشوار ہے، کچھ ایسا واقعہ اترپردیش کے اٹاوہ ضلع کے گورو کے ساتھ پیش آیا، گورو کے ایک ہونہار ذہین بچہ ہے،گھر کے حالات ٹھیک ٹھاک تھے، وہ انگلش میڈیم کاطالب علم تھا، لیکن اچانک  دو سال ہوئے اس کے والد کا انتقال ہوگیا،  باپ کی شفقت سے محروم ہوگیا، بیچاری ماں پر غم کے ماتم چھاگئے، اس کے والدین کی یہ تمناتھی کہ ہمارا گورو تعلیم کے میدان میں خوب ترقی کرے، لیکن اچانک والد کے انتقال سے اسے صدمہ ضرور پہنچا، گورو کی ماں مزدوری کرتی ہے، گورو اس سال ساتویں درجہ پاس کیا، گورو ایک ہونہار طالب علم ہے، گورواعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے مستقبل کوسنوارنے کی فکرمیں ہے، لیکن ماں جواکیلی ہے، گورو ہی سب سے بڑا لڑکا ہے، بمشکل ہی گھر کاخرچہ چلاپاتی ہے، اس کی ماں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب گورو بھی میرےساتھ مزدوری کرے گا، کچھ دن گورو نے بھی مزدوری کیا، اینٹ وغیرہ ماں کے ساتھ مل کرڈھوئے، لیکن گورو کامن اس میں نہیں لگ رہاتھا تواس کی تمنا تویہ ہی تھی کہ وہ تعلیم حاصل کرے، ماں سے بہت ضد کیا لیکن ماں بیچاری کرتی بھی کیا، جب بمشکل ماں مزدوری کرکے بچہ کاپیٹ پال رہی تھی، بھلا اپنے لال کے اس خواہش کوکیسے پورا کرتی،اللہ تبارک وتعالی نے ماں کے دل میں اولاد سے اس قدر محبت ڈال رکھا ہے، کہ اولاد کی ہر خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن ماں بھی مجبور تھی، کیونکہ اس کالال انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کرتا تھا، تعلیم کا خرچ برداشت کرنا ایک مزدوری کرنے والی ماں کے لئے انتہائی دشوار ہے، چنانچہ گورو کا تعلیم حاصل کرنے ضد کرنا کام نہ آیا، ماں نے گورو کی تعلیم منقطع کرکے اپنے ساتھ مزدوری کرانے کافیصلہ کیا،
گورو نے جب دیکھا اس کی ماں  ضد کرنے پر بھی راضی نہیں، اسے افسوس توضرور ہوا لیکن گورو کے دل میں تعلیم کی محبت تھی، چنانچہ گورو نے ایک انوکھی  تدبیر سوچی، دل میں سوچا ہوسکتاہے اس تدبیر سے میں اپنےمقصد میں کامیاب ہوجاوں،گورو اپنی فریاد لے کر مقامی تھانہ پہنچا اور تھانیدار سے کہا، "میں پڑھنا چاہتاہوں لیکن میری ماں پڑھا نہیں رہی ہے، وہ غریب ہے، مزدوری کرتی ہے، مجھ سے مزدوری کرانے کوکہہ رہی ہے، حالانکہ میں پڑھنا چاہتاہوں "
گورو کی اس بات کوسن کر تھانیدار آلوک ورما کادل پسیج گیا اور بہت ہی سنجیدگی سے گورو کی بات کوسنا، اور اس کی پریشانی کوحل کرنے کی کوشش کیا، بچہ انگلش  میڈیم اسکول سے ساتویں درجہ اس سال پاس کیاتھا، گورو کی یہی خواہش تھی کہ وہ انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کرے، تھانیدار آلوک ورما کے سامنے اس نےفریاد کورکھا،چنانچہ تھانیدار آلوک ورما نے مقامی ایک پرائیویٹ اسکول لارڈ مدر سینیر سیکنڈری اسکول کے پرنسپل سے رابطہ کیا،اسکول کے پرنسپل نے گورو کا داخلہ لے لیا، اور تعلیم کی ذمہ داری خود لی، اور یہ وعدہ کیا جب تک گورو تعلیم حاصل کرنا چاہے، تواس کی تعلیم کی ذمہ داری ہم لیں گے،بالآخر گورو اپنے مقصد میں کامیاب ہوا، تھانیدار آلوک ورما اور لارڈ مدر سینیئر سیکنڈری اسکول کے پرنسپل یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں، ان کی کاوش سے جوبچہ علم کی دولت سے محروم ہونے کے در پر تھا، پورے جذبہ اور حوصلہ اور نئی لگن سے تعلیم حاصل کرے گا،
اس واقعہ سے ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ ہم اپنے پاس پڑوس میں ایسے یتیم بچوں کی مدد کریں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے، میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا ایسے ہی ہونگے پھر انگلیوں سے اشارہ کیا جتنا ان انگلیوں کے درمیان فاصلہ ہے، یتیم کی مدد کرنا اسلام میں اعلی درجہ کی عبادت ہے، ایسے خیر کے چیزوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، اس واقعہ سے ان طلباء کے لئے نصیحت ہے جن کے والدین مستطیع ہیں ان کے والدین تعلیم حاصل کرا رہے ہیں، ان کواس کی قدر کرنا چائیے اور محنت ولگن سے تعلیم حاصل کرکے والدین کانام روشن کرنا چاہیئے، انہیں اللہ کاشکر ادا کرنا چائیے کہ اللہ نے علم حاصل کرنے کاموقع فراہم کیا ورنہ بہت سے غریب بچہ تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن گھر کے مالی حالات کی وجہ تعلیم منقطع کرنا پڑا، وہی انسان کامیاب ہوتاہے توایک منزل اور مقصد کے تحت تعلیم حاصل کرتا ہے، ورنہ تعلیم حاصل کرنے والوں کے لئے ایک لمبی بھیڑ ہے، ایک جم غفیر ہے، لیکن باہنر اور باصلاحیت لوگ بہت تھوڑے ہیں، اس لئے آج ضرورت  اس بات کی ہے کہ ایک منزل پیش نظر رکھ کر تعلیم حاصل کیاجائے،