Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, March 29, 2019

ادارہ مبحث فقہیہ، جمیعتہ علامء ہند کے سہ روزہ اجتماع میں مختلف تجاویز / فتاویٰ زیر غور۔۔کئی تجاویز پاس ۔۔۔دو سو مفتیان کرام کی موجودگی میں زندگی سے جڑے اہم مسائل پر تجاویز۔

سوکنیا سمردھی یوجنا‘ صراحتاً سود ہونے کی وجہ سے ناجائز قرار
__________________
’ ادارہ مباحث فقہیہ جمعیۃ علماہند‘ کے اجتماع میں ایزی پیسہ اور پی ٹی ایم کیش بیک، گوگل ایڈسنس سے جائز اشتہار پر معاوضہ،فرنچائز کا لین دین ،موبائل ایپس سے ٹیکسی بک کرانے کو درست قرار دیا گیا ،
_______________
فروغ تعلیم کے نام پر بعض بینکوں کی طرف سے جاری کردہ اسکیم سودی معاملہ پر مشتمل ہونے کی صورت میں ناجائز
_________________
نئی دہلی ۔۲۹،مارچ ۲۰۱۹ء  (صداۓوقت)
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
ادارہ مباحث فقہیہ جمعیۃ علماء ہند کا سہ ر وزہ فقہی اجتماع مدنی ہال صدر دفتر جمعیۃ علماء ہند نئی دہلی میں مختلف نشستوں میں منعقد ہوا، جس کی الگ الگ نشستوں کی صدارت امیر الہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری صدرجمعیۃ علماءہند، مولانا حبیب الرحمن خیرآبادی مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند، مولانا نعمت اللہ اعظمی استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند، مفتی سعید احمد پالن پوری شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند نے کی ۔
اجتماع میں دارالعلوم دیوبند ، ندوۃ العلما لکھنواور جامعہ قاسمیہ شاہی مرآداباد سمیت ملک بھر سے تقریبا دو سومفتیان کرام نے شرکت کی ، جنھوں نے چار الگ الگ موضوعات اور ان کے ذیلی عنوانات پر تفصیل سے مناقشہ کیا اور فقہ اور اصول فقہ کی روشنی میں اپنے مقالات اور آرا ء پیش کیں، آخر میں کبار علماء فقہاء کی ایک کمیٹی نے غور و خوض کے بعد بالاتفاق تجاویز منظور دی ۔ اس کمیٹی میں مولانا قاری محمد عثمان منصورپوری ، مفتی سعید احمد پالن پوری، مولانا نعمت اللہ اعظمی، مولانا حبیب الرحمن خیر آبادی، مفتی زین الاسلام ، مفتی محمود حسن بلندی شہری ، مولانا عبداللہ معروفی ( دارالعلوم دیوبند)، مولانا برہان الدین سنبھلی ،مولانا عتیق احمد بستوی (دارالعلوم ندوۃ العلماء )، مولانا شبیر احمد قاسمی،مولانا مفتی محمد سلمان منصورپوری ( جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد)، مفتی احمد دیولہ ، مفتی محمود بارڈولی (گجرات) اور مفتی نذیر احمد کشمیری وغیرہ شامل تھے ۔
اجتماع کی ایک اہم تجویز میں سرکار کے ذریعہ بچیوں کے لیے لانچ کئے گئے’ سوکنیا سمردھی یوجنا ‘ کو صراحتا سود ہونے کی وجہ سے ناجائز قرار دیا گیا ہے جب کہ اسی تجویز کی شق اول میں نومولود بچی کی ایک دوسری سرکاری یوجنا کو درست قرار دیا گیاہے ۔تجویز میں کہا گیا ہے کہ ’’ (۱)حکومت بعض اسکیموں کے تحت نومولود بچی کے نام پر بینک میں ایک متعینہ رقم جمع کرتی ہے جس میں سر دست بچی یا اس کے سرپرست کوتصرف کا حق حاصل نہیں ہوتا پھر ایک مدت کے بعد حکومت ہی کی طرف سے اس بچی کے کھاتے میں مزید رقم کا اضافہ کر دیا جاتا ہے لڑکی یا اس کے والدین کی طرف سے بینک میں کوئی رقم جمع نہیں کی جاتی تو یہ پوری رقم حکومت کا تعاون ہے اس سے حسب شرائط انتفاع شرعاً جائز ہے ۔(۲)’’سوکنیاسمردھی یوجنا‘‘ یا اس جیسی دیگر اسکیمیں جن میں دس سال سے کم عمر کی لڑکی کے والدین اس کے نام سے بینک میں کھاتہ کھول کر ایک متعینہ رقم خاص عمر تک جمع کراتے ہیں اور بینک اس جمع شدہ رقم پر سالانہ نو فیصدی یا کم وبیش اضافہ کرتا ہے تو مذکورہ صورت میں والدین کی طرف سے لڑکی کو مالک بنا کر جمع کردہ رقم پر بینک کی طرف سے جو اضافہ ہوگا وہ صراحتاً سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا۔اسی تجویز میں مویشی پالن کے لیے حکومت کی طرف سے دیے جانے والے غیر سودی قرض اور ڈیبٹ کا رڈ استعمال کر نے پر کمپنی کی طرف سے ملنے والے کیش بیک کو شرعا جائز قرار دیا گیا ہے۔
ایک دوسری تجویز میں کہا گیا کہ حکومت کی طرف سے اقلیت اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے بے روز گار نوجوانوں کو بعض اسکیموں کے تحت ایک رقم دی جاتی ہے جس کا بڑا حصہ معاف کر دیا جاتا ہے اور بقیہ رقم مع سود واپس کی جاتی ہے تو اس صورت میں اگر سود کے نام پر دی جا نے والی رقم معاف کر دہ رقم کے برابر یا اس سے کم ہو تو اس پر شرعی سود کی تعریف صادق نہیں آتی ، کیوں کہ حکومت سے اس نے جو کل رقم لی تھی ، واپسی اس سے زیادہ کی نہیں ہورہی ہے ، لہذا اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کی گنجائش ہوگی ۔لیکن اگر واپس شدہ رقم ،کل رقم سے زیاد ہ ہو جائے تو اس کی گنجائش نہ ہوگی ۔
اسی طرح ایک تجویز میں مذکور ہے کہ اعلی تعلیم کے لیے اگر حکومت اس طرح قرض فراہم کرے کہ دوران تعلیم سود کی رقم حکومت خود ادا کرے گی البتہ تعلیم کی تکمیل کے بعد متعینہ مدت سے تاخیر کی صورت میں طالب علم کو حسب ضابطہ سود ادا کرنا پڑے گا تو ا س صورت میں اگر طالب علم کو پورا اعتماد ہو کہ وہ متعینہ مدت سے پہلے رقم واپس کردے گا اور اس پر سود لازم نہ آئیگا تو اس کے لیے اس اسکیم سے فائدہ اٹھانا جائز ہوگا ۔
(۵)فروغ تعلیم کے نام پر بعض بینکوں کی طرف سے یہ اسکیم جاری کی گئی ہے کہ بچے کا باپ اس کی طرف سے متعینہ مدت تک بینک میں سالانہ مثلاً ایک لاکھ روپے جمع کرے تو اس پر مقررہ مدت کے بعد بینک جو زائد رقم دیتا ہے وہ سودی معاملہ پر مشتمل ہے، اس لیے اس اسکیم سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ۔
انٹرنیٹ کے ذریعہ لین دین وغیرہ کی چند جدید شکلوں سے متعلق ایک تجویز میں کمپنیوں کا’’ گوگل ایڈسینس ‘‘ کے توسط سے مباح اشیا ء وخدمات کی تشہیر کا معاملہ کرنا اجارہ کی بنا پر جائز بتایا گیا ہے بشرطے کہ کوئی دوسرا شرعی مانع نہ پایا جائے۔البتہ فلم اور حرام پروگراموں پر اشتہارات دینا تعاون علی المعصیت کی بنا پر ناجا ئز قرار دیا گیا۔اسی تجویز کی ایک شق میں کہا گیا ہے کہ مروجہ ایپس (ایزی پیسہ ، پے ٹی ایم وغیرہ)کے ذریعہ لین دین اور رقوم کی منتقلی پر کیش بیک یا پوئنٹ وغیرہ کے نام سے جو رقم ملتی ہے وہ ایک طرح کا انعام ہے جس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔موبائل ایپلی کیشن کے ذریعہ ٹیکسی وغیرہ کرایہ پر لینے سے متعلق ایک تجویز میں موبائل ایپلی کیشن کے ذریعہ ٹیکسی وغیرہ کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ معاملہ فقہی نقطہ نظر سے اجارہ کی قبیل سے ہے، نیز گاڑی مالک اور ڈرائیور کو ملنے والا بونس کمپنی کی طرف سے ایک طرح کا انعام ہے جسے لینا شرعاً جائز ہے اور گاڑی بک کرنے کے بعد منسوخ کرنے کی صورت میں کمپنی کا حسب ضابطہ رقم وصول کرنا در اصل بکنگ فیس ہے جس کی شرعاً اجازت ہے۔ فرنچائز کے شرعی احکام سے متعلق ایک تجویز میں ’ فرنچائز ‘‘ دور حاضر میں عرف و تعامل کی وجہ سے ایک مالی حق بن چکا ہے لہذا اس کے عوض کا لین دین جائز ہے ،فرنچائزی لینے والے کی ذمہ داری ہے کہ فرنچائزر کے مقرر کردہ معیار اور جائز شرطوں کی خلاف ورزی نہ کرے ۔
اجتماع میں سبھی مقررین نے مفتیان کرام کو خاص طور سے دور جدید کے حالات و تقاضوں کی آگاہی اور اپنے فتاوی میں توسع پیدا کرنے کا مشورہ دیا ، مولانا نعمت اللہ اعظمی نے کہا کہ معاملات کے باب میں توسع اور آسانی پیداکرنے کے لیے ائمہ احناف اور ائمہ اربعہ کے کسی قول سے اگر مسئلہ حل ہوتا ہے تو استفادہ کیا جانا چاہیے، مولانا عتیق احمد بستوی نے بھی حسب ضرورت کسی اور مسلک سے استفادہ کی تائید کی ۔مفتی سعید احمن پالن پوری نے تقلید شخصی پر زور دیا، تاہم جدید مسائل میں وسعت اپنانے کی تلقین فرمائی ۔مولانا حبیب الرحمن خیر آبادی نے مسئلہ بتانے سے قبل متعلقہ معاملہ کے جانکار سے مدد لینے پر زور دیا او رکہا کہ مفتی کے لیے تیقظ اور بیداری ضروری ہے ۔ان کے علاوہ جن لوگوں نے خصوصی طور سے خطاب کیا ان میں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی ، مولانا محمد زید مظاہری، مولانا رحمت اللہ کشمیری، مولانا متین الحق اسامہ کانپوروغیرہ کے نام خاص طور سے قابل ذکرہیں ، اخیر میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا قاری محمد عثمان منصورپوری نے مبسوط خطا ب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کی دینی وملی خدمات پر روشنی ڈالی اور حاضرین علماء و مفتیان کرام کی مساعی جمیلہ کی تحسین فرمائی۔نیز مولانا محمود مدنی نے تمام مہمانا ن کرام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ملکی وعالمی حالات پر اظہار خیال فرمایا ۔ مہمانوں نے اپنے اپنے تاثرات میں اچھے انتظام ومہمان نوازی کے لیے مولانا محمودمدنی صاحب اور ان کی ٹیم کی ستائش کی ۔پروگرام کی تمام نشستوں کی نظامت مولانا عبدالرزاق امروہوی اور مفتی محمد عفان منصورپوری نے کی جب کہ مولانا معزالدین احمد ناظم ادارہ مباحث فقہیہ نے سارے پروگرام پر نظر رکھی ۔اجتماع میں متعدد علمی و تاریخی کتابوں کا اجرا بھی کیا گیا اور شرکاء کو تحفہ میں پیش کیا گیا ۔