Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, March 23, 2019

ترکوں کا عکس ، تاریخ کے آئینے میں۔


از/تابش سحر۔صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
طغرل بیگ نے سلجوقی سلطنت کی بنیاد رکّھی تھی، الپ ارسلان نے اس سلطنت کو پختگی اور وسعت عطا کی، طغرل بیگ اور الپ ارسلان کے بعد ملک شاہ اوّل تخت نشیں ہوا، اس کے دور کو سلجوقی حکومت کا عہدِ ذرّیں کہا جاتا ہے، یہ سلجوقیوں کے عروج کا زمانہ تھا، خلافتِ عبّاسیہ اپنا دم خَم کھوچکی تھی، عبّاسی خلیفہ محض مذہبی سرپرست بن کر رہ گیا تھا، اپنے نام لیواؤں کی تعریف و توصیف کرنا اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنا ہی ان کا مقصد بن چکا تھا چنانچہ عبّاسی خلیفہ نے سلجوقی حکمراں ملک شاہ اوّل کو اس کے کارناموں اور خوبیوں کے سبب "سلطانِ مشرق و مغرب" کا لقب عطا کیا، کیونکہ ملک کی سرحدیں مشرق میں چین اور مغرب میں بازنطینی سلطنت سے جاملتی تھی اس وسیع و عریض خطّے پر سلجوقیوں کا نیلا پرچم لہراتا جہاں آج کئی ممالک آباد ہیں-
بازنطینی سلطنت:- چوتھی صدی عیسوی میں روم دو حصّوں میں تقسیم ہوچکا تھا، مشرقی حصّہ اپنے دارالحکومت بازنطین کے سبب بازنطینی سلطنت کہلایا، 330ء میں ان کے بادشاہ قسطنطین نے اپنے نام پر بازنطین کو قسطنطنیہ سے بدل دیا اسی قسطنطنیہ کو آج استنبول کہا جاتا ہے، قسطنطنیہ تہذیب و تمدّن کا مرکز، رومیوں کا دارالحکومت، یورپ کا امیر ترین شہر اور دفاعی اعتبار سے ناقابلِ تسخیر علاقہ تھا، جسے اس زمانے میں شہروں کی ملکہ کہا گیا الغرض بازنطینی سلطنت عرصے سے مسلمانوں کی حریف تھی، کئی جنگوں میں مسلمانوں نے رومیوں کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا لیکن قسطنطنیہ پر فتح کا پرچم نہ لہرا سکے کیونکہ یہ سعادت اللّه نے کسی اور کے لئے لکھ دی تھی-
1092ء میں سلجوقی حکمراں ملک شاہ اوّل کا انتقال ہوگیا، یہ عظیم سلجوقی سلطنت کے زوال کا نقطۂِ آغاز تھا کیونکہ سلطان کے بھائیوں اور چار بیٹوں کے مابین اختلافات رونما ہوگئے اور وسیع و عریض سلطنت کئی تکڑوں میں بٹ گئی، قلج ارسلان اوّل ملک شاہ کا جانشین قرار پایا جس نے اناطولیہ میں سلاجقہ روم کی بنیاد رکّھی، ایران، عراق، شام اور خراسان مختلف افراد کے حصّے میں آئے اس تقسیم سے سلجوقیوں کی متّحدہ قوّت پارہ پارہ ہوگئی جس کا صلیبیوں نے خوب فائدہ اٹھایا-
سلاجقہ روم اور اناطولیہ:- یہ ریاست رومیوں کے مفتوحہ علاقوں پر قائم کی گئی تھی، اناطولیہ ایک جزیرہ نما ہے جو بحیرہ روم، اسود اور ایجئین کے درمیان واقع ہے صرف ایک سمت سے اس کا تعلّق خشکی سے ہے، اناطولیا کو ایشیائی ترکی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ سارا علاقہ آج موجودہ ترکی میں آتا ہے، قلج ارسلان نہ صرف سلاجقہ روم کا پہلا بادشاہ ہے بلکہ یہی وہ حکمراں بھی ہے جس نے صلیبیوں سے کئی جنگیں لڑیں اور انہیں باوجود ان کی کثیر تعداد کے شکست سے دوچار کیا جس کے سبب قلج ارسلان کو ترک احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، صلیبیوں پر بیت المقدّس پر قبضے کا جنون طاری تھا، وہ سارے یورپ میں جوش جذبہ اور انتقام کی آگ بھڑکا چکے تھے، صلیبی'  مذہبی شدّت پسندی کے سبب سفّاکی اور درندگی پر اتر آئے تھے، لاکھوں کی تعداد میں وہ جانبِ اقصیٰ روانہ ہوے، جب یہ اناطولیہ سے گزرے تو قلج ارسلان اور صلیبیوں میں جنگ چھڑ گئی گو کہ مسلم فوج نے خوب مزاحمت کی لیکن دشمن کی تعداد اور جنگی جنون کئی گُنا زیادہ تھا جس کے سبب قلج ارسلان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا وہ قونیہ آگیا، صلیبی فوج القدس پہنچی اور مسلمانوں کے قتلِ عام میں مصروف ہوگئی، بابِ داؤد پر ستّر ہزار مسلمانوں کا خون بہایا گیا، صلیبی جنگوں میں یہ واحد جنگ ہے جو صلیبیوں نے بزورِ بازو فتح کی اور تقریباً ایک صدی تک بیت المقدّس پر قابض رہے، سلطان صلاح الدین ایّوبی نے اپنی ساری قوّت و طاقت صرف کرکے اقصیٰ کے بہتے آنسو پونچھے آج اقصٰی پھر آنسو بہارہی ہے مگر کوئی ایّوبی نظر نہیں آتا-
قلج ارسلان کے بعد کئی حکمراں تختِ شاہی پر متمکّن ہوے مگر اب سلجوقیہ سلطنت میں وہ رنگ نظر نہ آتا جو اس کا امتیازی شان تھا، کئی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے وجود نے گویا سلجوقیہ سلطنت کے جسم کے اعضا بکھیر کر رکھ دئے تھے، ایک طرف صلیبی جنگ برپا ہوگئی تو ادھر منگولیا کے صحرا سے ایک طوفان اٹّھا، بےرحم تاتاری طوفان، جس نے راستے میں آنے والی تمام چیزوں کو خس و خاشاک کے مانند بہادیا، عروج کی جانب سفر کررہی خوارزم شاہی مملکت کو ماضی کی ایک داستان بنا کر رکھ دیا، اسی طوفان کی زد سے بچنے کے لئے کئی ترک قبائل اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ممالک کی سمت نکل پڑے-
قائی قبیلہ:- تیرھویں صدی عیسوی!!! کردستان میں یہ ترکمانی قبیلہ آباد تھا، قبیلے کا سردار سلیمان' جہاندیدہ، دوراندیش، رعایاپرور، اور سلیم الطّبع انسان تھا، جب اس نے تاتاریوں کی خون کی پیاس کا اندازہ لگا لیا تو اپنے قبیلے کو ہجرت کا حکم دے دیا، یہ اناطولیہ میں اخلاط نامی شہر میں آبسے اور جلد ہی اپنے اخلاق، عادات و اطوار اور قبیلے کے رسم و رواج کی وجہ سے مشہور ہوگئے، یہ علاقہ سلجوقی سلطنت کا حصّہ تھا اکثر شمال کی جانب سے مسیحی دہشت گرد حملہ آور ہوتے اور لوٹ مار کرتے، قائی قبیلے کے جانبازوں نے ان مسیحی قزّاقوں کو خوب سبق سکھایا اور اخلاط میں امن و امان قائم کردیا، جس طرح صنعت و حرفت میں چین اور حکمت و فلسفے میں یونان نے نام پیدا کیا اسی طرح ان ترک قبائل نے بہادری و شجاعت میں اپنا لوہا منوایا، جفاکشی اور حمیّت و غیرت ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی تھی، یہ قبیلہ اخلاط کے بعد حلب کی جانب روانہ ہوا راستے میں ندی پار کرتے وقت قبیلے کا سردار سلیمان دریائے فرات میں غرقاب ہوگیا، قیادت کی ذمّیداری اس کے بہادر و شجاع بیٹے ارطغرل غازی کے کندھوں پر آگئی-
ابھی یہ قبیلہ حلب کی جانب رواں دواں تھا کہ دور شور و غل سنائی دیا، زخمیوں کی چیخوں اور تلوار کی جھنکار نے قائی قبیلے کے جانبازوں کو تڑپنے پھڑکنے پر مجبور کردیا اور جب یہ معلوم ہوا کہ ایک فریق مسلمان (سلجوقی لشکر) اور دوسرا ان کا دشمن صلیبی ہے تو وہ تمام شاہین کی طرح جھپٹے اور شیروں کی طرح حملہ آور ہوے، کچھ دیر پہلے تک تو یوں لگتا تھا کہ جیسے سلجوقی شکست کھا جائینگے تبھی ارطغرل غازی کے زوردار حملے سے جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا، سلجوقیوں نے جب شجاعت و جوانمردی کا یہ منظر دیکھا تو عش عش کر اٹھے، سلجوقی حکمراں علاؤ الدین سلجوقی کیقباد بن کیخسرو نے بدلے میں رومی سرحد کے پاس اناطولیہ کے مغربی سرحد پر ارطغرل کو ایک جاگیر عطا کی، جہاں خانہ بدوش قائی قبیلہ اقامت پذیر ہوا-
جاری***
نوٹ:- ترکی نے قائی قبیلے کے اسی کردار "ارطغرل" پر اپنی تاریخ کا سب سے بڑا ڈرامہ بنایا ہے، جسے سرکاری چینل TRT1 سے نشر کیا جاتا ہے، ترکش زبان میں دریلس کے معنیٰ "آنے والا" یا "قیامت" کے ہے-
سوال:- خلافتِ عثمانیہ کے بانی سے ارطغرل غازی کا کیا رشتہ ہے؟