Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, March 30, 2019

مسلم رائے دہندگان ہوشیار۔۔۔۔۔۔۔۔ووٹ توڑو دستہ سر گرم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک اہم تحریر. . ضرور پڑھیں۔


تحریر/شکیل رشید/ صدائے وقت۔
’توڑو دستہ‘ سرگرم ہوگیا ہے !
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
یہ میونسپل کارپوریشن کا نہیں مسلم سماج کا ’توڑودستہ‘ ہے ۔ اسے ’سیاسی توڑودستہ‘ بھی کہا جاسکتا ہے ۔اس کے نشانے پر میونسپل کے ’توڑودستے‘ کی طرح غیر قانونی  عمارتیں یا ڈھانچے اور دوکانیں نہیں بلکہ مسلمانوں کے ’جائز‘ ووٹ ہیں ۔ اس کا مقصد مسلمانوں کے وووٹوں کو منتشر اور فرقہ پرست امیدواروں کو گدّی پر براجمان کرانا ہے ۔ اس ’سیاسی توڑودستے‘ میں سیاسی دلال تو شامل ہیں ہی کچھ ایسے ’علمائے دین‘ بھی شامل ہیں جو ہر الیکشن میں اپنی ’ سیاسی وفاداریاں‘ بدلنے کے لئے ،مفت میں نہیں جناب! بڑی بڑی رقمیں لے کر ، تیار رہتے ہیں ۔ اس میں بزعم خود ’ دانشوران‘ بھی شامل ہیں اور ’ سماج سیوک‘ یا ’ خادم ِ قوم‘ کہلانے والے وہ افراد بھی جن کا مقصد نہ سماج کی سیوا ہے اور نہ ہی قوم کی خدمت بلکہ اپنی ’ سیوا‘ اور اپنی خود کی ’ خدمت ‘ ہے ۔۔۔
لوک سبھا الیکشن 2019 کے اعلان سے قبل ہی ’ سیاسی توڑودستے‘ کی طرف سے یہ آواز اٹھنے لگی تھی کہ کانگریس اور این سی پی کو چاہیئے کہ وہ ممبئی کی کوئی ایک سیٹ کسی مسلم امیدوار کو دے ۔ یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں تھا جب یہ مطالبہ کانگریس اور این سی پی سے کیا گیا ہو ، ماضی میں بھی ایسے مطالبے کئے گئے ہیں اور ہر بار مطالبہ رد ی کی ٹوکری میں ڈالا گیا ہے ۔۔۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس بار جب یہ مطالبہ کیا گیا کہ کسی ایک مسلمان امیدوار کو کھڑا کیا جائے تو مطالبہ کرنے والوں میں حافظ سید اطہر علی بھی شامل تھے ۔۔۔ وہ ممبئی سماجوادی پارٹی کے عہدیدار ہیں! اب اگر کسی ایک سیاسی پارٹی کا عہدیدار کسی دوسری سیاسی پارٹی کے عہدیدار سے یہ مطالبہ کرتا ہیکہ وہ مسلمانوں کو امیدواری دے تو معاملہ دلچسپ ہوجاتا ہے۔ نہ صرف دلچسپ بلکہ یہ سوال بھی کھڑا ہوتا ہے کہ بھلا یہ شخص اپنی ہی پارٹی سے کیوں کسی مسلم امیدوار کو کانگریس یا این سی پی کے کسی امیدوار کے خلاف میدان میں نہیں اتاردیتا ؟کہیں اس لئے تو نہیں کہ اسے اپنی پارٹی کی کامیابی کی امید نہیں ہے ؟ یا کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ  اس طرح کا مطالبہ کرکے وہ مخالف سیاسی پارٹی پر ’دباؤ‘ ڈال کر اپنی ’ سیوا‘ یا ’ خدمت‘ کروانا چاہتا ہو؟ حافظ سید اطہر علی کے ساتھ ’مسلم امیدواری‘ کا مطالبہ کرنے والوں میں علماء کونسل کے مولانا محمود دریابادی اور رضا اکیڈمی کے سربراہ الحاج محمد سعید نوری بھی شامل تھے ۔  حالانکہ نہ علماء کونسل کا کانگریس سے کوئی گٹھ جوڑ ہے اور نہ رضا اکیڈمی کا، یہ دونوں ہی نیوٹرل جماعتیں ہیں ۔ انہیں اس جھنجھٹ میں پڑنے کی کیا ضرورت تھی بات سمجھ  سے باہر ہے ۔ مذکورہ مطالبے کو جائز قرار دینے کے لئے  دلیل یہ پیش کی گئی تھی کہ کوئی ۲۲ سال قبل اس وقت کے انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر اسحٰق جمخانہ والا کو کانگریس نے اپنا امیدوار بنایا تھا!
اس ’ مطالبے‘  پر بات کرنے سے قبل ممبئی کے چند ’ دانشوران‘ کا ذکر ضروری ہے ۔ گذشتہ ہفتے شہر کے ۹ مسلم ’ دانشوران‘ ڈاکٹر ظہیر قاضی ،وی آرشریف ، ڈاکٹر محمد علی پاٹنکر ، یوسف لکڑا والا ، ڈاکٹر عبدالرحمٰن انجاریہ، سابق جسٹس شفیع پارکر ، مفتی نعیم اختر اعظمی، مدثر عزیز اور سلمیٰ آغا نے کانگریس اور این سی پی کے صدور کو خط لکھ کر لوک سبھا الیکشن 2019  کے لئے ایک ایک مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے مسلم امیدوار کیوں ضروری ہیں ، اس کے لئے یہ دلیل پیش کی تھی کہ ’’ مسلم اقلیت میں مکمل اعتماد اور بھروسہ قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ دو مسلم امیدواوں کو لوک سبھا میں اتارا جائے تاکہ مسلم اقلیتی ووٹ انتشار کا شکا رنہ ہوں اور فاشست جماعتوں کو شکست دی جاسکے ۔‘‘ مذکورہ ’دانشوران‘ کی جو فہرست ہے اس میں  دو افراد کے سوا کسی کو بھی ’دانشور‘ نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ڈاکٹر ظہیر قاضی اور مفتی نعیم اختر اعظمی ،پر عبدالرحمٰن انجاریہ ، محمد علی پاٹنکر وغیرہ کا دانشور ہونا ایک نئی اور دلچسپ خبر ہے !  سلمیٰ آغا کا اس فہرست  میں نام مضحکہ خیز ہے، ان کی ’ دانشوری‘ کا اب تک کسی کو پتہ نہیں چلا تھا ۔ خیر دونوں ہی مطالبوں کا جو حشر ہوا ہے وہ سامنے ہے ۔ محمد اظہر الدین کے لئے جو سیٹ مانگی گئی  تھی  اس پر سیاست کی  الف با سے نا واقف اداکارہ ارمیلا ماتونڈکر کھڑی ہیںیعنی  مسلمانوں کی نمائندگی کا مطالبہ کرنے والے ’دانشوران‘ کو کانگریس واین سی پی دونوں نے ہی  ان کی اوقات بتادی ہے ۔ اب تک ممبئی میں کسی بھی پارلیمانی حلقے سے  نہ ہی تو کانگریس نے کسی مسلمان کو امیدواری دی ہے اور نہ ہی این سی پی نے ۔ اور دے بھی کیوں؟ کیا ممبئی  کے یا مہاراشٹر کے مسلمانوں نے کانگریس اور این سی پی کو یہ یقین دلادیا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کسی اور کو نہیں ان کے ہی امیدوار کو دیں گے؟ کیا مطالبہ کرنے والوں نے دوسری پارٹیوں ، مثلاً سماج وادی پارٹی ، بی ایس پی ، ایم آئی ایم وغیرہ سے بات کرکے انہیں قائل کردیا ہے کہ چونکہ  کانگریس اور این سی پی مسلم امیدوار کھڑے کررہے ہیں لہٰذا آپ ان دوسیٹوں پر کوئی مسلم امیدوار نہ کھڑا کریں؟؟ صورت حال  بے حد واضح ہے ، کانگریس اور این سی پی نے تو آپس میں گٹھ جوڑ کرلیا ہے لیکن وہ نہ سماج وادی پارٹی سے گٹھ جوڑ کے لئے تیار ہوئے ہیں اور نہ ہی ایم آئی ایم سے ، بلکہ جب ’ونچت اگھاڑی‘ نے ایم آئی ایم کا نام پیش کیا تو کانگریس کچھ اسی طرح سے بدکی جیسے کہ چھوت کی کسی بیماری کا نام لے لیا گیا ہو! تو جوپارٹیاں کسی مسلم سیاسی جماعت یا مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے والی کسی سیاسی جماعت سے ’رشتہ‘ نہیں استوار کرسکتیں ان پارٹیوں سے یہ امید رکھنا ہی فضول ہے کہ وہ کسی مسلمان کو امیدوار کے طور پر میدان میں اتاریں گی ۔۔۔
ویسے یہ جو ’سیاسی توڑودستہ‘ ہے اس کا مقصد یہ ہے  بھی نہیں کہ کسی مسلمان کو کانگریس اور این سی پی اعلیٰ کمان امیدوار بنائے  اس طرح کا مطالبہ  دیگر وجوہ سے کیا جاتا ہے ۔ ایک مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ ’ مسلمان  مسلمان‘ کا شور مچے اور فرقہ پرست امیدواروں کی امید برآئے ! مطالبہ کرنے والوں کے پس پشت وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے ’چہرے‘ سامنے نہیں آتے ۔ ’گیم پلان‘ کرنے والے کچھ خاص قسم کے ’دلال‘ کچھ ’ چاپلوس‘ ہوتے ہیں ، ایسے  لوگ جو کسی سیاست داں ، یا سیاست دانوں یا کسی مخصوص سیاسی جماعت کے اشارے پر اپنے ’ مہروں‘ کو سڑک پر لے آتے ہیں ۔ کچھ سیاست داں ہوتے ہیں جو ’ اعلیٰ کمان‘ پر ’دباؤ‘ ڈلوانے کے لئے یہ ’ کھیل‘ کھیلتے ہیں ۔۔۔ لیکن یقین مانیئے کہ اس طرح کے کسی کھیل کا کبھی نہ قوم کی حیثیت سے اور نہ ہی انفرادی حیثیت سے کوئی فائدہ مسلمانوں کوپہنچا ہے نہ  پہنچے گا ۔۔۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے ، صرف اسمبلی  ہی میں نہیں لوک سبھا میں مہاراشٹر سے مسلمانوں کی نمائندگی بتدریج کم ہوتی جارہی ہے ۔ مہاراشٹر میں مسلمانوں کی آبادی سرکاری اعدادوشمار کے مطابق گیارہ فیصد ہے ، لہٰذا لوک سبھا میں آبادی کے لحاظ سے کم از کم پانچ نمائندے  ہونا چاہئے لیکن دیکھا  یہ جارہا ہے کہ مسلم   نمائندگی ’صفر‘ پر آگئی ہے ۔ پہلے تو یہ تھا کہ کشمیر کے غلام نبی آزاد بھی مہاراشٹر کے واشم سے  الیکشن لڑتے ، کامیاب ہوتے اور لوک سبھا میں پہنچ جاتے تھے  اب صورتحال  یہ ہے کہ مہاراشٹر کا ہی کوئی مسلمان قائد اگر اپنے پرانے حلقے کی جگہ کسی نئے حلقے سے الیکشن لڑتا ہے تو ہار جاتا ہے ۔ مرحوم عبدالرحمٰن انتولے کو جب اورنگ آباد بھیجا گیا تو وہ الیکشن  ہار گئے ، حالانکہ اورنگ آباد کو مسلمانوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ! مرحوم غلام محمود بنات والا کی سیاسی زندگی ممبئی سے شروع ہوئی لیکن لوک سبھا میں وہ کیرالہ سے پہنچے،  مہاراشٹر سے نہیں ! رہے مسلم اکثریتی حلقے جیسے کہ ممبرا اور جنوبی ممبئی وغیرہ تو کچھ اس طرح سے ان کو کانٹ چھانٹ دیا گیا ہے کہ مسلم ووٹوں کے ملنے نہ ملنے کی فکر سے اکثر امیدوار آزاد ہوگئے ہیں ۔  مسلم امیدواری کا مطالبہ کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا  واحد مقصد مسلم رائے دہندگان کو تذبذب میں مبتلا کرنا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ’ مسلمان مسلمان‘ کا ہواّ چھوڑ کر دراصل بی جے پی کو کامیاب کرانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ سب کرنے کے لئےباقاعدہ ’سودا‘ ہوتا ہے !  سیاسی سوداگروں کے سامنے کیا دیندار اور کیا بے دین سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں ، جیسے کہ محمودوایاز! اور یہ صورتحال سارے ملک میں ہے ۔
اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی بڑھانے کی کوشش نہ کی جائے ، ضرور کی جائے ، یقیناً مسلمانوں کو امیدواری ملنی چاہئے مگر اس مطالبہ کو ’مسئلہ‘ نہ بنایا جائے ۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے حلقے طئے کئے جائیں اور ان  حلقوں میں باشعور مسلم قائدین کو باقاعدہ متعارف کرایا جائے ، وہ لوگوں کے کام کریں، مسائل حل کریں اور ان حلقوں میں اپنی ایک چھاپ چھوڑیں تاکہ کسی سیاسی پارٹی پر اسے امیدوار بنانے کے لئے موثر دباؤ ڈالا جاسکے ۔ فی الحال تو ہوا میں تیر ہی چھوڑا جارہا ہے  کیونکہ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران مہاراشٹر اور ممبئی میں کانگریس یا این سی پی میں کوئی ایسا مسلم چہرہ نظرنہیں آیا جو امیدواری کے لائق ہو۔ نہ ہی سماجی سطح پر ایسا کوئی مسلمان قائد نظر آرہا ہے ۔ جن کی طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں وہ سماج کے بھی اور سیاست کے بھی یا تو پٹے ہوئے مہرے ہیں یا پھر اپنے مفادات کے لئے قوم کو نظر انداز کرنے والے ۔۔۔ سیاسی پارٹیوں کے سامنے ایسے چہرے لائے جائیں جو واقعی امیدواری کے حقدار ہوں اور کسی پارٹی پر کوئی دباؤ نہ ڈالا جائے ، جو نام پیش کئے جائیں وہ ایسے ہوں کہ سیاسی پارٹیاں خود غورکرنے پر مجبور ہوں ۔ یقیناً لوک سبھا میں مسلم  نمائندگی کا گھٹنا افسوسناک ہے لیکن اس کی اہم وجہ مسلمانوں کے ووٹوں کا انتشار ہی ہے ۔ کئی کئی مسلم امیدوار ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں اور’سیاسی توڑودستے‘ کے دانشور ان میں سے کوئی ایک کے  پاس تو کوئی دوسرے کے پاس کھڑا نظر آتا ہے ! فرقہ پرست امیدواروں کے خلاف کھڑے کسی مضبوط مسلم امیدوار کے خلاف بڑی تعداد میں دوسرے مسلم امیدواروں کا کھڑا ہونا صرف ’ لالچ‘ اور ’ بکنے‘ کی وجہ سے ہی ممکن ہوتا ہے ۔ ووٹ ڈلوانے اور ڈالنے کے لئے ’رشوت‘ لی جاتی ہے ۔فرمان ، فتوے اور پیغام اور اعلانات جاری کئے جاتے ہیں ، کبھی کبھی کوئی ایک جماعت کئی کئی سیاسی پارٹیوں کے نام سے فرمان اور فتوے جاری کردیتی ہے ۔ مختلف اسٹیجوں سے دھواں دھار تقریریں کچھ اس طرح سے کی جاتی ہیں کہ رائے دہندگان کو  اچھے اور برے امیدوار پر غور کرنے کا موقعہ نہیں مل پاتا ۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ علمائے اکرام دانشوران اچھے امیدواروں کا مطالبہ کریں ، اچھے اور سیکولر ۔ ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ  اگر کوئی اچھا مسلم امیدوار کھڑا ہوتا ہے تو ’ مسلکی تفرقے‘ کو ہوا دینے والے افراد بھی میدان میں اترآتے ہیں ۔ نتیجے میں ووٹ منتشر ہوجاتے ہیں اور مسلم امیدوار کی جگہ کوئی فرقہ پرست کامیاب ہوجاتا ہے ۔۔۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ووٹ کٹوانے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ کوشش یہ کی جائے کہ جو بھی اچھا سیکولر امیدوار ہو اسے زیادہ سے زیادہ مسلم ووٹ ملیں اور وہ  کامیاب ہو ۔۔۔ مسلمان سیاسی ’توڑودستے‘ سے ہوشیار رہیں ۔ ورنہ دوعذاب جو ان پر مسلط ہیں وہ ہمیشہ مسلط رہیں گے ، ایک ’ فرقہ پرستی ‘  کا عذاب اور دوسرا ’ مسلم دشمنی‘ کا عذاب ۔