شکیل رشید /صدائے وقت۔(بطور خاص مہاراشٹر و ممبئ کے لئیے۔)
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
کل امتحان کا دن ہے ۰۰۰
اورحساب کتاب کا بھی!
بات مہاراشٹر کے ضمن میں ہورہی ہے جہاں کل 29 اپریل کو 2019 کے لوک سبھا الیکشن کے انتخابات کا چوتھا اور آخری مرحلہ مکمل ہوجائے گا۔ مہاراشٹر میں پہلے مرحلے میں 11 اپریل کو دس انتخابی حلقوں میں ووٹ پڑے تھے ،دوسرے مرحلے کا الیکشن 18 اپریل کو تھا ، اس روز بھی رائے دہندگان نے دس انتخابی حلقوں میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کیا تھا۔ تیسرے مرحلے یعنی 23 اپریل کو 15 انتخابی حلقوں میں ووٹ پڑے تھے ،یعنی اب تک مہاراشٹر میں لوک سبھا کی 35 سیٹوں پر الیکشن کا عمل مکمل ہوچکا ہے اور کانگریس ، بی جے پی اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کی قسمت ’ڈبے‘ یا با الفاظ دیگر ’ ای وی ایم مشینوں‘ میں بند ہوچکی ہے ۔ اب کل 29 اپریل کو آخری مرحلے کے الیکشن میں لوک سبھا کے 13 انتخابی حلقوں میں ووٹ پڑنے ہیں جن میں عروس البلاد ممبئی کی پانچ سیٹیں بھی شامل ہیں ۔ اور پڑوسی علاقے تھانے کی ایک سیٹ ،کلیان کی ایک سیٹ ، بھیونڈی اور پالگھر کی ایک ایک سیٹیں ہیں ۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ پہلے کے تین مرحلوںمیں رائے دہندگان کا جھکاؤ کانگریس اور اس کی حلیف پارٹیوں کی طرف تھا یا بی جے پی اور شیوسینا کے گٹھ بندھن کی طرف؟ نیز ایک سوال یہ بھی ہے کہ آخری مرحلے میں جن انتخابی حلقوں میں ووٹ پڑنے ہیں وہاں کے رائے دہندگان کا جھکاؤ کس کی جانب رہے گا؟ یہ سوال اس لئے اہم ہے کہ 2014ء میں ریاست کی 48 لوک سبھاکی سیٹوں میں سے بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کی جھولیوں میں 42 سیٹیں گری تھیں ان میں سے بھی 23 سیٹیں بی جے پی کے حصے میں آئی تھیں اور کانگریس کو ریاست بھر سے صرف دوسیٹوں پرہی کامیابی مل سکی تھی! اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ 2014 میں ’مودی لہر‘ تھی تب بھی ریاست سے صرف دوسیٹوں پر کانگریس کی جیت اس لئے حیرت ناک اور افسوسناک تھی کہ مہاراشٹر پر آزادی کے بعد ہی سے ،چند مواقع کو چھوڑ کر ، کانگریس حکومت کرتی چلی آرہی تھی۔ جن دوسیٹوں پر کانگریس نے کامیابی حاصل کی تھی ان میں سے ایک بھی سیٹ ممبئی اور مضافات سے نہیں تھی۔ اشوک چوان ناندیڑ سے جیتے تھے اور راجیو شنکر راؤ ساتو نے ہنگولی سےکامیابی حاصل کی تھی۔۔۔۔ ممبئی کی تمام کی تمام سیٹیں بی جے پی اور شیوسینا محاذ کو گئی تھیں ۔
کانگریس کی شکست کی سب سے بڑی وجہ اس کی کارکردگی تھی اور اب بھی اگر ریاست میں کانگریس ہارتی ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ اس کی کارکردگی ہی ہوگی ۔ بی جے پی اور شیوسینا کی ملی جلی سرکار یعنی دیویندر فڈنویس کے راج میں کانگریس اور اس کی حلیف جماعتوں بالخصوص این سی پی کی طرف سے نہ کوئی ا یسی تحریک شروع ہوئی جو بی جے پی اور شیوسینا کو ’دفاع‘ پر مجبور کرسکے اور نہ ہی سیکولر کہلانے والی ان سیاسی جماعتوں نے ’ فرقہ پرستی‘ کے خلاف ہی کوئی ایسا قدم اٹھایا جس سے اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کا ’ اعتماد‘ بحال ہوسکے ۔ سب سے حیر ت انگیز امر تو یہ ہے کہ کانگریس اور اس کی حلیف جماعتیں یہ الیکشن اس طرح سے لڑرہی ہیں جیسے کہ انہیں ’ جیتنا ‘ نہیں ہے ، بس چونکہ الیکشن لڑناہے اس لئے امیدوار میدان میں اتاردیے گئے ہیں ۔ نہ محنت نظر آرہی ہے ، نہ ان رائے دہندگان کے ، جو کانگریس این سی پی محاذ سے جڑے ہوئے ہیں ، گھروں تک پہنچنے، یارابطے بنانے، ان تک اپنے آئندہ کے منصوبوں کو پہنچانے ، انہیں فرقہ پرستی کی جیت کے نتیجے میں آ نے والی آفات سے آگاہ کرنے یا ایک ووٹر کے طور پر انہیں بیدار کرنے کی کوئی مخلص کوشش ہی نظر آرہی ہے ۔
ایک کانگریسی ورکر سے جب یہ سوال کیا گیا کہ جناب یہ آپ کے امیدوار نے مسلم محلوں کو کیوں اتنا نظر انداز کررکھا ہے ، بھلا وہ اردوزبان کے پمفلٹ وغیرہ کیوں تقسیم نہیں کروارہا ہے ، لوگوں کو بوتھ کارڈ کیوں دینے سے کترارہا ہے ، تب وہ کہنے لگا کہ جنہیں یہ سب کام سونپے گئے ہیں وہ اس لئے پیچھے ہٹ رہے ہیں کہ کہیں ان کاموں میں جیب سے پیسے نہ خرچ کرنے پڑیں ۔الیکشن آج کے دنوں میں ’ خرچ‘ کرنے کا نام ہے اور جو امیدوار پہلے ہی سے امید اور آس چھوڑ چکا ہو ، وہ ’خرچ‘ کرنے سے تو کترائے گا ہی لہٰذا وہ جوش وخروش جو کانگریس اور این سی پی محاذ کے ورکروں میں نظر آنا چاہیئے نظر نہیں آرہا ہے اور رائے دہندگان الگ شکایت کرتے پھررہے ہیں کہ ’ ہمیں نظرانداز کیا جارہا ہے ۔‘ کانگریس کی مرکزی قیادت نے بھی مہاراشٹر اور عروس البلاد ممبئی کو بری طرح سے نظرانداز کیا ہے جبکہ بی جے پی کی قیادت ، بشمول وزیراعظم نریندر مودی ،مہاراشٹر اور ممبئی پر پوری توجہ دے رہی ہے ۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ کانگریس مہاراشٹر میں ، بالخصوص آخری مرحلے کی پولنگ میں وہ بھی عروس البلاد ممبئی میںآس اور امید چھوڑ بیٹھی ہے تو غلط نہیں ہوگا ۔۔۔
لیکن رائے دہندگان ، بالخصوص وہ رائے دہندگان جو ’تبدیلی‘ چاہتے ہیں یا جو گذشتہ پانچ برسوں کے ’حساب کتاب‘ کو ’ چکتا‘ کرنا چاہتے ہیں ، ان کی آس اور امید نہیں ٹوٹی ہے ۔ موقع ہے ، کل مہاراشٹر کے آخری مرحلے کی پولنگ میں بھی اور اس کے بعد یوپی بہار اور مغربی بنگال سمیت دیگر ریاستوں میں ساتویں اورآخری مرحلے کی پولنگ میں بھی ، کہ وہ حساب کتاب چکتا کریں ، تبدیلی کے لئے ووٹ دیں اور ملک کو ، جوبڑی ہی تیزی کے ساتھ آمریت اور فاشزم کی جانب بڑھ رہا ہے جمہوری ڈگر پر لائیں ۔ یہ رائے دہندگان کے لئے ایک بڑا امتحان ہے ۔ ۔۔ رائے دہندگان جسے چاہیں ووٹ دیں لیکن وہ جسے بھی ووٹ دیں وہ جمہوری قدروں کا حامی ہو اور سیکولرزم کے اصولوں کو صرف مانتا نہ ہو بلکہ ان پر عمل کرتا ہو ، اور جو فرقہ پرستی کا شدید مخالف ہو ۔۔۔ ’مودی راج‘ میں ملک نے جس مخصوص نظریے پر عملدرآمد کے لئے قدم بڑھائے ہیں اور جس طرح سے اقلیتوں کا جینا دشوار کیا گیا ہے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے ۔ آئین کی تبدیلی فرقہ پرستوں کے منصوبے میں سرفہرست ہے ۔ آئین چونکہ اقلیتوں کو ’تحفظات‘ فراہم کرتا ہے ، وہ انہیں اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے ، انہیں مذہبی ،تہذیبی اور ثقافتی آزادی فراہم کرتا ہے اور انہیں اپنے طریقے سے زندگی گذارنے کی چھوٹ دیتا ہے اس لئے آئین ان کی نظروں میں، جو ملک کو ’ ہندوراشٹر‘ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں ایک طرح کا ’ کانٹا‘ ہے ، ایک ایسا ’کانٹا‘ جسے وہ کسی بھی طرح سے نکال باہر پھینکنا چاہتے ہیں ۔ اب یہ اس ملک کے رائے دہندگان کے سامنے ایک چیلنج ہے کہ وہ آئین کو بچانے کے لئے عملی قدم اٹھائیں۔اگر ہم نے بی جے پی ، کانگریس اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے انتخابی منشور دیکھے ہیں تو آسانی سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کانگریس کی حکومت بننے پر ملک کس سمت جائےگا اور بی جے پی کی حکومت بننے پرملک کون سی کروٹ لے گا ۔ ظاہر ہے کہ اقلیت بالخصوص مسلم اقلیت یہ کبھی نہیں چاہے گی کہ نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ دراز رہے ، وہ کبھی نہیں چاہے گی کہ گرفتاری کی صورت میں پولس یا ایجنسیوں کو ایسی چھوٹ مل سکے کہ وہ بے گناہوں کو بھی گنہگار ثابت کرسکیں ، وہ کبھی نہیں چاہے گی کہ قوانین کو اس طرح سے سخت بنایا جائے کہ محض شبہے پر گرفتار کئے جانے والے نوجوانوں کی زندگیاں جیلوں میں سڑجائیں اور انہیں ضمانت نہ ملے ، بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں کوئی ایسا وعدہ نہیں کیا ہے کہ بے قصوروں کو ضمانت اور راحت دی جائے گی ۔۔۔ مسلمانوں کا تو سب سے بڑا مسئلہ ان کی شریعت ہے ، طلاقِ ثلاثہ بل کو ان کے سروں پر بی جے پی نے لٹکائے رکھا ہے ، اگر موی سرکار پھر بنی تو یہ بِل ، قانون بن جائے گا ، یکساں سول کوڈ کی تلوار سرپرلٹک رہی ہے ، غرضیکہ مسلم اقلیت کے سامنے مسائل کا ایک انبار ہے ۔ ان کی تشویش کہ آئندہ کیا ہوگا ، کون جیتے گا ، کس کی سرکار بنے گی، ان کے مسائل بڑھیں گے یا کم ہوں گے، بجا ہے ۔ گذشتہ پانچ برسوں میں ماب لنچنگ میں اور لوجہاد کے نام پر مرنے والوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے ۔ گائے کے نام پر ’دہشت گردی‘ کا ’ جِن بوتل سے ‘ باہر آچکا ہے سوال یہ ہے کہ یہ واپس بوتل میں کیسے جائے گا؟ جی ایس ٹی اور نوٹ بندی نے ان روزگاروں کا جنازہ نکال دیا ہے جس سے اقلیتیں جڑی رہی ہیں ۔ ذرا ذرا سی بات پر ’ پاکستان بھیجنے‘ کی دھمکی دی جارہی ہے ۔۔۔ لہٰذا ووٹ بہت سوچ سمجھ کر ڈالنے ہونگے ۔ پہلے کے تین مرحلوں میں لگ یہی رہا ہے کہ سوچ سمجھ کر ووٹ ڈالے گئے ہیں اور بی جے کی سیٹیں گھٹ رہی ہیں ، لیکن مہاراشٹر سے مزید سیٹیں نہ گھٹیں اس کے لئے ہوا باندھی جارہی ہے ۔بہت سے لوگ ہیں جو سیکولر سیاسی پارٹیوں کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں ، یقیناً ان سیکولر پارٹیوں نے اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کے ساتھ نا انصافی ہی کی ہے لیکن دوسری پارٹیوں نے تو زندگیوں سے کھیلنا شروع کردیا ہے ، مذہب ، تہذیب اور ثقافت پر حملے کررہی ہیں ۔۔۔ اب گیندرائے دہندگان کے پالے میں ہے ، وہ چاہے جس پارٹی کو ووٹ دیں پر یہ سوچ اور سمجھ کر ہی ووٹ دیں کہ ان کا یہ نمائندہ پارلیمنٹ میں پہنچ کر ان کے مسائل کو اٹھائے گا اور ان کے خلاف بننے والے منصوبوں کی مخالفت کرے گا ۔۔۔ کل امتحان کا دن ہے !