Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 12, 2019

2019 کے پارلیمانی انتخابات اور ہندوستان کا مستقبل،، خدشات و توقعات۔


مفتی عبدالمنان قاسمی/ صدائے وقت/ عاصم طاہر اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
سیادت وقیادت کسی بھی قوم کی ترقی اور فلاح وصلاح کے لیے ناگزیر ہے؛ کیوں کہ سیاسی قوت وطاقت کے بغیر کوئی بھی قوم اِس دنیا کی بھیڑ میں اپنا وجود مضبوط ومستحکم تو درکنار، اپنی خود مختاری بھی باقی نہیں رکھ سکتی۔ انسان نما سیاسی بھیڑیوں کی بھیڑ میں اپنے وجود اور اپنی شناخت کو باقی رکھنے کے لیے سیادت وقیادت کے میدان میں پامردی وجواں مردی کا ثبوت پیش کرنا ازحد ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس کے قوم کے پاس اچھے قائد اور بہترین رہنما نہ ہو، وہ قوم دنیا کے نقشے میں بے حیثیت ہوکر رہ جاتی ہے اور غلامی کی زنجیر اُس کے گلے کا ہار اور مقدر بن جاتی ہے۔ گویا غلامی اُس قوم کی پہچان بن جاتی ہے، جس کو سیاسی شعور وآگہی حاصل نہ ہو۔ بسا اوقات کسی قوم کے پاس سیاسی شعور وآگہی اور بیداری ہونے کے باوجود بھی وہ قوم اپنا وجود اس طور پر ثابت کرنے سے عاجز رہ جاتی ہے، کہ وہ بھی دنیا کا اہم ایک حصہ اور جز ہے، اُسے بھی وہ سارے حقوق ملنے چاہییں، جو دیگر قوموں کو مل رہی ہیں۔ اور ایسا اُس وقت ہوتا ہے، جب کوئی قوم ذہنی غلامی کا شکار ہو؛ کیوں کہ جسمانی غلامی سے ذہنی غلامی زیادہ مہلک اور انسانی سوچ وفکر پر قدغن لگانے والی ہوتی ہے۔
آج اگر دنیا کے موجودہ سیاسی منظر نامے پر نظر دوڑائی جائے، تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مسلم قوم اپنی کثرت کے باوجود، اسی ذہنی غلامی کے شکنجے میں کَسی ہوئی اور دماغی طور پر غلامی کی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ خاص طور اگر بات کی جائے ہندوستان کی، تو ہندوستان میں مسلمان ایک بڑی تعداد میں ہیں، اتنی بڑی تعداد کہ جمہوریت وسیکولرزم کے بینر تلے کسی بھی سیاسی پارٹی کو کرسی پربٹھاسکتی ہے اور کسی پارٹی کو کرسی سے گرا بھی سکتی ہے۔ اور آزاد ہندوستان میں پچھلے ستر سالوں سے مختلف سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کو فقط ’’ووٹ بینک‘‘ کی نظر سے ہی دیکھا ہے، اس کے علاوہ کسی بھی پارٹی نے کوئی اور حیثیت نہیں دی اور نہ ہی اس مسلمانوں کے حقوق مل 

سکے۔
اس کے پس منظر اور پیش منظر پر اگر جایا جائے، تو ظاہر ہے کہ جہاں دیگر بہت ہی خامیاں اور کوتاہیاں نظر آئیں گی، وہیں سب سے بڑی خرابی اور کمی یہ نظر آتی ہے کہ دیش تو آزاد ہوگیا اور ملک میں بسنے والے جسمانی آزادی حاصل کرچکے؛ لیکن ذہنی غلامی گویا گلے کا پھندا بن کر رہی اور آج تک اُس سے آزادی نصیب نہ ہوسکی۔ مسلمان جہاں ایک طرف اپنی سیاسی بے بصیرتی کا شکار ہے، وہیں آپسی چپقلش اور انتشار نے بھی بڑا رول وکردار ادا کیا ہے۔ ہندوستان جیسے عظیم ملک میں مسلمان اپنی شناخت اور پہچان بہ حیثیت مسلم کرانے کے بجائے، خود ساختہ گروہوں اور جماعتوں کی شکل میں بکھرے ہوئے ہیں، گویا ایک جسم کے ہر ہرعضو کو جسم سے الگ کردیا گیا ہے۔
آج جب کہ اکیسویں صدی کا ترقی یافتہ دور ہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کی بے بسی، بے کسی، بے مائیگی اور بے حیثیتی پر قہقہے لگائے جا رہے ہیں، کہ ایک ایسی قوم، جس نے اپنے آغاز سے ہی بے سروسامانی کے عالم میں بھی دنیا کے تاج وتخت کی مالک بن بیٹھی تھی، سیاہ وسفید کا مالک بن بیٹھی تھی، آج وہی قوم در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے۔ اور انتہا تو یہ ہے کہ اپنی بے بسی کا رونا رورہی ہے؛ مگر اس سے نمٹنے کے لیے جو اسباب وعوامل ہوسکتے ہیں، جن وسائل کو اختیار کرکے آگے بڑھ سکتی ہے، اُس کا شعور وآگہی تک نہیں اور نہ ہی کوئی اس طرف توجہ کرنا چاہتا ہے۔
موجودہ ملکی سیاسی منظر نامے کی بات کریں، تو پارلیمانی انتخابات کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، ملک کے مستقبل کے فیصلے کی گھڑی آکھڑی ہے، ملک کا مستقبل روشن ہوگا کہ تاریک؟ اس کا فیصلہ ملک میں بسنے والے ہرہر فرد کے ذمہ ہے؛ کیوں کہ جمہوری ملک ہے اور سیکولرزم کی چادر تنی ہوئی ہے، جس کے سائے میں ملک کے مستقبل کا فیصلہ، ملک کا ہر شہری اپنی رائے دے کر کرتا ہے، ووٹ دینا ہر بالغ شہری کا فنڈامینٹل حق ہے، جو اُسے ملک کے دستور نے دیا ہے۔ آج ہر پارٹی وعدوں اور رنگین خوابوں کی دنیا بسائی بیٹھی ہے، سبھی کو عوام کی فکر ستا رہی ہے؟ سبھی غریب، اقلیت، پچھڑے ہوؤں کے ساتھ ہمددردی جتانے میں مصروف ہیں؟ اور ساتھ ہی ایک دوسرے کے دامنِ تنگ کو کھینچ تان کر داغ دار کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔
جب کہ یہ بات بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ سیاسی وعدوں کی چمک بس مداری کے کھیل سے زیادہ نہیں کہ لوگ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مداری جو دکھا رہا ہے، وہ نظر کا فریب ہے، اُس کے باوجود بھیڑ اکٹھی ہوجاتی ہے اور بڑے شوق سے دیکھتے بھی ہیں اور پیسے بھی لٹاتے ہیں۔ یہی صورت حال سیاسی بے بصیرت رکھنے والی مسلم عوام کی بھی ہے۔ اور اُس کے پیچھے ہاتھ مسلم سیاسی قائدین اور رہنماؤں کا ہی ہے، جو کہ بہت بڑا المیہ ہے؛ کیوں کہ ہمارے ملک کے مسلمان اپنی قیادت پر بھروسہ کرتی آئی ہے اور آج تک کررہی ہے۔ اور رہنما وقائد حضرات نے عوام کا استعمال واستحصال کرنے کا کام بڑی چالاکی سے کیا ہے۔ اِسی سیاسی بے بصیرتی اور رہنماؤں کی خود غرضی نے آج تک مسلمانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے بھی دور رکھا ہے اور مسلمان بے بسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔
آج جب کہ پارلیمانی انتخابات سرپر ہے اور مختلف جگہوں پر رائے دہی اور ووٹنگ کا سلسلہ بھی (11/4/2019) سے شروع ہوچکا ہے، تو ایسے نازک وقت میں انتہائی چابک دستی اور بیدار مغزی کا ثبوت دینا ہوگا، رائے دہی میں دیانت داری اور اپنی سیاسی بصیرت کا اظہار کرنا ہوگا؛ کیوں کہ ملک کا مستقبل، آپ کا مستقبل ہے، اچھے حکمراں آئیں گے، تو ملک کا ہر شہری چین کی زندگی بسر کرسکے گا اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے گا۔ اگر اِس بار بھی ماضی کی طرح آپسی اختلافات کے شکار رہے اور اچھے رہنماؤں کے انتخاب میں ناکام ہوئے، تو گزشتہ پانچ سالوں میں جو کچھ ہونا باقی رہ گیا ہے، وہ سب دیکھنے اور بھگتنے کے لیے تیار رہنا پڑ سکتا ہے۔ اور یہ محض ایک اندیشہ یا خدشہ نہیں ہے؛ بل کہ زمینی حقائق اس کے شاہد ہیں۔
abdulmannan8755@gmail.com