Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, April 12, 2019

خدا ہی حافظ ہے بھارت تیرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

از / ذیشان الہی منیر تیمی/ صدائے وقت/ عاصم طاہر اعظمی۔
..................................................  . ندیوں اور پہاڑوں کے دلکش مناظر سے آراستہ و پیراستہ اور اہم تہذیب و ثقافت کا گلستاں ہندوستان بھی ان چند بہترین ممالک میں سے ایک ہے جہاں اسلام اپنے علم و حکمت اور توحید و سنت کے انمول خزانے کے ساتھ پہلی صدی ہجری میں ہی پورے آن و بان اور شان کے ساتھ آشکارا ہوا. اس ملک کو آپ صلعم کی تربیت یافتہ پچیس بابرکت ہستیوں نے اپنے قدوم سعادت سے نوازا پھر تابعین, تبع تابعین اور چند مسلم تجار کی تشریف آوری سے بھی یہ ملک فیض یاب ہوتا رہا یہ سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہا تا آں کہ یہ سرزمین ایمانی پھولوں سے معطر ہو گئی اور دھیرے دھیرے اسلامی اثر و رسوخ کا دائرہ وسیع ہوتا گیا مسلمانوں کی فتوحات سے جہاں ہندوستانی دھارے متاثر ہوئے وہیں تہذیب و تمدن میں بھی کافی تبدیلی آئی جس کی وجہ سے ہندوستانی فضا کو نئی تازگی و توانائی ملی اور اس کے علمی و فکری خزانے مالا مال ہوگئے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب مسلم امراء و سلاطین کے اندر حب الدنیا کے مہلک جراثیم سرایت کر گئے اور ان کے اندر دین سے بیزاری پیدا ہوگئی وہ عیش و عشرت میں ڈوب گئے رقص و سرود میں کھو گئے اور پایل کی جھنکار میں مست ہوگئے تو ان کی عظمتوں کے تاج کی حفاظت خطرے میں پڑگئی, حتی کہ 1600ء میں تن کے گورے اور من کے کالے صنعت و تجارت کی غرض سے ہندوستان آیا اور دہلی کے لال قلعہ کے اندر تاج پوشی اور گردن تراشی کے تماشے کو دیکھا تو فورا اپنی مکاری, عیاری اور فریبکاری سے تجارت کے ساتھ ساتھ حکومت کا لبادہ بھی اوڑھنا چاہا تو دوسری طرف ان کی پالیسی لڑاؤ اور حکومت کرو نے سونے پر سہاگہ کا کام انجام دیا جس کی وجہ سے 1857ء میں مغلوں کا آخری دور آیا تو عظمت و شوکت کا تاج محل یکایک انگریزی طوفان کی نظر ہوگیا اور ہندوستانیوں کے گلوں میں گلامی کا پٹہ دال دیا گیا اب کیا تھا؟ روزانہ قتل عام, فتنہ و فساد اور ہندو مسلم حادثات اخبارات کی سرخیاں بننے لگیں چونکہ ہندوستان میں انہی دونوں کی اکثریت تھی اس ظلم و استبداد سے نجات پانے کے لئے مختلف تحریکیں چلائی گئیں جس میں مسلمانوں نے تن, من اور دھن کی بازی لگادی جس کی وجہ سے مسلمانوں کو کافی زیادہ نقصان اٹھانا پڑا لیکن تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں با لآخر مولانا ابو الکلام آازاد اور مہاتما گاندھی جی کے باہمی گٹھبندھن و کاوش کے بعد ہندو مسلم کا ایک پلیٹ فارم پر آنا تھا کہ انگریزوں کو اپنا بوریا بستر باندھ کر سات سمندر پار بھاگنا پڑا کیونکہ ہندوستانی عوام کی یہی پکار تھی "
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
    ہندوستانی عوام کے اس پکار کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1947ء میں وطن عزیز پوری طرح سے آزاد ہوگیا مختلف ادیان و فرق اور لسان و زبان کے باوجود ایک ہوکر اپنی گردنوں کا نذرانہ پیش کرکے ہندوستانی مجاہدین نے اس ملک کو آزادی کا تحفہ صرف اور صرف اس لئے دیا تھا تاکہ یہاں امن و امان کا ماحول قائم رہے ہر شخص اپنے اپنے دین و دھرم کے مطابق زندگی گزارے نہ مندر پر حملہ ہوں نہ مسجدو کو مسمار کیا جائے اور نہ ہی چرچ کو توڑا جائے لیکن افسوس صد افسوس کہ ہندوستانیوں نے ان مجاہدین کے تحت لگائی گئی گلشن محبت کو جڑ سے کاٹ کر ان کے روح کو تکلیف پہنچایا ان کے نصیحتوں کو آثار قدیمہ کے فائل میں لپیٹ کر عجائب خانہ میں ڈال دیا مسلمانوں نے ہندؤں کے لئے اور ہندؤں نے مسلمانوں کے لئے "لا تقربا ھذہ االشجرۃ فتکونا من الظالمین".کا فتوی ٹھوک دیا اس تقسیم کا نتیجہ یہ  نکلا کہ فرقہ وارانہ فسادات ہندوستانیوں کا مقدر بن گئی رحمت,شفقت,محبت,خوشی اور مسرت کی جگہ بے    دردی ,سنگدلی ,ستمگری,درد و تکلیف نے جگہ لے لیااس لئے ہندوستان کی فضا میں خون کی ہولیاں کھیلی جانے لگیں ایک کمزور و لاچار ماں کے سامنے ان کے جگر کے ٹکڑے کو نشانہ بنایا جانے لگا ایک بے بس بھائی کے سامنے ان کی پیاری اور لاڈلی بہن کی عزت و آبروں سے کھیلواڑ کیا جانے لگا مساجد و مکاتب پر حملے ,مندرو میں توڑ پھوڑ اور چرچوں میں غنڈہ گردی زور پکڑنے لگا زناکاری,چھیڑخانی ,شراب نوشی ,عیش پرستی جیسے بے شمار برائیوں سے سارا ہندوستان جلنے لگا,چاہے مدھیہ پردیش میں آٹھ مسلم نوجوانوں کو پلاننگ کے ساتھ مارنے کا واقعہ ہو یا جواہر لال نہرو یونیورسیٹی سے نجیب کو غائب کرنے کا حادثہ ہو یاپھر یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنےکے ساتھ ساتھ این ڈی, ٹی  ,وی  کو بند  کرنے کا معاملہ ہو در اصل یہ تمام کے تمام واردات ہندوستانی جمہوریت پر ایک زور دار طمانچہ ہے .
       آج کل ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے ان کی داستان الم سورۃ بقرۃ کے طرح طویل ہے مگر صرف فرق اتنا ہیکہ سورۃ بقرۃ میں جس دردناک واقعہ کے طرف اشارہ کیا گیا ہے اس میں ظالم کو اس کے کرتوت کی پوری پوری سزادیدی گئی مگر یہاں پہ عدل و انصاف کے نام پر ستیہ میو جیتے (سچائی کی جیت) جو یہاں کی آن ,بان ,شان اور ہندوستان کے ہر ایک روپیہ کی نشان ہے کی تذلیل ہورہی ہے ہندوستانی میڈیا رات کو دن, صحیح کو غلط اور حق کو ناحق بتاکر ہندوستان کی حقیقی شناخت کو ختم کررہے ہیں. آج وطن عزیز اپنے سپوتوں سے چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیکہ تم گنگا جمنی تہذیب کی عزت پر ڈاکہ مت ڈالوں ہندوستان کو قبرستان مت بناؤں, ہندوستان کو جنگلستان کی شکل مت دو کیونکہ موجودہ صورت حال اس قدر سنگین ہے کہ ہر طرف تعصبات و الزامات اور بد اعتمادی کی فضا اپنی انتہاں کو پہنچ چکی ہے اس لئے اس پر قابو پانا وقت کا اہم تقاضہ ہے. اس لئے میں ہندوستان کے اعلی حکمران و لیڈران سے کہنا چاہونگا جو اپنے آپ کو ہندوستانی عوام کے لئے ہمدرد و غمگسار ہونے کا دعوی کرتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ حق کو حق اور غلط کو غلط سمجھے اور ہندوستان میں عدل و انصاف کے ترازو کو برقرار رکھے ورنہ انہیں اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ آدمی دوسرے کو دھوکہ دیتے وقت جتنا خود دھوکہ کھاتا ہے اتنا اور کبھی نہیں کھاتا اور جس نے ہمدردی کو چاندی کے سکوں میں تولا،دولت کو اپنی راحت کا سامان تصور کیاتوجان لے کہ دولت و سلطنت ایک ڈھلتی چھاؤں ہے اس نے کب کس سے وفا کی ہے .اگر حالات یہی رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہندوستانی عوام ایسے حکمران و لیڈران سے بیزاری کا پرچم لہراینگی جو دولت کواپنا ایمان سمجھتے ہیں جو عدل و انصاف کے الف و عین سے بھی واقف نہیں جو جہالت میں ابوجہل سے دو قدم آگے ہیں جو عوام کی محبت کو ایک کھلونا سمجھتے ہیں کہ جب چاہے کھیلیں اور جب چاہے توڑ دیں اس لٰئے ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ ہندوستان میں ہورہے آتش زنی و فرقہ پرستی اور لوٹ مار کا سد باب کریں ورنہ لوگ یہی کہینگے....
خدا ہی محافظ ہے بھارت تیرا
لٹیرا جو تھا  رہنما بن گیا

                 ذیشان الہی منیر تیمی
   
      مانو کالج اورنگ آباد مہاراشٹرا