Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, April 25, 2019

گستاخ اصحاب رسول ص کا انجام،،، تاریخ کے آئینے میں !!

*اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا انجام تاریخ کی روشنی میں*
صدائے وقت۔/ نمائندہ خاص۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
کمال ابن القدیم نے تاریخ حلب میں بیان کیا ہے کہ:'' ابن منیر نامی شخص جو حضرات شیخین کو برا کہتا ہے، جب مرگیا تو حلب کے نوجوانوں کو ابن منیر کا انجام دیکھنے کا داعیہ پیدا ہوا، آپس میں کہنے لگے کہ ہم نے سنا ہے کہ جو شخص حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو برا کہتا ہے تواس کا چہرہ قبر میں سور جیسا ہوجاتا ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ ابن منیر حضرات شیخین کو برا کہتا تھا، چلو اس کی قبر کھود کر دیکھیں کیا واقعی ایسا ہی ہے، جیسا کہ ہم نے سنا ہے، چنانچہ چند نوجوان اس پر متفق ہوگئے اور بالآخر انہوں نے ابن منیر کی قبر کھود ڈالا، جب قبر کھودی گئی تو کھلی آنکھوں سے دیکھا گیا کہ اس کا چہرہ قبلہ سے پھر گیا اور سور کی شکل میں تبدیل ہوگیا ہے۔ چنانچہ اس کی لاش کو عبرت کے لیے مجمع عام میں لایا گیا پھر اس کو مٹی میں چھپا دیا گیا'' (الزواجر: ۲/۳۸۳)
ایک مرد صالح نے بیان کیا کہ :ایک شخص کوفہ کا رہنے والا تھا، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو برا کہتا تھا، ہمارے ساتھ ہم سفر ہوا، ہم نے ہر چند اسے نصیحت کی لیکن وہ نہ مانا، ہم نے اس سے کہا کہ ہم سے تو علیحدہ ہوجا، چنانچہ جب ہم اس سفر سے واپس ہونے لگے تو ایک روز اسی ہم سفر کا ملازم نظر آیا، اس نے ہم سے کہا کہ ہمارے آقا کی تو عجیب حالت ہوگئی ہے، اس کے دونوں ہاتھ بندر کے مانند ہوگئے ہیں، پھر جب ہم اس کے پاس گئے اور اس سے گھر واپس چلنے کے لیے کہا، اس نے جواب دیا کہ مجھے عجیب مصیبت پہنچی ہے، اور اپنے دونوں ہاتھ آستین سے نکال کر دکھائے تو واقعی بندر کے مثل تھے، پھر وہ ہمارے ساتھ ہولیا، لیکن راستے میں اس سے زیادہ عجیب تر واقعہ پیش آیا، ایک جگہ بہت سے بندر جمع تھے، جب ہمارا قافلہ وہاں پہنچا تو وہ سواری سے اتر کر بندر کی شکل میں ہو کر ان ہی کے ساتھ جاملا''(عظمت صحابہ نمبر ۹۶۱)
صحابیٔ رسولؐ پر بہتان طرازی اور اس کا انجام
حضرت سعد بن ابی وقاص جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتے میں ماموں ہوتے تھے، وہ مستجاب الدعوات تھے، حضور ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی تھی کہ اے اللہ سعد کی دعا قبول فرما، ایک مجلس میں کچھ ناقدین معترضین لوگ بیٹھے تھے، جو حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی لڑائیوں پر تبصرہ کر رہے تھے، حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا بھائی! ان کو برا مت کہو، کیونکہ یہ اچھے لوگ ہیں ، اور حضور ﷺ نے ان کے جنتی ہونے کی بشارت دی ہے۔ ایک شخص اصحاب تنقید میں سے جو بہت زور و شور سے بول رہا تھا، اس نے پھر نامناسب الفاظ کہے، سعد بن ابی وقاص نے پھر منع کیا، اس کے باوجود وہ بولتا ہی رہا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا اچھا اب میں بددعا کرتا ہوں، انہوں نے بد دعا کی کہ اے اللہ یہ تیرے مخلص بندے ہیں، جن کے متعلق تیرے رسول ﷺ نے جنتی ہونے کی بشارت دی ہے، یہ شخص ان کو برا کہہ رہا ہے، اگر واقعی یہ تیرے بندے تیری بارگاہ میں مقبول ہیں تو اس برا کہنے والے پر ایسا عذاب مسلط فرما جو دیکھنے والوں کے لیے عبرت بن جائے، پس اتنا کہنا تھا کہ سامنے اونٹوں کی قطار جا رہی تھی، ان میں سے ایک اونٹ بگڑا، وہ ان کی قطار میں سے نکل آیا، ادھر ادھر دیکھا پھر اس شخص کو پکڑا اور اس کی کھوپڑی کو چبا گیا، اور چباکر اس کو ختم کردیا، پھر قطار میں جاکر مل گیا(عظمت صحابہ نمبر۹۶۶)
حضرت حسین ؓکی گستاخی کرنے والے کا انجام
ابن جویزہ نامی شخص نے آکر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو جہنم کی بشارت ہو، جواب میں حضرت حسین رضی للہ عنہ نے کہا مجھے تو دو بشارتیں حاصل ہیں، ایک تو یہ کہ وہاں مہربان رب ہوگا، دوسرے وہ نبی وہاں موجود ہوں گے جو سفارش کریں گے، اور ان کی سفارش قبول کی جائے گی، پھر سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اس کے حق میں بد دعا فرمائی کہ اے اللہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس کو جہنم میں ڈال دے، چنانچہ اس کی سواری ایسی زور سے بدکی کہ وہ سواری سے اس طرح گر پڑا کہ اس کا پاؤں رکاب میں پھنس کر رہ گیا، اور سواری تیز بھاگتی رہی، اور اس کا جسم اور سر زمین پر گھسٹتا رہا جس سے اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے گرتے رہے، اللہ کی قسم! آخر میں صرف اس کی ٹانگ رکاب میں لٹکی رہی۔
حضرت اعمش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قبر پر پاخانہ کرنے کی گستاخی کی تو اس کے گھر والوں میں پاگل پن، کوڑھ اور خارش کی وجہ سے کھال سفید ہوجانے کی بیماری پیدا ہوگئی اور سارے گھر والے فقیر ہوگئے۔ حضرت اعمش رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی قبر مبارک پر پاخانہ کر جاتا تھا، کچھ ہی دنوں کے بعد یہ شخص مجنون ہوگیا، اور کتوں کی طرح بھوکتے ہی بھوکتے مر گیا، لوگوں کا بیان ہے کہ اس کی قبر سے اب بھی چیخنے کی آواز آتی ہے'' (عظمت صحابہ نمبر۹۶۸)
غرض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہ مبارک ہستیاںہیں کہ جن کی عبادات ، جن کے معاملات ، جن کی قربانیاں ،حتٰی کہ جن کا جینا اور مرنا صرف اور صرف ایک اﷲربّ العزّت والجلال ہی کے لیے تھا، اسلئے ان کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کرنے سے بچنا چاہئے، اور ان سے عقیدت و محبت رکھنا اور ان کے نقش قدم پر چلنا پر مسلمان کی شرعی ذمہ داری ہے۔