از:مولانارشیداحمدندوی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
مورخہ 16/اپریل 2019ء کے روزنامہ انقلاب(ممبئی) میں روزنامچہ میں ایک مضمون " *انجانی گواہی اورفسق نکاح* " پڑھنے کاموقعہ ملا،جس میں انھوں نے دارالقضاؤں کی خدمات اورایسی عدالتوں کی طرف عوام کے رجوع کوسراہتے ہوئے آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈکے کسی دارالقضاء میں انجانی گواہی لینے کوغلط کہہ کرانھیں احتیاط کرنےکامشورہ بھی دیا، نیزموصوف کو ایک صاحب کانکاح فسخ کئے جانےپر اعتراض بھی ہے،اس تعلق سے میں نےکیڈی مسجد، ناگپاڑہ ،ممبئی کے قاضی جناب مولانامفتی محمدفیاض عالم قاسمی سےرابطہ کیااوران سے وضاحب طلب کی تو انھوں نےحسب ذیل تفصیلی جواب عنایت فرمایا،انھوں نے کہا:اولایہ بات جان لینی چاہئے کہ فُسق ِنکاح کوئی چیزنہیں ہے؛ بلکہ درست لفظ فسخ ِنکاح، خاء کے ساتھ ہے نہ کہ قاف کے ساتھ۔دوسری بات شہادت کے تعلق سے یہ ہے کہ ایک ہے تحمل شہادت اورایک ہےادائے شہادت ، تحمل شہادت کامطلب یہ ہے کہ کسی واقعہ کے رونماہونے کو بغورمطالعہ کرکے ذہن میں محفوظ کرلیاجائے تاکہ آئندہ اس کی گواہی دی جاسکے، اورادائے شہادت یہ ہے کہ جس واقعہ کو دیکھ کرذہن میں محفوظ کیاگیاتھا،بوقت ضرورت عندالقضاء اس کی گواہی دی جائے، اول یعنی تحمل کے لئےصرف عقل ،ہوش وحواس اوربیناہوناشرط ہے، بالغ ہونا،مسلمان ہونا،فریقین کے درمیان ماضی میں جو کچھ ہواہے اس سے واقف ہوناشرط نہیں ہے، جب کہ ادائےشہادت کے لیے عقل ،ہوش وحواس کاہونا،آزاد،بالغ اور مسلمان ہونانیزفریقین کے درمیان جو کچھ ہواہےاس سےبراہ راست واقف ہوناشرط ہے۔(تفصیل کے لیے دیکھئے بدائع الصنائع، کتاب الشہادۃ:٥/٣۹۸،آداب قضاء،کتاب الشہادۃ:١۸٥)یہاں یہ بات بھی قابل غورہے کہ اگرکسی کوتحمل شہادت کے لیے بلایاجائےاورکوئی د وسرانہ ہو تو آنااورتحمل شہادت کرناواجب ہے۔
(تفسیرمظہری:١/٤٢۹) ۔
مضمون میں جس
واقعہ کی نشاندہی کی گئی ہے بظاہر اس کاتعلق تحمل شہادت سے ہے نہ کہ ادائے شہادت سے،اورتحمل شہادت کاتعلق جو کچھ ہواہے اس سے نہیں ہے، بلکہ جو کچھ اس کے سامنے ہورہاہے اس سےہے۔اس کے لیے دارالقضاء میں گواہ کاموجود ہونااورجو کچھ اس کے سامنے ہورہاہے اس سے واقف ہوناکافی ہے،ایسی صورت میں شاہدسےصرف دستخط لیاجاتاہے، جس کامقصد یہ ہوتاہے کہ ان کی موجودگی میں یہ کام مثلاصلح یاخلع ہواہے،اس کے برخلاف ادائے شہادت کی صورت میں مسلم پرسنل لابورڈکےدارالقضاؤں میں صرف دستخط نہیں لیاجاتاہے،بلکہ اولافریق سے عاقل وبالغ ،مسلمان اورواقفِ احوال گواہ طلب کیاجاتاہے،فریق کی درخواست پر گواہ کاحلفیہ بیان قلمبندکیاجاتاہے،گواہی سے پہلے حلف دلایاجاتاہے کہ اسےجو کچھ معلوم ہے وہ صحیح صحیح بتائے گانہ اپنی طرف سے کچھ اضافہ کرے گااورنہ ہی کچھ گھٹائے گا،اسے خوف آخرت بھی دلایاجاتاہےتاکہ وہ خود کےیقینی علم اورچشم دیدکے مطابق گواہی دے،انجانی یاجھوٹی گواہی نہ دے، پھر وہ جوکچھ بیان دیتاہے اس کوبعینہ لکھاجاتاہے، اس کے بعد اس کابیان خود اسے سپردکردیاجاتاہے تاکہ وہ اس کو پڑھ لے کہ اس نے جو کچھ بیان دیاہے وہی لکھاگیاہے یانہیں،اگروہ پڑھنانہیں جانتاہے تو پڑھ کرسنایاجاتاہے،پھراس کادستخط لیاجاتاہے۔مولاناقاضی محمد فیاض عالم صاحب قاسمی نے کہاکہ مضمون نگارنے تحمل شہادت اورادائے شہادت کو خلط ملط کردیاہے اس لئے انھیں غلط فہمی ہوگئی ہے۔
بیرون ملک کے کسی آدمی کانکاح فسخ کئے جانے کے تعلق سےقاضی موصوف نے کہاکہ پورے فیصلہ کو پڑھے بغیریاصرف شوہرکی بات سن کرمضمون نگارکے لیےکوئی تبصرہ کرنامناسب نہیں تھا، تاہم ہمیں یقین ہے کہ کوئی نہ کوئی سببِ فسخ ضروررہاہوگا، تب ہی قاضی صاحب نے نکاح فسخ کیاہوگا،یادرہے کہ سبب فسخ صرف مفقود الخبری نہیں ہے ،بلکہ اسباب فسخ تقریبا١۶/ہیں،جن کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔اگربالفرض ایسانہیں ہے تو مرد کو چاہئے کہ مسلم پرسنل لابورڈکےصدرمحترم کی خدمت میں اپیل کرے۔اگران کی شکایت بجاہے تو صدرمحترم کی ہدایت پر ملک کے کسی سینئرقاضی صاحب معاملہ کی دوبارہ سماعت کریں گے۔بشرطیکہ یہ معاملہ مسلم پرسنل لابورڈکے کسی دارالقضاء سے متعلق ہو، ورنہ بورڈ اس کاذمہ دارنہیں ہے۔
قاضی صاحب نے اس پرافسوس کابھی اظہارکرتے ہوئے کہاکہ مجھے نہیں معلوم یہ کس دارالقضاء کاواقعہ ہے ،مگرمضمون نگارکویاخود صاحب واقعہ کو چاہئےتھاکہ وہ خود اسی قاضی سے اس کی وضاحت طلب کرلیتے یاشہادت کے تعلق سے جو اصول وضوابط فقہاء نے لکھے ہیں ان کامطالعہ فرمالیتےتو انھیں غلط فہمی نہیں ہوتی۔
*ممبئی اوراطراف اپنے گھریلوجھگڑوں کوشریعت مطابق صلح،خلع، طلاق، اور فسخ نکاح نیزبیوی کو واپس بلانے اورترکہ کی شرعی تقسیم کے لیے رجوع کریں۔ *darulqazamumbai@gmail.com*