Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, April 30, 2019

جھارکھنڈ میں مسلم قیادت کا فقدان!!


تحریر/مولانا امجد صدیقی/ صدائے وقت۔
      . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .    
جھارکھنڈ کا مطلب ، جنگلاتی زمین  چونکہ جھارکھنڈ کا اکثر حصہ جنگلوں پر مشتمل ہے
ریاست جھارکھنڈہندوستان کی امیر ترین ریاستوں میں سے ایک ہے یہ 15 نومبر 2000ء کو ریاست بہارکو تقسیم کرکے وجود میں لایا گیا 


جھارکھنڈ کا دارالحکومت صنعتی شہررانچی ہے اور علاقائی اعتبارسے سب سے خوبصورت اور بڑا شہر جمشیدپور ہے 
اس ریاست کی سرحدیں شمال میں بہار ؛ مغرب میں چھتیس گڑھ؛  جنوب میں اڑیسہ ، اور مشرق میں مغربی بنگال سے مربوط ہیں
اس ریاست کے شکم میں 24 اضلاع ہیں ، ہر ضلع کی اپنی ایک شناخت ہے
ریاست جھارکھنڈ میں صنعت وحرفت کا معیاربلند ہونے کے ساتھ شرح خواندگی بھی دیگر ریاستوں کے مقابلےمیں  مناسب  ہے
2001ء کی مردم شماری کے مطابق یہاں 66 فیصد ہندومت کے پیروکارہیں اور 15فیصد مسلمانوں کی آبادی ہے ، تقریبا 13 فیصد  قبائلی باشندوں پر مشتمل ہے
لیکن ہندوؤں کی قیادت پہلے سے زیادہ مضبوط ، مستحکم اور معتبر ہے
قبائلی باشندوں کے سیاسی قائدین بھی تو لا تعداد ہے بلکہ ان کی کئی سیاسی پارٹیاں بھی وجود میں آکر سکہ جماچکی ہیں
ریاست جھارکھنڈ جہاں مسلمانوں کی آبادی قبائلی اور آدیواسیوں بھی سے زیادہ ہیں لیکن سیاسی قائدین تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں کسی پارٹی یا تحریک کی تو بات ہی نہ کیجئے
جھارکھنڈ کے مسلم امراء ورؤساء کی جہاں طویل فہرست مل جائے گی وہی مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی غربت وافلاس کی زندگی گزارتی نظر آئے گی
2019 کے عام انتخابات کی گہما گہمی ہے تقریبا نصف مرحلے کی ووٹنگ ہو چکی ہے ہر ریاست میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی پارٹی نے مسلم امیدوار کو بھی اتارا ہے
لیکن صرف جھارکھنڈ ہی ایک ایسی ریاست ہے جہاں اتنی مسلم آبادی ہونے کے باوجود ایک بھی پارلیمانی امیدوار مسلم چہرہ نہیں ہے ، ہر سیاسی پارٹی نے مسلمانوں کو نظر اندازکیا ہے


کانگریس اور جے ایم ایم جو اپنے آپ کو
اقلیتوں کی ہمدرد اور مسیحا ہونے کے دعوئے کرتے نہیں تھکتی ، آج اس نے بھی مسلمانوں کو سیاست کے حاشیے پر لا کھڑا کیا ہے ، کیا ہم نے اس پر کبھی غور کیا کبھی سر جوڑ کر مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنے کی کوشش کی
کیوں ہم حاشیےپر رہیں 
یاد رکھیں ، اگر سیاست میں آپ کی حصہ داری نہیں ہوگی اگر سیاسی محاذ میں آپ نظر نہ آئیں تو کسی شعبے میں آپ کامیاب نہیں ہو سکتے
سیاست کا شعبہ ہر شعبے پر غالب ہے
سیاسی میدان میں آپ نہیں تو تعلیمی میدان بھی آپ کا نہیں
معیشت آپ کی مضبوط ترین ہوکر بھی کھوکھلی رہے گی ، سرکاری ملازمت میں بھی آپ حاشیے پر رہیں گے حکومتی اہلکاروں کے پاس بھی آپ کی اہمیت ذرہ برابر بھی نہیں ہوگی
جھارکھنڈ میں مسلم سیاسی قیادت کا فقدان ایک مسئلہ ہی  نہیں بلکہ مستقبل کے لئے ایک درد سر ہے
ہم نے ان سیاسی پارٹیوں کو اپنی حیثیت اور اپنا مقام کا کبھی احساس تک نہیں دلایا کہ اس ریاست میں ہماری بھی کوئی حیثیت ہے ، ہماری شہریت بھی دیگر مذاہب کی طرح ہے
لیکن افسوس کہ جھارکھنڈ کے مسلمان مذہبی قائدین کی پیروی میں اتنے بے حس ہوجاتے ہیں کہ سیاست کو بالائے طاق رکھ کر مسلک اور مشرب کی مالا جبنے لگتے ہیں
اور ہاں یہ بھی قابل ذکر بات ہے کہ جھارکھنڈ کے مسلمانوں میں جو مسلکی تشدد میں نے دیکھا وہ اور کسی ریاست میں نہیں ہے
جہاں جائے بریلوی اور دیوبندی حنفیت اور غیر مقلدیت کا اتنا شور ہے کہ توبہ توبہ
اگر کوئی اسمبلی امیدوار دیوبندی مسلک کا کھڑا ہوگیا تو مجال نہیں کہ بریلوی حضرات انہیں ووٹ دیں
جمشیدپور ، رانچی ، بوکارو ، دھنباد، گریڈیہ ، گڈا جیسے اضلاع میں تو مسلکی تشدد نے حد ہی کر دی ہے
پھر ان مسلکی  لڑائی میں آپ کی سیاسی حیثیت کیا ہوگی؟
کبھی غور کیا
پارلیمنٹ میں جب تین طلاق پر بحث ہو رہی تھی تب کیا آپ کو محسوس نہیں ہوا تھا کہ کاش میں بھی آج پارلیمنٹ میں ہوتا تو دلائل کا انبار لگا دیتا اور اپنی تقریر سے سب کو قرآن کا قائل کر دیتا تو پھر کیوں مسلکی اور خاندانی اختلافات کو ہوا دے کر اپنے سیاسی وجود کو ختم کر رہے ہیں ؟
کیا ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہے کہ جمشیدپور ، پاکوڑ اور گڈا جیسی پارلیمانی سیٹ سے مسلم امیدوار کو ٹکٹ ملے
جہاں مسلم آبادی 30 فیصد سے زیادہ ہے
لیکن یہاں سے ایک ریاستی وزیر بھی نہیں ہے
جہاں تک جمشیدپور کے مسلمانوں کی سیاست کا تعلق ہے تو وہاں مسلم دانشور بیدار ہیں لیکن بیداری تک ہی محدود ہے ، مسلکی اختلافات نے ساری بیداری کو خاک ملا دیا
ہر روڈ اور ہر سڑک پر الگ الگ سیاسی پارٹی کے بینر دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے ہے کہ محاذ سیاست میں یہ عاجز اور بے بس کیوں ہے
دنیا میں ہماری حیثیت، ہماری شناخت اور ہماری امتیازی خصوصیات کو ہر طبقے نے قبول کیا ہے ، ہر محاذ پر ہمارا رعب برقرار رہا ہے


آئے آج ہم طئے کریں کہ جھارکھنڈ کی
سیاسی قیادت ہم بھی مستحکم اور مضبوط کریں گے ہم بھی ان سیاسی پارٹیوں کو اپنی حیثیت اور اپنی پہچان کا احساس دلائیں گے
اللہ احساس کی تو فیق دے  آمین