Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, April 4, 2019

ادارة المباحث الفقیھتہ کا پندرہواں فقہی اجتماع۔


تاثرات و مشاہدے : مفتی مجتبیٰ حسن قاسمی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے قدیم اورانتہائی فعال و متحرک تنظیم  ’’جمعیۃ علماء ہند‘‘ کے زیر انتظام ادارۃ المباحث الفقہیہ کےپندرہویں فقہی اجتماع(منعقدہ:۲۷-۲۹؍مارچ ۲۰۱۹ء، روز:بدھ- جمعہ، مقام: جمعیۃ علماء ہند، دہلی) میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔اس کے محرک‘ رفیق ِ درس مفتی شکیل منصور حسنی صاحب بنے، انہوں نے ادارۃ المباحث الفقہیہ کے عالی وقار ناظم’’ مولانا معز الدین صاحب ‘‘ اورمتحرک و فعال رکن علمی، رفیق درس ’’مفتیسید محمدعفان منصور پوری ‘‘صاحب سے بات کی، سوال نامہ جاری ہوا، مقالات لکھے گئے، اور بالآخر اس کے باوقاراجتماع اور علمی مجلس میں شرکت کی سعادت ملی۔ اولا میں بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہوں، کہ مجھ حقیر کو اللہ تعالیٰ نے منتخب علماء  و مفتیان کرام کی مجلس میں پہنچایا، جہاں سے استفادہ کی راہیں آسان ہوئیں، ساتھ ہی مشکور ہوں رفیق محترم سید محمد عفان منصورپوری صاحب کا، ادارۃ المباحث الفقہیہ کے ناظم مولانا معز الدین صاحب کا، اور رفیق محترم مفتی شکیل منصور قاسمی صاحب کا، کہ ان حضرات کی کوشش سے یہ ممکن ہوسکا۔
فقہی اجتماع چار اہم مرکزی  (اور متعدد ذیلی)موضوعات پر مشتمل تھا،اس ناچیز نے ان میں سے دو موضوع پر مقالہ تحریر کیا تھا، ایک کا عنوان تھا:(۱)تشہیر و اشتہار:تفصیلات و احکام(یہ مقالہ درحقیقت ’’انٹرنیٹ کے ذریعے لین دین وغیرہ کی چند جدید شکلیں‘‘کے عنوان سے جاری کیے گئے سوالوں کا جواب تھا)
اس عنوان کے عارض/تلخیص کنندہ دار العلوم دیوبند کے شعبہ افتاء کے معین مفتی ، مفتی مصعب صاحب تھے، شان دار انداز میں مکمل مقالات کی تلخیص کی، اور ہر ایک کی رائے کو اپنی تلخیص میں جگہ دی، اس ناچیز کے مقالے سے بھی متعدد اقتباسات نقل کیے گئے۔
جب تجویز کمیٹی کا اعلان کیا گیا تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس میں اس ناچیز کا بھی نام تھا۔مسودہ تیار کیا گیا، اور تجویز پاس کرکے کے بڑی کمیٹی (جس میں استاذ گرامی امیر الہند مولانا قاری سید محمدعثمان منصور پوری(صدر جمعیۃ علماء ہند) ،بحر العلوم حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی صاحب، شیخ الحدیث مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب سمیت ہندوستان بھر کے بڑے علماء شریک تھے) کے سامنے پیش کیا گیا،اور کافی بحث و تمحیص اور غور وخوض  کے بعد تجویز مرتب ہوئی، پھر اجلاس عام میں تمام شرکاءکے اتفاق سے تجویز پاس ہوئی۔
دوسرا [ترتیب میں پہلا]عنوان تھا:سرکاری و غیر سرکاری چند منافع بخش اسکیموں کے شرعی احکام، اس موضوع پر بھی احقر نے تفصیلی مقالہ لکھا تھا، جس میں اولاً متعدد سرکاری اسکیموں کا اصل ماخذ سے تعارف کرایا تھا، اوراس کے احکام دلائل کے ساتھ قلم بند کیے تھے۔اس کے عارض و تلخیص نگار دار العلوم دیوبند کے دار الافتاء کے معین مفتی ، مفتی اسد اللہ صاحب آسامی تھے، جنہوں نے عمدہ انداز میں تلخیص پیش کی، اور متعدد اسکیموں پر سیر حاصل بحث ہوئی، کمیٹی بنی، اس نے بڑی کمیٹی کو مسودہ سپرد کیا،وہاں بھی کافی بحث ہوئی، اور بالآخر ایک مسئلہ میں جزوی اختلاف کے ساتھ اجلاس عام میں تجویز پاس ہوگئی۔
تیسرا اورچوتھا عنوان تھا،موبائل اپلی کیشن کے ذریعےٹیکسی وغیرہ کرایہ پر لینے کی ایک نئی شکل٭ اور فرنچائز کا شرعی حکم۔ ان دونوں عنوان کی تلخیص مفتی عبد الرزاق امروہوی نے کی تھی، لیکن ایک کو پیش کیا مولانا عبد اللہ معروفی صاحب(استاذ دار العلوم دیوبند)نے اور دوسرے عنوان کو پیش کیا مفتی اختر امام عادل صاحب نے۔ان کی بھی کمیٹی بنی، جس کی ایک کمیٹی کے رکن کے طور پر رفیق محترم مفتی شمشیر حیدر قاسمی بھی منتخب کیے گئے۔حسب ضابطہ تجویز کمیٹی کے ارکان نے اپنے موضوع سے متعلق ، بحث و تمحیص کے بعد، تیار کیا گیاتجویز کا مسودہ، بڑی کمیٹی کے سامنے پیش کیا، بڑی کمیٹی نے تمام کمیٹیوں کے سامنے مشورہ اور بحث کے بعد اسے منظور کیا ،اور اختتامی اجلاس میں تمام تجاویز اتفاق رائے سے پاس ہوئیں۔
علمی بحثوں کا انداز بڑا عمدہ ، لائق رشک اور قابل تقلیدتھا، تمام شرکاء ، کھل کر بحث میں حصہ لے رہے تھے، ہر ایک کی رائے کا احترام کیا گیا،بحث و تمحیص کابڑا فائدہ یہ ہوا کہ موضوعات کے مختلف گوشے  شرکاء کے سامنے آئے۔
اس پروگرام کے لیے رفیق محترم مفتی شکیل منصور صاحب نے بھی اپنا گراں قدر مقالہ تحریر فرمایا تھا، لیکن افسوس کہ سرحدی دوری کی بناء پر وہ شریک نہیں ہوسکے۔ اسی طرح اس پروگرام میں ان کے استاذ (جنھیں میں بھی اپنا استاذ سمجھتا ہوں)مولانا صابر نظامی صاحب کو بھی شرکت کرنی تھی، افسوس کہ بعض عوارض کی بناء پر وہ بھی شریک نہیں ہوسکے۔
انتظام وانصرام لاجواب تھا، رفیق محترم مفتی سید محمد عفان منصور پوری صاحب کے بارے میں یہ اندازہ تو تھا ، کہ وہ خلیق ہیں، ملنسار ہیں، متواضع ہیں،لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اچھے منتظم بھی ہیں، اس اجلاس میں شرکت کے بعد اس راز پر میں مطلع ہوسکا۔پروگرام کے دوران جب بھی ملاقات ہوئی، خبر خیریت معلوم کییا  مزاحیہ جملے سے استقبال کیا، کھانے کی میز پرجب یہ ناچیز بیٹھا ہوتا، تو ضرور آتے، اور مزید کھانے کا اصرار کرتے، ایسا صرف ایک مرتبہ نہیں ہوا،بل کہ  ہر مرتبہ ہوا، ایسا لگتا تھا کہ وہ میرے دستر خوان پر بیٹھنے کا انتظار کررہے ہو ں۔ یہ تاثر صرف اس ناچیز کا نہیں ہے، بہت سے شرکاء نے اس کا اظہار کیا۔
  جمعیۃ علماء کے پروگرام تو ویسے بھی خوب صورت اور خوب سیرت ہوا کرتے ہیں، لیکن ان میں مفتی سید محمد سلمان صاحب اور مفتی سید محمد عفان صاحب کا تعاون ہوجائے، تو پروگرام کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے۔ اس پروگرام میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ جمعیۃ کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب بھی خاص شکریے کے مستحق ہیں،کہ انہوں نے  اس قدر مفید پروگرام کے انعقاد میںاپنا بھر پور تعاون پیش کیا۔
اس طرح کے پرگرام میں شرکت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہےکہ لکھنے پڑھنے والوں کے اندر از سر نو اسپرٹ پیدا ہوتی ہے، ان کے دل کی بیٹری چارج ہوتی ہے، یوں کہیے کہ نوجوانوں کا قافلہ آگے بڑھتاہے، دینی و شرعی رہنمائی کی ذمے داری کا ان میں احساس پیدا ہوتا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند اس لحاظ سے قابل مبارک باد ہے کہ وہ پابندی سے اس قدر مفید پروگرام منعقد کرتی ہے، جس پر خاصے اخراجات ہوتے ہیں ۔ دعاء ہے کہ علم و عمل کا یہ قافلہ تیزی سے منزل مقصود کی جانب رواں دواں رہے،راستے میں وہ کسی تعب و تھکن کا شکار نہ ہو، اللہ تعالیٰ اسے مقبولیت سے نوازے ،آمین۔
مجتبیٰ حسن قاسمی
خادم حدیث و فقہ: دار العلوم ماٹلی والا، بھروچ