Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, April 4, 2019

بی بی سی گراونڈ رپورٹ کا اردو ترجمہ


امت شاہ کے انتخابی حلقہ کی یہ مسلم بستی’ ضحی پورہ‘ علاقہ اچھوت کیوں ؟
گاں کے سرحدکو تعصب میں بین الاقوامی سرحد سمجھا جاتا ہے
’ضحی پورہ ‘ کو غیرمسلموں کے لیے ’غیر محفوظ‘ اور ’ضحی پورہ ‘ کو ’چھوٹا پاکستان‘ بھی کہا جاتا ہے ۔
اردو ترجمہ : احمدخان ،پٹھان ، نئی دہلی / صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
احمدآباد 4اپریل ۔
اس بار بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے گجرات کی گاندھی نگر سیٹ سے بی جے پی کے امیدوار کے طور پرپرچہ نامزدگی داخل کیا ہے ، اس تناظر میں احمد آباد کے مغربی خطہ میں واقع ’ضحی پورہ ‘ نامی گاؤں ایک بار پھر عمومی تذکرہ میں آگیا ہے ۔ تقریبا پانچ مربع کلومیٹر کے دائرے میں بسا’ضحی پورہ‘ نامی گاؤں قریب پانچ لاکھ لوگوں کا ٹھکانہ ہے جن میں سے بیشتر مسلمان ہیں۔ یہ علاقہ پہلے سر خیز اسمبلی حلقہ میں آتا تھا ، جہاں سے امت شاہ ریکارڈ اکثریت کے ساتھ جیتتے رہے تھے۔ اب یہ و يجل پور اسمبلی حلقہ میں اور گاندھی نگر لوک سبھا سیٹ کے تحت آتا ہے۔ گجرات میں ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات کے بعد بڑی تعداد میں مسلمانوں نے’ضحی پورہ ‘ نامی گاؤں کا رخ کیا تھا اور یہیں پر اپنی زندگی دوبارہ شروع کی۔ ان میں سے کئی خاندان 2002 فسادات کے بعد یہاں آ کر آباد ہوا ہے ۔ احمد آباد کی تاریخ کو دیکھیں تو یہاں اقتصادی، سماجی اور ثقافتی اختلاف کی وجہ سے ہندو-مسلم ہی نہیں ؛ بلکہ ذات برادری پر مبنی گلیاں اور محلے بھی وجود میں ہیں۔ اگرچہ فرار اور فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ گجرات سمیت ملک بھر میں ایک خاص نسل کے لوگ ایک جگہ رہنے پرمجبور ہوئے ہیں، اس طرح کے واقعات یہاں بھی پیش آئے ۔ ایک رضاکار تنظیم سے وابستہ نذیر شیخ کہتے ہیں:"ضحی پورہ میں رہنے کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا ہمارے لئے عام بات ہے۔ رکشہ ڈرائیور یہاں آنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں، اگر کوئی آنے کے لئے تیار ہو بھی جائے تو ہمارا غیر مسلم حلیہ دیکھ کرمشورتاً کہتے ہیں:’اس طرح کے علاقے میں کیوں رہتے ہو؟ یہ محفوظ نہیں ہے‘۔ موبائل ایپ پر آپ ٹیکسی بک کریں تو کچھ دیر میں ٹیکسی ڈرائیور خود ٹرپ کینسل کر د یا کرتا ہے ۔ گجرات کی سیاست پر نظر رکھنے والے شارق لالی والا کا کہنا ہے کہ:’جب یہاں کے نوجوان کام کے انٹرویو کیلئے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ بھی امتیازی سلوک ہوتا ہے۔وہ کہتے ہیںکہ :’وہ اپنا اصل پتہ بتانے سے ڈرتے ہیں ، بناءبریں اپنے رشتہ داروں کا پتہ دینا پسند کرتے ہیں۔اگرچہ گوشت خوری کے شوقین ہندوؤں کے لئے ’ضحی پورہ ‘ کی ریستوران ، ہوٹل ، کباب نہاری اور قورمہ کی دکانیں اور ٹھیلے کسی ’فوڈ ہب‘ سے کم نہیں ہے۔ سماجی علوم کے جانکار اچیوت یاگنک کہتے ہیں کہ:’ضحی پورہ ‘ میں مسلمانوں کا سماجی ہی نہیں؛بلکہ سیاسی تقسیم بھی ہوئی ہے ‘۔ وہ کہتے ہیں کہ:’موجودہ سیاسی نظام میں مسلمانوں کو دوئم درجہ کا شہری سمجھا جاتا ہے‘ ۔1973 میں سابرمتی ندی میں سیلاب آیا تھا، اس وقت دو ہزار سے زائد بے گھر ہندو اور مسلم خاندانوں کو بسانے کے لئے حکومت نے احمد آباد شہر کے مغرب میں ایک جگہ دی تھی۔ یہان پر قائم بستی نے ’ضحی پورہ ‘ کا نام اختیار کرلیا ۔لیکن گجرات میں 1985، 1987 اور 1992 کے فسادات کی وجہ سے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان ایک خلیج پیدا ہو گئی۔ 2002 کے گودھراسانحہ کے بعد اس خلیج کو اور بھی گہرا کر دیا۔ شہر کے جن علاقوں میں کم تعداد میں مسلمان رہتے تھے سب سے زیادہ ان نقصان اٹھانا پڑا؛ اسی لیے محفوظ ’پناہ گاہ ‘ کی تلاش میں مسلمانوں نے ’ضحی پورہ ‘کا رخ کیا۔ احمد آباد کے نورنگ پورہ ا اور پالڑی جیسے علاقوں میں رہنے والے تعلیم یافتہ ، متمول اور امیر مسلمانوں نے بھی عدم تحفظ کے احساس میں ’ضحی پورہ ‘ گاؤں کا ہی رخ کیا ۔ اس کے علاوہ 2002 میں دیگر اضلاع میں فسادات کے متاثرین مسلمانوں نے ’ضحی پورہ ‘ میں پناہ لی اور آہستہ آہستہ ’ضحی پورہ ‘ گاؤں ایک بڑی مسلم آبادی میں بدل گئی؛ تاہم ’ضحی پورہ ‘ کی شناخت شہر کے اندر ایک دوسرے ہی شہر کے طور پر ہی کی جاتی ہے ۔احمد آباد ایریا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے تحت آنے والے’ضحی پورہ ‘ کو 2007 میں احمد آباد میونسپل میں شامل کر دیا گیا لیکن اب بھی وہاں بنیادی سہولیات کی کمی صاف نظر آتی ہے۔ ’ضحی پورہ ‘میں واقع کريسنٹ اسکول کے ٹرسٹی آصف خان پٹھان کہتے ہیں کہ:’موجودہ سیاسی منظر نامے میں ہم پسماندہ نہیں ؛ بلکہ پسماندہ کے دائرہ سے بھی باہر ہوگئے ہیں ۔ بی جے پی اورکانگریس دونوں میں سے کسی بھی پارٹی کو ہماری فکر نہیں ہے، جو کرنا ہے ہمیں خود ہی کرنا ہے‘۔ وہیں گجرات کانگریس کے ترجمان منیش دوشی کہتے ہیں:’اقلیتی اسکالرشپ اور تعلیمی حق کے لئے کانگریس نے کئی بار آواز اٹھائی ہے، میں خود اس کے لئے دھرنے پر بیٹھا ہوں‘۔ مقامی غریب طلباءکو داخلہ میں مدد ملے، اس کے لئے کانگریس نے خصوصی انتظام کیا ہے ، ہم اپنے کام اور 72 ہزار روپے کی سالانہ امداد’نیاے‘ منصوبہ لے کر عوام کے درمیان جائیں گے‘ ۔گجرات میں کانگریس فی الحال اپوزیشن میں ہے اور اس کا مسائل کو لے کر’ضحی پورہ ‘ کے عوام کے درمیان جانا سمجھا جا سکتا ہے. لیکن کیا ہندوتو کے نظریہ سے متاثر بی جے پی صدر امت شاہ اس علاقہ میں انتخابی تشہیر کے لیے آئیں گے ؟ یہ سوال بہت ہی اہم ہوگا ۔ اس سوال کے جواب میں بی جے پی کے ترجمان بھرت پنڈیا ٹال مٹول کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ:’جے پی ’سب کا ساتھ اور سب کا وکاس‘ کی پالیسی پر چلتی ہے. ہمارے نمائندے جیتے یا ہارے، وہ ہمیشہ عوام کے درمیان رہتے ہیں اور ان کی خدمت کرتے ہیں، ہم نظرانداز نہیں کرتے ہیں اور تقسیم کے نظریہ کو بھی قبول نہیں کرتے ہیں ۔ سینئر صحافی منور پتنگ والا کہتے ہیں کہ:’ضحی پورہ ‘ میں متعدد تعلیم یافتہ، ڈاکٹر، وکیل اور امیر طبقے کے لوگ رہتے ہیں اور بی جے پی کو ان ذریعہ ’ضحی پورہ ‘ کے عوام تک پہنچنے کی کوشش ضرور کرنی چاہئے‘ ۔ وہ کہتے ہیں کہ :’بی جے پی سب کا ساتھ سب کا وکاس کی بات تو کرتی ہے لیکن ان کے نظریات میں یہ بات نظر نہیں آتی ہے ، اس لئے لوگوں کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں بچتا ہے۔ ’ضحی پورہ ‘ میں ایک خاص قانون لاگو ہوتا ہے۔ یہ قانون شہر میں ہندو مسلم کی ایک ساتھ مل جل کر رہنے میں تو آڑے آتا ہی ہے ؛بلکہ اس علاقہ کی ترقی میں بھی رکاوٹ ہوتا ہے ، اس قانون کو ’ پریشان کن‘، یا ہنگامہ خیز علاقہ ایکٹ کا نام دیتے ہیں۔ اس کے تحت ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمان اور مسلم اکثریتی علاقوں میں ہندو براہ راست املاک نہیں خرید سکتے ہیں ۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ مسلمان خریدار ہندو اکثریتی علاقہ میں ا علیٰ قیمت دے کر بھی املاک نہیں خرید سکتے، اسی طرح مسلم اکثریتی علاقہ میں ہندوؤں کو جائیداد خریدنے کے لئے طویل قانونی کاروائی سے گزرنا پڑتا ہے اور ضلع کلکٹر سے منظوری لینی پڑتی ہے۔ یہ قانون یہاں دوسرے مذاہب پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ یہ قانون 1991 سے گجرات میں ہے اور نریندر مودی کے 13 سال تک وزیر اعلی رہنے کے باوجود اسے تبدیل نہیں کیا گیا۔ گزشتہ سال احمد آباد کے 770 نئے علاقوں کو اس قانون کے اندر لایا گیا ہے۔ ’ضحی پورہ ‘ بنیادی سہولیات کی کمی رہی ہے، لیکن آصف سید کہتے ہیں کہ آہستہ آہستہ صورتحال بدل رہی ہے اور اب یہاں قومی بینکوں کی کئی برانچ کھلی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ :’پہلے یہاں نیشنل بینک کی برانچ نہیں تھیں اور لون لینے میں کافی دقت ہوتی تھی‘ ۔وہیں اچیوت یاگنک کہتے ہیں کہ:’ 2002 کے فسادات کے بعد ’ضحی پورہ ‘ جیسے دوسرے مسلم بستیوں میں تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھی ہیں اور لوگوں میں تعلیم کا معیار بہتر ہوا ہے ، اور ساتھ ہی ساتھ بیداری بھی آئی ہے ۔ صحافی منور پتنگ والا کہتے ہیں کہ جب امیت شاہ سرخیز سے الیکشن لڑتے تھے تب بھی وہ انتخابی تشہیر کے لیے ’ضحی پورہ ‘ کا دورہ نہیں کرتے تھے ۔ 2012 میں امت شاہ نے نو تشکیل شدہ نارن پورہ سے الیکشن لڑا تھا،سر حد بندی کی وجہ سے ان کی جیت کا فرق 60 ہزار ہو گیا تھا، فی الحال نارن پورہ سیٹ گاندھی نگر لوک سبھا علاقہ میں آ گئی ہے۔ دیکھا جائے تو اگر گجرات کو ہندوتو کی لیبارٹری کہا جاتا ہے تو اس استعمال کا مرکز گاندھی نگر ہی رہا ہے۔ اس انتخابی حلقے میں 1989 سے الیکشن یکطرفہ رہے ہیں جس میں بی جے پی کے امیدوار بڑے فرق سے جیت درج کرتے رہے ہیں۔ یہ ایک وی آئی پی انتخابی حلقہ بھی رہا ہے جہاں سے اٹل بہاری واجپئی، لال کرشن اڈوانی اور شنکر سنگھ واگھیلا (جب بی جے پی میں تھے) جیتتے رہے تھے۔ یہاں کی مسلمان آبادی کو دیکھتے ہوئے احمد آباد میں بہت سے لوگ ’ضحی پورہ ‘ کے لئے ’ منی پاکستان‘ لفظ کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ ٹھاکر اور پاٹی دار کمیونٹی کی اکثریتی والے علاقے وےجل پورہ سے ’ضحی پورہ ‘ کو الگ کرنے والے راستے، گلیاں، دیوار اور میدان کو مقامی لوگ’ سرحد ‘ کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ یہ سرحد ’ضحی پورہ ‘ کو جغرافیہ اور سماجی طور پر الگ رکھتی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ یہ اس علاقہ میں رہنے والو کو ذہنی طور پر بھی ایک دوسرے سے الگ کردیا ہے ۔ لالی والا کہتے ہیں کہ :’ ہندو اور مسلم بچے ساتھ میں پڑھیں، کھیلیں اور ان کے درمیان بات چیت ہو تو’ضحی پورہ ‘ میں رہنے والے لوگ اور احمد آباد کے دوسرے علاقہ کے لوگوں کے درمیان کی بنائی گئی یہ خلیج اور غیر مرئی ’سرحد‘ ختم ہوسکتی ہے ،حالانکہ وہ مانتے ہیں کہ آنے والے دس سالوں میں انہیں ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔