تاریخ وفات- ٢٢ / اپریل / ٢٠١٦/ صدائے وقت۔
*اردو کی ممتاز ادبی شخصیت، نقاد، اور مشاعروں میں اپنے منفرد فن معیارِ نظامت کے لیے مشہور شاعر” ملک زادہ منظورؔ احمد “ ...*
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
نام *ملک زادہ منظور احمد* ،تخلص *منظورؔ* ہے ۔ *١٧ اکتوبر، ١٩٢٩ء* کوفیض آباد/امبیڈکرنگر ضلع کے کچھوچھہ سےمتصل ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کاخاندان ایک سادات گھرانہ ہے ۔
ملک زادہ نے تین مختلف شعبوں، یعنی انگریزی، تاریخ اور اردو میں ایم اے کیا۔ انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد: فکروفن کے عنوان سے مقالہ تحریر کرکے پی ایچ ڈی مکمل کی۔
ملک زادہ ۔ 1952ء میں
جارج اسلامیہ کالج، گورکھپور میں تاریخ کے لیکچرر بنے۔ اس کے بعد 1964ء تک وہ انگریزی ادبیات کے لیکچرر بنے۔ 1964ء سے 1968ء تک ریڈر، صدر شعبہ اور پروفیسر بنے۔ وہ 1990ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے سبکدوش ہوئے۔
*ملک زادہ منظور، ٢٢ اپریل ٢٠١٦ء* کولکھنٶمیں انتقال
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
نام *ملک زادہ منظور احمد* ،تخلص *منظورؔ* ہے ۔ *١٧ اکتوبر، ١٩٢٩ء* کوفیض آباد/امبیڈکرنگر ضلع کے کچھوچھہ سےمتصل ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کاخاندان ایک سادات گھرانہ ہے ۔
ملک زادہ نے تین مختلف شعبوں، یعنی انگریزی، تاریخ اور اردو میں ایم اے کیا۔ انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد: فکروفن کے عنوان سے مقالہ تحریر کرکے پی ایچ ڈی مکمل کی۔
ملک زادہ ۔ 1952ء میں
جارج اسلامیہ کالج، گورکھپور میں تاریخ کے لیکچرر بنے۔ اس کے بعد 1964ء تک وہ انگریزی ادبیات کے لیکچرر بنے۔ 1964ء سے 1968ء تک ریڈر، صدر شعبہ اور پروفیسر بنے۔ وہ 1990ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے سبکدوش ہوئے۔
*ملک زادہ منظور، ٢٢ اپریل ٢٠١٦ء* کولکھنٶمیں انتقال
کر گئے۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
*معروف شاعر ملک زادہ منظورؔ احمد کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت...
اب دیکھ کے اپنی صورت کو اک چوٹ سی دل پر لگتی ہے
گزرے ہوئے لمحے کہتے ہیں آئینہ بھی پتھر ہوتا ہے
---
*انہیں ٹھہرے سمندر نے ڈبویا*
*جنہیں طوفاں کا اندازا بہت تھا*
---
بے چہرگی کی بھیڑ میں گم ہے مرا وجود
میں خود کو ڈھونڈھتا ہوں مجھے خد و خال دے
---
چہرے پہ سارے شہر کے گرد ملال ہے
جو دل کا حال ہے وہی دلی کا حال ہے
---
جن سفینوں نے کبھی توڑا تھا موجوں کا غرور
اس جگہ ڈوبے جہاں دریا میں طغیانی نہ تھی
---
خواب کا رشتہ حقیقت سے نہ جوڑا جائے
آئینہ ہے اسے پتھر سے نہ توڑا جائے
---
*دریا کے تلاطم سے تو بچ سکتی ہے کشتی*
*کشتی میں تلاطم ہو تو ساحل نہ ملے گا*
---
دورِ عشرت نے سنوارے ہیں غزل کے گیسو
فکر کے پہلو مگر غم کی بدولت آئے
---
*دیوانہ ہر اک حال میں دیوانہ رہے گا*
*فرزانہ کہا جائے کہ دیوانہ کہا جائے*
---
*رسمِ تعظیم نہ رسوا ہو جائے*
*اتنا مت جھکئے کہ سجدہ ہو جائے*
---
زندگی میں پہلے اتنی تو پریشانی نہ تھی
تنگِ دامانی تھی لیکن چاک دامانی نہ تھی
---
نہ خوف برق نہ خوف شرر لگے ہے مجھے
خود اپنے باغ کو پھولوں سے ڈر لگے ہے مجھے
---
وہی قاتل وہی منصف عدالت اس کی وہ شاہد
بہت سے فیصلوں میں اب طرف داری بھی ہوتی ہے
---
*کچھ غمِ جاناں کچھ غمِ دوراں دونوں میری ذات کے نام*
*ایک غزل منسوب ہے اس سے ایک غزل حالات کے نام*
---
کھل اٹھے گل یا کھلے دست حنائی تیرے
ہر طرف تو ہے تو پھر تیرا پتا کس سے کریں
گزرے ہوئے لمحے کہتے ہیں آئینہ بھی پتھر ہوتا ہے
---
*انہیں ٹھہرے سمندر نے ڈبویا*
*جنہیں طوفاں کا اندازا بہت تھا*
---
بے چہرگی کی بھیڑ میں گم ہے مرا وجود
میں خود کو ڈھونڈھتا ہوں مجھے خد و خال دے
---
چہرے پہ سارے شہر کے گرد ملال ہے
جو دل کا حال ہے وہی دلی کا حال ہے
---
جن سفینوں نے کبھی توڑا تھا موجوں کا غرور
اس جگہ ڈوبے جہاں دریا میں طغیانی نہ تھی
---
خواب کا رشتہ حقیقت سے نہ جوڑا جائے
آئینہ ہے اسے پتھر سے نہ توڑا جائے
---
*دریا کے تلاطم سے تو بچ سکتی ہے کشتی*
*کشتی میں تلاطم ہو تو ساحل نہ ملے گا*
---
دورِ عشرت نے سنوارے ہیں غزل کے گیسو
فکر کے پہلو مگر غم کی بدولت آئے
---
*دیوانہ ہر اک حال میں دیوانہ رہے گا*
*فرزانہ کہا جائے کہ دیوانہ کہا جائے*
---
*رسمِ تعظیم نہ رسوا ہو جائے*
*اتنا مت جھکئے کہ سجدہ ہو جائے*
---
زندگی میں پہلے اتنی تو پریشانی نہ تھی
تنگِ دامانی تھی لیکن چاک دامانی نہ تھی
---
نہ خوف برق نہ خوف شرر لگے ہے مجھے
خود اپنے باغ کو پھولوں سے ڈر لگے ہے مجھے
---
وہی قاتل وہی منصف عدالت اس کی وہ شاہد
بہت سے فیصلوں میں اب طرف داری بھی ہوتی ہے
---
*کچھ غمِ جاناں کچھ غمِ دوراں دونوں میری ذات کے نام*
*ایک غزل منسوب ہے اس سے ایک غزل حالات کے نام*
---
کھل اٹھے گل یا کھلے دست حنائی تیرے
ہر طرف تو ہے تو پھر تیرا پتا کس سے کریں