Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, April 4, 2019

دینی و ملی تنظیموں اور اہل علم کی تنقیص مسلم سماج کا رِستا ہوا ناسور۔!!!

تحریر/مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی۔۔۔۔سکریٹری مسلم پرسنل لاء بورڈ۔/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
*مسلم عوام کوعلماء اور داعیان دین سے کاٹنااور ان دونوں طبقات کے درمیان خلیج پیدا کرنا دشمنان دین کاپرانا ایجنڈا ہے اور وہ اپنے اس ایجنڈے پر بڑی محنت، اورکدوکاوش کے ساتھ عمل پیرا ہیں، ان پر یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ جب تک عوام کارشتہ علماء سے کمزور نہیں ہوگا اور ان دونوں طبقات کے درمیان فاصلے پیدا نہیں کیے جائیں گے،اس وقت تک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کوششیں کامیاب نہیں ہو ں گی،اور دین کے نام پر پھیلائے جانے والے فتنے فروغ نہیں پا سکیں گے،دشمنان دین کی فکر،ان کی سونچ ، ان کاطرز عمل، اوران کی تگ ودو تو ہے ہی ناپسندیدہ مگر اسے کیا کہیے کہ خود مسلمانوں میں ایک ایساطبقہ پیداہو گیاہے جو نادانستگی میں اسی راہ کاراہی اور اسی دشت کاسیاح بنتاجارہاہے،ایک ایساطبقہ جس کی زبان سے ان کے اپنے اکابر علماء اور دین وملت کی بیش بہا اور بلند قامت شخصیا ت کی عزت محفوظ نہیں، اور جن کے قلم اپنے ہی بڑوں کے خلاف شمشیر برہنہ بنے ہوئے ہیں،سوشل میڈیا پر لکھنے والے کچھ ایسے جیالے ہیں جو ’’صحت مند تنقید ‘‘کے نام پر کارگزارعلماء سے نفرت کا زہر پھیلا رہے ہیں اورعوا م کے ذہنوں کوخدام دین کے سلسلے میں برگشتہ کرنے کی مہم چلارہے ہیں، بظاہر ان کاسراپاعالمانہ ہے اوران کی زبان پر دین و ملت کی خدمت کے حسین نعرے ،لیکن خوش نما نعروں اوردعوؤں کے پیچھے جواصل حقیقت چھپی ہوئی ہے، وہ کچھ اور ہر عام مسلمانوں کو علماء وقائدین سے بدظن کرنا٬ملت کے خدمت گاراداروں پر کیچڑ اچھالنا ،خدام دین کی نیتوں اور ان کی خدمات پر سوالیہ نشان لگانا،اور اہلﷲ اور بزرگان دین پر الزام تراشی کرنا،خدمت دین کاکون سا شعبہ ہے ؟کیا اس سے ملت کابھلاہوگا یا ملت کوسخت نقصان پہو نچے گا؟ اس پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔*
*دین متین کی خدمت کرنے والے علماء،چراغ د ل جلا کر شاہراہ خدمت کو روشن کرنے والےاکابر ،اپنے آشیانوں کو پھونک کر زمانے کوروشنی بخشنے والے قائدین نہ تو معصوم ہیں اور نہ پیغمبر کی طرح لائق اتباع ،وہ بھی انسان ہیں ، خطا کرنے والے ، نفس وشیطان اور ماحول کے فتنوں سے متاثر ہوجانے والے،کبھی ان کے قدم بھی غلط سمت میں اٹھ جاتے ہیں،کبھی رائے یاعمل کی غلطی ان سے بھی ہو جاتی ہے، لیکن کیا کسی ایک غلطی کی وجہ سے ساری زندگی کی خدمات کونظر انداز کر دیا جائے گا؟کیا رائے یا عمل کی خطا کے سبب ان کی تمام قربانیوں کو بھلا دیا جائے گا؟کیا کسی ایک غلطی کو بنیادبنا کر ان کی کردار کشی کی مہم چلائی جائے گی؟کانوں کوسننے کے لیے یہ بات بہت بھلی لگتی ہے کہ زندہ قوموں اورملتوں میں ’’صحت مندتنقید‘‘کا سلسلہ جاری رہناچاہئے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ’’صحت مند تنقید‘‘ کے نام پر الزامات کی بوچھاراورکسی مفروضہ غلطی پر سنان لسان و قلم کاوارجائز قراردیاجاسکتاہے؟عجیب بات ہے کہ تنقید کے نام پر تنقیص اور سوال کے عنوان سے تذلیل و توہین کابازارگرم ہے اور اس کھلی ہوئی بے دینی پر یہ کہہ کر دینداری کاغلاف چڑھا دیاجاتاہے کہ’’ہماری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایک ادنی مسلمان امیرالمؤمنین حضرت عمر ابن خطاب رضی ﷲ عنہ کو برسر منبر ٹوکتا ہے اوران کااحتساب کرتا ہے ‘‘کوئی شبہ نہیں کہ یہ تاریخ اسلامی کا زرین واقعہ ہے،اور بعد والوں کے لیے مشعل راہ اور مینارہ نور !مگر اس پر غور کیوں نہیں کیا جاتاکہ حضرت عمر ابن خطاب رضیﷲ عنہ کا ایک ایسا عمل جو بظاہرعدل کے خلاف معلوم ہو رہاتھا ،پوچھنے والوں نے خودان سے اس عمل کے بارے میں سوال کیا اور جب جواب مل گیا تو فوراً پکار اٹھاکہ نسمعُ ونطیع (ہم سنیں گے ہم بات مانیں گے)کیا اس میں اس بات کی رہنمائی نہیں ہے کہ جب کسی معاملے میں شبہ پیدا ہو جائے توخود صاحب معاملہ سے پوچھ لیا جائے اور اگر جواب معقول اور اطمینان بخش ہو تو فوری طور پر اپنا شبہ دور کر لیاجائے،اور صاحب معاملہ کے شخصی احترام اوران سے محبت وعقیدت میں کوئی کمی نہ آنے دی جائے۔اس واقعہ سے استدلال کر کے ملت کے خدمت گذاراداروں اور دین متین کے بے لوث سپاہیوں کے خلاف زہرکی کاشت اور نفرت کا بیوپار کرنے والے ’’نام نہاد اسلامی اسکالرس‘‘غور فرما لیں کہ حضرت عمر سے سوال کرنے والے شخص اور خود ان کے طرز عمل میں کتنافرق ہے۔؟؟؟وہاں صاحب معاملہ سے سوال کیا جارہاہے،اور یہاں صاحب معاملہ کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں اور اس کے خلاف اخبارات کے صفحے کے صفحے سیاہ کیے جارہے ہیں، سوشل میڈیا پر زبان و قلم کا زور دکھایا جا رہا ہے، کسی نے ذاتی اغراض و مفادات یاحسد اور بغض کی بناء پر کسی صاحب علم ، صاحب بصیرت و فراست عالم دین پر ایسے الفاظ پر مشتمل مضمون لکھا جسے پڑھ کر ذوق سلیم کو اُبکائی آنے لگے اور ’’صحت مند تنقید کے علمبرداروں ‘‘اور’’نام نہاد اسلامی اسکالرس ‘‘نے اسےسوشل میڈیا کے مختلف اکاؤنٹس پر بلاتحقیق نشر کرکے ’’ثواب دارین ‘‘حاصل کرناشروع کر دیا، سونچئے اور دل پر ہاتھ رکھ کر سونچئے کیا یہی دین کی تعلیم ہے؟کیا اسی کا نام دیانت ہے ؟ کیا یہی طر ز عمل دین و ملت کے حق میں مفید ہے؟؟؟*
*قرآن و حدیث میں جا بجااحترام مسلم کی تعلیم دی گئی ہے ،کینہ کپٹ ،بغض و حسد ،ریاکاری و منافقت ،عیب جوئی وبد گوئی سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے، ظن و تخمین کے گھوڑے دوڑانا، رائی کاپربت بنانا،مسلمان کی عزت وناموس سے کھلواڑ کرنا،یہ سب ازروئے قرآن و سنت منع ہے،مسلمان کی عزت و ناموس ﷲ پاک کی نگاہ میں اتنی عزیز ہے کہ اس کی بےحرمتی کو سب سے بڑ ا سود قراردیاگیا ہے۔(اِنَّ اَرْبَی الرِّبَااَلاسْتِطَالَۃُفِیْ عِرْضِ الْمُؤمِنِ)اور اس عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے چاروں طرف سے حصار کھڑے کئے گئے کہ کسی مسلمان کے بارے میں بر ی بات نہ سونچی جائے(ظَنُّوابِالْمُؤمِنِیْنَ خَیْرًا)کسی کامذاق نہ اڑایا جائے، (لَایَسْخَرْقَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسیٰ اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْراً مِّنْھُمْ) کسی کوبرے لقب سے یا د نہ کیا جائے(لَاتَنَابَزُوْابِالْاَلْقَاب)کسی پہ تہمت نہ لگائی جائے، کسی کو عار نہ دلائی جائے۔(لَاتُعَیِّرُوْھُمْ) اور نہ زبان سے کسی کے بارے میں کوئی براکلمہ نکالا جائے ( لَایَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا)کسی کے عیب کی تلاش نہ کی جائے( لاَتَتَّبِعُوْاعَوْرَاتَھُمْ  )اورنہ کسی مسلمان کو اپنے طرز و اندازسے تکلیف پہنچائی جائے۔ (لَا تُوْذُوا الْمُسْلِمِیْنَ )اب ان تمام تعلیمات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صر ف اپنی انانیت کی بنیادپر ،یاحسد وبغض کے سفلی جذبات کی تسکین کے لیے اگر کسی مسلمان کی عزت سےکھلواڑ کیاجاتاہے تو یہ دین نہیں بے دینی ہے،یہ اخلاق نہیں کھلی ہوئی بد اخلاقی ہے،یہ شرافت نہیں دناءت ہے،یہ دین کی خدمت نہیں دنیاوآخرت کی بربادی کاسودا ہے،حضوراکرم ﷺ جب معراج کے سفر پرتشریف لے گئے تو آ پ کا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اوروہ اپنے ناخنوں سے اپنے چہروں اورسینوں کو نوچ رہے تھے حضور اکرمﷺ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبرئیل نے عرض کیا کہ یہ لوگ (دنیا میں)دوسروں کی آبروریزی کرتے تھے، اور ان کے عیب تلاش کر کے لوگوں کے سامنے پیش کیاکرتے تھے،یہ توآخرت کی سزا ہے ،دنیا کی سزا کے بارے میں ترمذی شریف کی ایک حدیث میں نقل ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے عیب کے پیچھے نہ لگو، اس لیے کہ جو اپنے مسلمان بھائی کے عیب کے پیچھے لگتاہے ،ﷲ تعالیٰ اس کے عیب کے پیچھے لگ جاتا، اور جس کے عیب کے پیچھے ﷲ تعالیٰ لگ جاتاہے اسے گھر بیٹھے ذلیل و رسوا کر دیتاہے۔ (ترمذی شریف) عیب تلاش کرنے والے کے لیے تباہی اور بربادی کا ذکرخود قرآن پاک میں ہے،خرابی اورتباہی ہے عیب ٹٹولنے والے چغلی کھانے والے کے لیے (وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃ) قرآ ن پاک میں حضرات صحابہ کی شان میں یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے لیے نرم اور کافروںکے لیے بڑے سخت ہیں(اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِرُحَمَائُ بَیْنَھُمْ )یہ صرف صحابہ کی تعریف نہیں ہے بلکہ اہل ایمان کے لیے رہنمااصو ل ہے کہ ان کی سختی کافروں کے لیے ہواور آپس میں ایک دوسرے سے ان کارشتہ اخوت ، مروت،شرافت اوررحم دلی کاہو، وہ احترام اور اعتراف کی راہ پر چلیں نہ کہ تردید و تنقیص کے راستے پر،وہ دوسروں کو عزت دیناسیکھیں نہ کہ دوسروں کی آبروریزی اور کردار کشی کریں، ان کامزاج عفو درگذر کا ہو، عا ر دلانے اور شکست حوصلہ کرنے کانہیں٬انسانیت تویہی ہے کہ انسان کے اندردوسروں کااحترام ، اور ان کی خوبیوں اورخدمات کے اعتراف کاجذبہ ہو، اور وہ دوسروں کے لیے وہی چیز پسند کرے جوخود اپنے لیے پسند کرتاہے ؎*
*باخبر شو از مقام آدمی*
*آدمیت احترام آدمی*
*(انسان کے مقام سے آشنا ہو جاؤ ،انسانیت یہ ہے کہ انسان کا احترام کیا جائے)*
*زبان و قلم کی صلاحیت خدا تعالیٰ کی نعمت ہے ، بیش قیمت بھی بے بہا بھی!ان نعمتوں کا استعمال خیر کے کاموں میں ہو تو نورٌ علی نور بلکہ مجموعۂ انوار،اور اگر زبان و قلم کی نعمتوں کو خواہشات نفس کے تابع بنادیا گیا  اور تخرب و تعصب کی راہ اپنائی گئی تو پھر یہ نعمتیں وبال جان،وجہ زوال و خسران!جنہیں یہ نعمت ملی ہے وہ احتساب کرتے رہیں کہ جادۂ حق پر ان کے قدم بڑھ رہے ہیں یا شر پر؟ ان کی منزل فانی دنیا ہے یا لازوال آخرت؟ان کا سفر خدمت ربانیت و للہیت کے    زیر سایہ انجام پارہا ہے یا اغراض و سفلی جذبات کی سیاہ چادر اس پر تنی ہوئی ہے؟وہ رحمن کے بندے بن کر جی رہے ہیں یا شیطان کے ہرکارے اور نمائندے؟؟ زبان و قلم کی صلاحیت کامل جانا کمال نہیں ہے ان دونوں صلاحیتوں کا محتاط، متوازن اور مثبت استعمال کمال ہے، ان دونوں ہتھیاروں سے لیس ہوکر جب انسان قدم آگے بڑھاتا ہے تو ہاتفِ غیبی کی ندا اس کے کانوں میں آتی ہے ۔؂*
*نہ سنو گر برا کہے کوئی*
*نہ کہو گر برا کرے کوئی*
*روک لو گر غلط چلے کوئی*
*بخش دوگرخطاکرےکوئی*
تحریر/ مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی _
(سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ)
                  ٭…٭…٭