Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, April 6, 2019

جمہوریت کی خاطر!!


عزیز اعظمی اصلاحی / صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
ہمارا ملک ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک تو ہے لیکن اس میں جہموریت کی پاسداری کتنی ہے ، اس میں شفافیت کہاں تک ہے ، آئین و قانون کی بالادستی میں سیاسی ڈیکٹیٹر شپ کی آمیزش کتنی ہے وہ اس ملک کے اداروں کے کردار اور حکومت کے معیار  سے صاف ظاہر ہے ۔۔ جب ادارے آزاد ہونے کے بجائے ماتحت ہو جائیں ، حکومت انصاف کرنے بجائے تنگ نظر ہو جائے ، عوام ڈر اور خوف میں سوال کرنے کے بجائے مصلحت پسند ہو جائے تو جمہوریت کا سارا حسن اور اس کا سارا جمال اس خوبصورت عورت کی طرح ماند پڑ جاتا ہے جس پر اس کے جنونی اور بد دماغ عاشق نے یہ کہہ کر تیزاب چھڑک دیا ہو کہ تم پر حق صرف میرا ہے کسی اور کا نہیں ، ٹھیک اسی طرح جیسے حکومت اور سیاست یہ کہہ کر جمہوریت ، آئین و قانون کا گلہ گھونٹ دے کہ حکومت پر حق صرف زعفرانیت کا ہے کسی اور کا نہیں ، جنونیت اور انا پرستی کے اس نشے میں نقصان صرف اور صرف اس عوام اور اس ملک کا ہے جس کے خوبصورت  چہرے پر  نفرت و عداوت کا تیزاب چھڑک کر جلا دیا گیا ہو ۔

ایسی ذہنیت اور جنونیت  ملک و معاشرے کے لئے کسی طور سود مند نہیں جو محبت اور اعتماد جیتنے کے بجائے اس پر زبردستی قابض ہونے کا ہر حربہ استعمال کرے ، اپنے اہداف کی تکمیل کے لئے صرف آئین و قانون ہی نہیں بلکہ انسانیت کو روند کر ملک کے نظام اور اسکے تانے بانے کو بکھیر دے ، اداروں کو خرید لے ، ملک کی عظمت و حشمت کو بیچ دے ، تو پھر عوام کو چاہئے کہ موقع آنے پر جمہوریت کے تحفظ ، آئین و قانون  کی بقاء ،  ملک کی عزت ، عظمت کی خاطر ایسی حکومت و سیاست کو اکھاڑ پھینکے جو ملک کو آئین و قانون پر رکھنے کے بجائے جانوروں کے سنگھ پر رکھنا چاہے ۔۔

ایسی ذہنیت اور جنونیت کو شکست فاش دینے کے لئے اپنے ووٹ اور اتحاد پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ان اداروں کے کردار ، جانبدارانہ رویوں اور غلط بیانیوں پر بھی نظر رکھے  جو موجودہ حکومت میں آئین و قانون کے ماتحت نہیں بلکہ مودیت کے اسیر ہیں ۔ ہم صرف  اپنے ووٹ اور متزلزل اتحاد کے سہارے مخالف کو ہرانا چاہتے ہیں اور مخالف اپنے مضبوط ووٹ ، نوٹ ،  مشین ،  ادارت اور صحافت کے ذریعہ جمہوریت کو ہرا کر ملک پر قابض ہونا چاہتا ہے ۔ اس بات کو جانتے ہوئے بھی کہ سیکولرازم نے ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا ، ہمارے اوپر ہوتے ہو مظالم پر صدائے حق بلند نہیں کی ، یہ جانتے ہوئے کہ سیکولرازم  ہمارے تحفظ کا قلعہ نہیں ، ہماری ترقی و ترویج کا ضامن نہیں ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ سیکولرازم نے ہمارے امیدواروں کے خلاف اپنے امیدوار اتار دیئے ، یہ جانتے ہوئ بھی کہ سیکولرازم مسلم قیادت کے حق میں نہیں  لیکن ملک کی بقاء اور  جمہوریت کے تحفظ کے لئے آخری کیل ضرور ہے اس لئے ہمیں صبر کے سارے گھونٹ پی کر ، مسلم قیادت کی اپنی ساری حکمت عملی کو صرف اس الیکشن کے لئے روک کر جہاں جہاں مسلم قیادت کے امیدوار جیتنے کی پوزیشن میں ہیں وہاں پرزور انکی حمایت و تائید کر تے ہوئے اپنے ایک ایک ووٹ کی قدر و منزلت کو سمجھتے ہوئے انکا ساتھ دیتے ہوئے ، سیکولرازم  کی غلطیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ، آپسی سارے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیں متفقہ طور پر ایسی باطل طاقتوں کو شکستہ فاش دینا پڑے گا جو صرف ملک کے امن و امان کو ہی نہیں ، اخوت و محبت کو نہیں اس عظیم ملک کے آئین و قانون اور معزز اداروں کے وقار کو بھی مجروح کررہی ہے جس پر سوا سو کروڑ عوام کا اعتماد قائم ہے ، اس ملک کے صاف شفاف اداروں کو سیاسی اثر و رسوخ اور پیسے کے زور پر بدعنوان بنا رہی ہے جس پر اس ملک کی جمہوریت کی بنیاد کھڑی ہے  ۔

پچھلے چند سالوں میں ریاست اور صحافت نے سیاسی ماتحتی کا شکار ہوکر اپنا جو کردار پیش کیا ہے جس سے ان ضمیر فروش نوکروں ، چاکروں ، اداکاروں کی صحت اور کردار پر کوئی اثر تو نہیں لیکن ملک کے  ان باوقار اداروں کی عزت و عظمت پر ایک بد نما داغ ضرور ہے جو عوام کے حقوق انکی جان و مال کے تحفظ کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی بقاء اور استحکام کے لئے بنائے گئے ہیں ۔   

پانچ سال تک قومی اداروں کے کردار کے  بعد ، حکومتی دور کے اختتام کے بعد سب سے آخری اور اہم کردار الیکشن کمیشن کا ہوتا ہے جو ایک ارب بیس کروڑ عوام کے حق رائے دہی کے اعتماد کا محافظ اور پاسبان ہوتا ہے اور جب اس کا کردار بھی مشکوک ہو جائے تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ جمہوریت اپنی آخری سانس لے رہی ہے  ۔ اس جانبدارانہ رویے کی تازہ مثال چند حق پرست اخباروں کے صفحات پر موجود ہے ، حکومت کے کارنامے اور رفائل کی خریداری پر خرد برد کا پردہ فاش کر نے والی کتاب پر الیکشن کمیشن کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نظر آتی ہے اور اس پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے ، لیکن " نمو نامی ٹیلیویژن"'  کی شروعات  اور اس پر حکومتی پیغا مات اور اشتہارات کو راست ٹیلیکاسٹ کرنے پر الیکشن کمیشن کو ضابطہ اخلاق کی کوئی خلاف ورزی نظر نہ آتی ۔ ملک کو سچائی بتانے والی کتاب کو بک اسٹور سے اٹھا لیا جاتا ہے  اور انوپم کھیر جیسے اداکار کی مودی کی زندگی پر بنائی گئی فلم کو ریلیز کر دیا جاتا  جس پر الیکشن کمیشن کو ضابطہ اخلاق کی کوئی خلاف ورزی نظر نہ آتی اداروں کے ایسے کردار اور ایسے حالات میں ہماری ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے کہ ملک کی جمہوریت  کو باطل طاقتوں سے بچایا جائے ، اسے حکومت سے بے دخل کیا جائے اور ایسا نیا انقلاب لایا جائے کہ پھر کوئی باطل طاقت ملک کے آئین و قانون پر شب خون مارنے کی جرأت نہ کرے  اور یہ کام عوام کے اتحاد کے بغیر ممکن نہین  اگر عوام اپنے ووٹ کے ساتھ متحد ہے باطل کو ہرانے کے لئے پر عزم ہے تو ووٹنگ مشین بھی عوامی فیصلے کے آگے دم توڑ جائے گی ،  لیکن اگر ہم منتشر ہوئے اپنے ووٹ کا بٹوارہ کیا تو پھر اس بار بھی باطل کو اقتدار تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا پھر محکومی اور مظلومی ہمارا مقدر ہوگی ۔