Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, April 1, 2019

ہاں! میں کنھیا کمار ہوں !!

کنھیا کمار

نازش ہماقاسمی / صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
جی بہترین مقرر، سنجیدہ گفتگو کرکے اپنی بات عوام الناس تک پہنچانے والا، نڈر، بے باک، ملنسار، ہنس مکھ، تیکھے نقوش والا ڈاکٹر کنہیا کمار ہوں، ہاں میں حکومت کی ناکامی پر اس سے سوال کرنے والا، فرقہ پرستی سے آزادی کا نعرہ دینے والا، بھگوائیوں کو خوف میں مبتلا کرنے والا،آئین کو بچانے کے لیے جدوجہد کرنے والا، اقلیتوں پر ہورہے مظالم کے خلاف آواز اُٹھانے والا، حکومت کی ناکامی شمار کرانے والا، "بہار سے تہاڑ" کتاب کا مصنف، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی کا سابق طلبہ لیڈر اور بیگوسرائے سے بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا لوک سبھا امیدوار کنہیا کمار ہوں۔ میری پیدائش جنوری ۱۹۸۷ میں بہار کے بیگوسرائے ضلع کے برونی گاؤں سے قریب تیگھرا حلقہ اسمبلی کے بہٹ گرام سی پی آئی کے گڑھ میں ہوئی۔ میں بھومی ہار ذاتی سے تعلق رکھتا ہوں، میرے والد کا نام جے شنکر سنگھ ہے جو فالج کے مریض ہیں اور کافی عرصے سے بستر علالت پر ہیں۔ میری والدہ کا نام مینا دیوی ہے جو آنگن واڑی میں کام کرتی ہیں اور وہاں سے ملنے والی قلیل آمدنی سے مجھے اس قابل بنایا کہ آج میں سینکڑوں نوجوانوں کے دلوں کی آواز بن کر ابھرا ہوں۔ میرے دوبھائی ہیں، ایک کا نام پرنس ہے جو ابھی زیر تعلیم ہے، دوسرے منی کانت ہیں جو آسام کی ایک کمپنی میں سپروائزر ہیں۔ میری ابتدائی تعلیم درجہ ششم تک مسند پور میں ہوئی اس کے بعد برونی آر کے کے سی ہائی اسکول میں داخل ہوا پھر مکاما میں رام رتن سنگھ کالج میں تشنگی بجھائی، ۲۰۰۷ میں کالج آف کامرس، پٹنہ سے بھوگول کی ڈگری حاصل کی۔ کالج آف کامرس میں طلبہ سیاست میں حصہ لیا اور اے آئی ایس ایف میں شامل ہوا اور ایک سال بعد پٹنہ میں طلبہ نمائندہ کے طور پر منتخب ہوا۔ پٹنہ میں دوران تعلیم آل انڈیا اسٹوڈنٹ فیڈریشن کا رکن بنا، پوسٹ گریجویٹ ختم کرنے کے بعد دہلی کی مشہور  یونیورسٹی جے این یو میں افریقن اسٹڈیز کے لیے داخلہ لیا۔ ۲۰۱۵ میں آل انڈیا اسٹوڈنٹ فیڈریشن کا پہلا ایسا رکن منتخب ہوا جو طلبہ یونین کے صدر کے عہدے کے لیے چنا گیا۔ اور اے بی وی پی، این ایس یو آئی، اے آئی ایس ایس، ایس ایف آئی جیسی طلبہ تنظیموں کے امیدوار کو ہراتے ہوئے میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں طلبہ یونین کا صدر منتخب ہوا۔ ۱۲ فروری ۲۰۱۶ کے دن جے این یو میں پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والے افضل گرو کی برسی پر ایک پروگرام تھا میڈیا کے اہلکاروں نے بھی اس پروگرام کو کوریج کیا تھا جس میں مجھے اور میرے دیگر ساتھیوں پر الزام عائد کیا گیا کہ ہم ہندوستان مخالف نعرے لگا رہے تھے اور پاکستانی پرچم لہرا رہے تھے، جس کی وجہ سے۱۳فروری ۲۰۱۶  دہلی پولس نے ہم طلبہ کو آئی پی سی کی دفعات ۱۲۴ اے اور ۱۲۰ بی کے تحت گرفتار کرلیا، پولس عدالت میں ہمارے خلاف عائد الزام کو ثابت نہ کرسکی، ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہی جس کی وجہ سے ۲ مارچ ۲۰۱۶ کو مجھے عبوری ضمانت پر رہائی نصیب ہوئی۔ رہائی کے بعد میں جے این یو آیا اور ایک جوش وجذبے اور ولولے کے ساتھ اپنے معاون دوستوں جس میں عمر خالد، شہلا رشید سرفہرست ہیں کے ساتھ فرقہ پرستوں کے خلاف پوری شدت سے اُٹھا اور فرقہ پرستوں کی نیند حرام کردی۔ میں فرقہ پرستوں کے خلاف بولنے کی وجہ سے جدید ہندوستان کا مجاہد آزادی قرار دیاگیا، بہار کے پچھڑے علاقے میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے والا سنگھرش جہد وجہد کی مثال بن کر ابھرا اور مجھے معذور باپ کا یہ سبق یاد رہا کہ ’خاموشی اس دور میں تمہیں جینے نہیں دے گی، اگر جینا ہے تو کہرام مچا دو‘ پھر میں نے جے این ایو کیمپس میں ترنگا لہراتے ہوئے نعرہ آزادی بلند کیا اورکہا ’’ہم لے کر رہیں گے آزادی، آر ایس ایس سے آزادی، منو واد سے آزادی، سنگھ پریوار سے آزادی، ہم لے کر رہیں گے آزادی، ہاں کہنے کی، نہ کہنے کی آزادی، سنسان سڑک پر آزادی، آدھی رات کو مانگوں آزادی، بس میں مانگوں آزادی، میٹرو میں مانگوں آزادی، ہم لے کر رہیں گے آزادی، منو واد سے آزادی، سوشن سے بھی آزادی، غریبی سے آزادی، بھکمری سے آزادی، ہے حق ہمارا آزادی ہم لے کر رہیں گے آزادی، ہے جان سے پیاری، آزادی، ہے پیاری پیاری آزادی، سب مل کر بولو آزادی، سن لے مودی، آزادی، آر ایس ایس سن لے آزادی، تو موہن بھاگوت سے آزادی، تو منوواد سے آزادی، توڑ پھوڑ سے آزادی، سوٹ بوٹ سے آزادی، لوٹ کھسوٹ سے آزادی، ہم لے کر رہیں گے آزادی، ہے حق ہمارا آزادی، ہم لے کر رہیں گے آزادی، مانگ رہی پوری آبادی آزادی آزادی‘ ‘اور ہمارا یہ نعرہ آزادی ان نوجوانوں کےلیے ہمت وحوصلے کا سبب بنا جو خاموش تھے ہم نے نوجوان دلوں میں روح پھونک دی، ظلم وستم سے سہمے افراد کو اس نعرہ آزادی سے جلا حاصل ہوئی اور وہ ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے۔
ہاں میں وہی کنہیا کمار ہوں جس کی آواز کو دبانے کےلیے میری زبان کاٹ کر لانے والوں کو پانچ لاکھ کا انعام مقرر کیاگیا، مجھے گولی مارنے کےلیے گیارہ لاکھ کا انعام مقرر کیاگیا؛ لیکن میں ڈرا نہیں، سہما نہیں، خوف نہیں کھایا خاموش نہیں ہوا، بلکہ علی الاعلان ان فرقہ پرستوں کو للکارتا رہا اور ان سے کہا تم مجھے ڈرا نہیں سکتے، تم مجھے نہیں مارسکتے تم بزدل ہو تم مجھے مار کر بھی میری آواز دبا نہیں سکتے ایک کنہیا مرے گا اس کی جگہ ہزار کنہیا پیدا ہوں گے، جو تحریک میں نے شروع کی ہے وہ میرے یہاں سے چلے جانے کے بعد بھی تمہارا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ ہاں میں وہی کنہیا کمار ہوں جس نے کہا تھا کہ ہمیں بھارت سے نہیں بھارت کو لوٹنے والوں سے آزادی چاہئے، ہاں میں وہی ہوں جس نے وزیر اعظم کے ٹوئٹ ستیہ میو جیتے پر کہا تھا وزیر اعظم صاحب آپ سے بہت سارے اختلافات ہیں؛ لیکن ستیہ میو جیتے آپ کا نہیں اس ملک کا ہے آئین کا ہے، میں بھی کہتا ہوں ستیہ میو جیتے۔ ہاں میں وہی کنہیا کمار ہوں جس نے نجیب کی والدہ کا ساتھ دیا، اس کے غم میں برابر کا شریک رہا اور نجیب کی بازیابی کے لیے آواز اُٹھاتا رہا، ہاں میں جنید کے قتل پر بھی سسکا، رویا، تڑپا، سیکولرازم کے اماموں کی طرح چپ نہیں رہا، اخلاق اور پہلو خان کے بہیمانہ قتل کے خلاف بھی آواز اُٹھائی، جنید کی لاش کو بھی دیکھ کر سہم گیا تھا اور سوچ لیا تھا کہ ان سب مظالم کا بدلہ لینے کے لیے مجھے اُٹھنا ہوگا میں پہلی بار بہار سے جنرل ڈبے میں دھکے کھاتا ہوا دلی پہنچا تھا؛ لیکن اس بار عوام کے کثیر ووٹوں سے بیگوسرائے کے پچھڑے اور ستائے ہوئے عوام کی محبتوں کی بنا پر ایوان میں گرجوں گا اور حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرکے مظلومین کو انصاف دلانے کی کوشش کروں گا۔ بے روزگاروں کو روزگار فراہم کراؤں گا۔ میرے اعلان الیکشن سے ہی فرقہ پرستوں میں کھلبی مچی ہوئی ہے جو دہلی ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے جایا کرتے تھے آج وہ مارے ڈر اور خوف کے دہلی اپنا ٹکٹ کینسل کرانے جارہے ہیں، جو بات بات پر دوسروں کو پاکستان جانے کا مشورہ دے رہے تھے آج میرے خوف سے منہ چھپائے ہوئے ہیں۔ ان کے خوف نے یہ واضح کردیا ہے کہ میں کامیاب ہوچکا ہوں اور مجھے امید ہے کہ بیگوسرائے کے عوام اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے مجھے اپنا نمائندہ منتخب کرکے ایوان میں بھیجیں گے اور میں پوری طاقت سے مظلوموں کی آواز بن ابھروں گا۔