Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, April 25, 2019

نہاری!!!ایک مشہور و مرغوب ڈش

"= نہاری"=عربی لفظ 'نہار'سےنکلاہے
_____________________صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
لفظ نہاری، عربی لفظ نہار سے نکلا ہے جس کے معنی ہوتے ہیں صبح- لہٰذا نہاری نام سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اسے صبح کے ناشتے میں استعمال کیا جاتا تھا- کہتے ہیں کہ نہاری بنانے کی ابتداء، یا تو جامع مسجد دہلی کی پچھلی گلیوں سے ہوئی، جہاں سے زیادہ تر دہلی والوں کا تعلق ہے یا پھر بہت سے لکھنؤ کے دلدادہ سمجھتے ہیں کہ اس کا آغاز اٹھارویں صدی کے آخر میں مغل سلطنت کے زوال کے بعد، نواب اودھ کے باورچی خانوں سے ہوا-

نہاری کا ذائقہ ہی کچھ ایسا ہے کہ کھانے والے کو نوالہ لیتے ہی احساس ہو جاتا ہے کہ کتنی احتیاط، دیکھ بھال سے اس کی تیاری کے لئے اجزاء ڈالے گئے ہیں- لہٰذا یہ دعویٰ کہ نہاری حکمت کے مطالعے سے اخذ کی گئی ہے، حیران کن نہیں لگتا اور ویسے بھی اس کا استعمال سانس کی نالیوں کی سوزش، عام نزلے اور دہلی اور لکھنؤ کی سردیوں میں بخار سے بچاؤ کے کام آتا ہے- اس کی مقبولیت اس وجہ سے بھی بڑھی کہ کھانے کے بعد، کڑاکے کی سردیوں میں جسم گرم رہتا ہے-
ابتدائی دنوں میں پرتکلف نہاری، تقسیم سے پہلے امیر مسلم نوابوں کو ناشتے میں پیش کی جاتی تھی- لیکن اونچے طبقے کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہ گاڑھا غذائیت سے بھرپور سالن، جسے بونگ (گائے کی پنڈلی کا گوشت) اور ہڈیوں کے گودے کے ساتھ آھستہ آھستہ کمال پکایا جاتا ہے، ایک وقت میں سیر اور جی بھر کر کھانے کے لئے بہترین ہے، تو انہوں نے اپنے مزدوروں کو اسے دینا شروع کر دیا جو ایک وقت نہاری کھا کر، ایک کام میں جٹ جاتے، چاہے وہ ایک حویلی ہو، ایک محل، ایک سڑک، یا ایک ریلوے اسٹیشن- یہ مزدور ہندوستان کی تعمیر میں مصروف تھے-
گوشت میں موجود پروٹین کی زیادہ مقدار کی وجہ سے آھستہ آھستہ خون میں شکر بڑھتی جاتی جس کے نتیجے میں دن بھر بھوک کا احساس ہی نہیں ہوتا- یہ طریقہ آج بھی رائج ہے- مزدور آج بھی صبح صبح نہاری کھاتے ہیں تا کہ دن بھر وہ کام چلا سکیں جبکہ امیر اسے ویک اینڈ پر ناشتے میں یا کسی پرتکلف عشائیے / رات کے کھانے میں استعمال کرتے ہیں-
تاریخی طور پر نہاری پکانے کے لئے پوری رات درکار ہوتی ہے جس میں چھ سے آٹھ گھنٹے لگ جاتے ہیں اور سورج نکلنے کے وقت یہ پیش کرنے کے لئے تیار ہوتی ہے- اس کی لذت کا اس وقت تو جواب ہی نہیں جب اسے گائے کی بونگ کے نرم حصوں کی بوٹیوں میں بنایا جائے لیکن آجکل تو چکن اور مٹن نہاری بھی خاصی مقبول ہو گئی ہے-
نہاری میں اب نیا اضافہ مغز اور نلی کا ہے جس سے یہ نہاری کے اسپیشل ایڈیشن بن گئے ہیں- اصل کھانے والے، نہاری کو ان اضافی اجزاء کے ساتھ کھانا، نہاری کی بے حرمتی سمجھتے ہیں-
نہاری تیار کرنے کا طریقہ آج بھی کم و بیش وہی ہے جو کہ ابتدائی دنوں میں تھا- اس زمانے میں، دیگ کا ڈھکن ڈھانکنے کے بعد اس کے کناروں پر آٹے کی لئی لگا دی جاتی تھی تا کہ زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت برقرار رکھا جا سکے اور بھاپ سے آھستہ آھستہ پکائی بھی ہوتی رہے- گوشت کو ہلکا سا تلنے کے بعد، اس میں خوشبودار مصالحے ڈال کر آھستہ آھستہ گلنے اور ان مصالحوں کی خوشبو اپنے اندر سمو لینے کے لئے چھوڑ دیا جاتا- انتہائی نرمی سے گوشت میں ان مصالحوں کا ذائقہ رچ بس جاتا، جیسے کوئی کسی کو لبھانے کی کے لئے جادو کر رہا ہو-
دہلی میں جامع مسجد کے پیچھے نہاری والوں کی متعدد دکانیں واقع ہیں ۔ یہاں ہر دکان والے کا دعوی ہے کہ آپ ان کی نہاری نہیں تاریخ کا ذائقہ چکھنے والے ہیں ۔ ہر دکاندار کہتا ہے کہ  یہ روایت تھی روزانہ نہاری میں سے ایک پیالہ نہاری بچا لی جاتی جسے اگلی صبح، نہاری کی تازہ دیگ میں ڈالا جاتا-  یہ روایت کب سے جاری ہے یہ بھی کسی کو نہیں معلوم اور نہ ہی اس کہانی کی تصدیق کی جا سکتی ہے لیکن کھانوں کے شوقین افراد کے لئے اس کہانی میں زبردست اور تاریخی شان و شوکت ضرور موجود ہے-