Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, April 27, 2019

ڈاکٹر شکیل احمد، ہندوستانی سیاست کا ایک ڈمی چہرہ!!!

تحریر و تبصرہ / بلال اصغر/ صدائے وقت/ نمائندہ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
ڈاکٹر شکیل احمد، کانگریسی سیاست کا ایک مشہور نام و معروف چہرہ تھا ، ویکیگروفی یعنی وکیپیڈیا پر فراہم کردہ سوانح عمری کے مطابق آپ کی پیدائش 2 جنوری 1956 کو مدہوبنی کے اومگاو نامی ایک قصبہ میں ہوئی، آپ کے والد کا نام شکور احمد اور والدہ ماجدہ کا نام ہاجرہ خاتون تھا ، آپ کے گرانڈ فادر کو فریڈم فائٹر ہونے کا شرف حاصل رہا ہے جبکہ والد محترم کانگریس کے لیڈر رہے گویا کہ سیاست آپ کو وراثت میں ملی ہے نہ کہ محنت ومشقت سے اس فیلڈ میں پاؤں جمایا ہے، ایک راز کی بات اور آپ کو بتاتا چلوں کہ آپ کے نام کے آگے جو ڈاکٹر جڑا ہوا ہے وہ حقیقی ڈاکٹر کا ٹائٹل ہے یعنی آپ نے ایس کے میڈیکل کالج، مظفر پور سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی نہ کہ آپ نے political science میں پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کیا ہے، مطلب یہ ہے کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ کلینک میں بیٹھ کر فرد کا علاج کرتے لیکن بدقسمتی سے آپ سماج کے علاج اور اصلاح کے میدان میں کود پڑے، خیر یہ بھی قابل برداشت تھا کیونکہ وراثت میں سیاست ملنے کی وجہ سے بہت حد تک سیاسی سوجھ بوجھ حاصل رہا ہوگا،دوسرے یہ کہ والد صاحب کی کانگریس میں گرفت مضبوط ہونے کی وجہ سے سیاسی میدان بھی ہموار نصیب ہوا، پھر کیا تھا انسانی جسم کے علاج کے بجائے معاشرے کی بھلائی کو ترجیح دیتے ہوئے کانگریس گود میں بیٹھ گئے، آپ 1985 - 1990 - 2000 میں ممبر آف لیجیسلٹیو اسمبلی کے طور پر منتخب ہوئے، 1998 - 2004 میں مدھوبنی لوک سبھا سے آپ ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوکر دہلی کے سدن میں تشریف فرما ہوئے، بہت خوشی کی بات تھی کہ قوم کا تعلیم یافتہ فرد ممبر پارلیمنٹ بن کر پارلیمنٹ میں قوم کی نمائندگی کے لئے تشریف لے گئے، 2004 میں آپ کو دہلی کے ریاستی وزیر اطلاعات و مواصلات بننے کا بھی شرف حاصل ہوا، مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے دہلی کے ٹیلی کام سیکٹر میں کیا انقلاب برپا کیا، آپ کو انڈین نیشنل کانگریس کے جنرل سیکرٹری ہونے کا بھی شرف حاصل ہے، آپ رابڑی دیوی کے زمانے میں کیبنٹ کے طور پر بہار کے ریاستی وزیر صحت بھی رہے، آپ کو منموہن سنگھ کے عہد غیر اختیار میں وزیر داخلہ بننے کا حسین موقع ملا، 2011 میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے ذریعے بہار، جھارکھنڈ، اور مغربی بنگال کے پارٹی انچارج کے طور پر منتخب کیا گیا، 
ڈاکٹر شکیل احمد

جون 2013 میں آپ کو ترقی دیتے ہوئے کانگریس ورکنگ کمیٹی کا ممبر منتخب کر لیا گیا اور دہلی، ہریانہ، پنجاب، چنڈی گڑھ کے جنرل سیکرٹری کے طور پر کمان سونپ دی گئی،آپ کو اتنے سارے عہدے سے نوازا گیا، اس کے باوجود آپ کا چہرہ ہندوستانی سیاست میں ایک ڈمی کی حیثیت سے ہی ہے.
میرا تعلق اسی لوک سبھا حلقہ انتخاب سے جہاں سے آپ ممبر پارلیمنٹ تھے، میں نے اپنے حلقہ انتخاب میں آپ کا کوئی خاطر خواہ کام نہیں دیکھا، بجلی اور سڑک کا اکیسویں صدی کے دوسری دہائی کے اواخر میں بھی خستہ حال ہے،نہ کوئی کالج، نہ یونیورسٹی حتی کہ نہ کوئی کھیل کا میدان آپ نے دیا، سنگھیا پنچایت کو اس کے پرکھنڈ بسفی سے جوڑنے والی سڑک گذشتہ دو دہائیوں سے گڑھا نہیں بلکہ کوئیں میں تبدیل ہے لیکن آپ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، قومی سطح پر کانگریس کے زمانے میں تعلیم یافتہ و بیدار مغز بے قصور نوجوانوں کی گرفتاری کا عظیم سلسلہ شروع ہوا اور آپ خاموش تماشائی بنے رہے، کانگریس نے پوری قوم کو پسماندہ ترین سطح پر پہنچا دیا آپ کو گویا کہ سانپ سونگھ گیا، کانگریس نے منصوبہ بند طریقے سے مسلم قیادت کا قلع قمع کیا آپ تجاہل عارفانہ برتے ہوئے بھرپور حمایت کی، اس کے بعد ماب لنچنگ کا دردناک سلسلہ ملک میں زور پکڑ، آپ نے اف تک نہیں کیا، آپ اپنے حلقہ انتخاب میں مسلم اکثریت ووٹ ہونے کا فائدہ بی جے پی سے دہشت دلاکر خوب اٹھایا، ایسے گونگے لیڈر بنے رہے کہ شاید نئی نسل آپ کو پہچانتی بھی نہیں ہے، پھر آپ کس بنا پر آزاد امیدوار کے طور پر اسی حلقہ انتخاب میں انتخابی بگل بجا دیا ہے، کانگریس نے بھی آپ کی اوقات یا یہ کہیئے کہ والد صاحب کی قربانی کا صلہ دیتے ہوئے آپ کو ٹکٹ کی شکل میں مراعات دیتی رہی، جب انہیں احساس ہوگیا کہ آپ وہ ناکام لیڈر ہیں جنہوں نے اپنی ماتحتی میں کوئی دوسرا لیڈر نہیں پیدا کیا تو آپ کے لئے ایسے حالات پیدا کئے کہ آپ نے کانگریس سے مستعفی ہونے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی ، پھر کون سا چہرہ لیکر ایک بار پھر میدان جنگ میں اترے ہیں.
بسفی کی عوام سے گزارش ہے کہ آپ آنجناب دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر جب آپ کے پاس ووٹ حاصل کرنے کے لئے پہنچے تو آپ ان سے کوئی ایک وجہ ووٹ دینے کی ضرور پوچھیں، آپ ان سے سوال کریں کہ ہم آپ کو ووٹ دین گے، کوئی ایک وجہ ہمیں بتائیں، اگر بی جے پی کا خوف دلائیں تو ان سے کہیں کہ بی جے پی پچھلے پانچ سال سے ملک میں حکومت کر رہی ہے، قوم پر مصائب و آلام کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، آپ اپنا ایک بھی بیان ہمیں بتا دیں، آپ یاد رکھیں کہ کچھ سال قبل بھیڑوا میں فرقہ وارانہ فسادات ہونے سے بچ گیا، لیکن اس پر بھی آپکی جانب سے کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا، بار بار وہاں اس طرح کی ناپاک کوشش کی جاتی ہیں تو پھر آپ نے کیا کیا؟ بسفی کے تمام پنچایت کی عوام اس بار ایک حلف نامہ پر اپنے مطالبات درج کر کے رکھ لیں اور جب آپ ووٹ مانگنے آئیں تو ان پر حلفیہ دستخط کروائیں کیونکہ آپ ایک بار پھر مجبور ہیں، آپ کے پاس کوئی دوسرا چہرا بھی نہیں،بلکہ میں تو یہی کہوں گا کہ اگر کوئی اور نعم البدل ہوں تو اس کو اختیار کریں.
بلال اصغر،
۔نوٹ::: ادارہ صدائے وقت کا مضمون نگار/ تبصرہ نگار کی آرا سے متفق ہونا ضروری نہیں۔