Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, April 8, 2019

عمیر انس کا مکتوب ، جماعت اسلامی کے نو منتخب امیر سعادت اللہ حسینی کے نام۔


آداب و تسلیمات
یہ خبر کہ جناب سید سعادت اللہ حسینی صاحب ہندوستان کی بیحد معتبر دینی جماعت کے امیر منتخب قرار پاے ہیں سارے مسلمانان ہند میں بہت خوشی اور اطمینان سے سنی جارہی ہے. لیکن میں مبارکباد پیش کرنے کی ہمت نہیں کر پارہا ہوں، آپ سے پہلے جو لوگ اس منصب سے رخصت ہوئے ہیں انہونے علم و فضل کا بیش بہا سرمایہ چھوڑا ہے، طویل عمر کے تجربے انکے محافظ تھے، ہندستان کے نا مساعد حالات میں وہ اس تحریک کی حفاظت کی بلکہ اسے ملک کے طول و عرض میں اور اسکے باشندگان میں مقبول و معروف بنانے میں کامیاب ہوے تھے، در اصل مبارکباد کے اصل مستحق تو وہیں ہیں جو اس راہ سے کامیابی سے گزر گۓ ! آپ کو اس ذمے داری ملنے کے بعد آپ یقینا اس حیرت میں ہونگے کہ اپنے پیش رووں سے علم و فضل، اعتبار اور تجربے میں بہت پیچھے ہونے کے باوجود آپ کو اتنی بڑی ذمے داری کیوں کر حوالے کر دی گئی ہے،
میرے خیال سے آپ اس نئی نسل کے ہندوستانی مسلمان قائد ہیں جنکے سامنے ہندوستان کی سیاسی اور سماجی تبدیلی کا وہ دور پروان پایا ہے جسکی بلندی کا نام فاشزم ہے، آپ ایسی ملت اسلامیہ کے نمائندے ہیں جسنے اپنی دینی تشخص کے لئے اپنے حقوق کے لئے اپنے فروغ کے لئے اپنی بقا اور تحفظ کے لئے ہر ممکن کوشش کر دینے کے باوجود بھی اندیشوں کے اندھیروں میں گرفتار ہے، نا امیدی ہر دروازے سے داخل ہو رہی ہے، اور برادران وطن میں آپکے خیر خواہوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی جارہی ہے، آپ ایک ایسی عالمی تبدیلی کے گواہ ہیں جسمیں عالم اسلام اور اسلامی ملت کو سب سے گہرا زخم باہر کی بجاے اندر سے لگاۓ جارہے ہیں، جہاں ایران کے نقلی اسلامی انقلاب کا طلسم ٹوٹ چکا ہے، سر زمین حجاز کا توحیدی انقلاب خودکشی کر رہا ہے، بہتر مستقبل کے بیشتر خواب یا تو استبداد کی جیلوں میں قید ہیں یا انکی گولیوں کے نشانے پر ہیں، آپ ایک ایسی تنظیمی ماحول میں پرورش پاۓ ہیں  جس میں ان  تمام امراض کی تشخیص ہو چکی ہے  جس نے زیادہ تر دینی جماعتوں کو برباد کر دیا ہے،  آپ کی تنظیم کو ایسے ہاتھی سے تعبیر کیا جاتا ہے جسکی عظمت اسکا وجود  ہے ، جسسکی خوراک بہت زیادہ ہے لیکن جسکی چال اتنی سست ہے کہ اس پر بیٹھ کر اس تیز رفتار دور کا مقابلہ تو دور مقابلے میں بنے رہنا بھی نا ممکن ہے، اور اس بات میں کس کو شک کیوں ہوگا کہ آج ہندوستانی مسلمان اپنے فکری اور عملی قوت میں خود کو بقیہ تمام اقوام سے پیچھے پارہا ہے،
آپ کو چیلنجز سے بھرے اس نے ہندستان میں اسلام کی اقامت کی کوششوں کی نگرانی اور قیادت کی ذمے داری یقینا مبارکباد کی وجہ نہیں ہو سکتی، البتہ جماعت اسلامی مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے اپنے درمیان موجود ایک ایسے شخص کو ذمے داری دینے کا بیحد بیباک اور بیخوف فیصلہ کیا ہے جو شخص نے ہندستان کے چیلنجز کے ساتھ اسکے بہترین امکانات سے واقف ہے، وہ ٹکنلوجی اور معیشت کے بدلتے بنیادی ڈھانچے سے واقف ہے جو ہندستان کو دنیا کی بڑی طاقتوں میں شامل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، جو ہندستان کی نئی نسل کی بہترین کامیابیوں سے واقف ہے، جسنے پچیس سالوں میں عام ہندو اور مسلمان نوجوانوں ٹکنالوجی، سائنس، علم اور ادب، آرٹ اور کلچر، میڈیا اور کمیونیکشن میں مقابلہ کی فضاء میں کامیابی حاصل کرتے ہوے دیکھ رہا ہے
آپ پر اتنی بڑی جماعت نے اور اسکے افراد نے اور ملت کے عام نوجوانوں نے اعتماد غالبا اس لئے کیا ہے کیوں کہ آپ نے اپنی جماعت کے سامنے یہ سوال پوری قوت سے پیش کیا ہے "ہم کیوں نہیں کر سکتے"، اور آپ یہ بتانے میں کامیاب ہوے ہیں کہ "ہم بھی کر سکتے ہیں"، کیسے کر سکتے ہیں اور کر دکھانے کے اس چیلنج میں اسلامی اقدار کو مقبولیت حاصل ہو گی، اسلامی تشخص کی حفاظت آسان ہو گی، برادران وطن میں اہل اسلام اور مذھب اسلام کے خیر خواہوں کی تعداد بڑھے گی، اور یہ سب کرنے میں آپکی جماعت کا نظم ایک ہاتھی کی جگہ ایک کمپیوٹر کی طرح کام کر سکتا ہے جسکے سارے پارٹس ایک ساتھ مل کر کم وسائل میں کم وقت میں زیادہ خوبصورت انداز میں زیادہ بڑے حلقوں تک پہنچ سکتا ہے،
توقعات کے مستحق ہونے پر آپکو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں، آپ کی فکر انگیز تقریروں اور تحریروں نے توقعات پیدا کی ہیں لیکن ان کو کر دکھانے کی ذمے داری آپ سے مزید صفات کا مطالبہ کرتی ہے، قیادت کا کام فیصلہ لینا ہوتا ہے، فیصلے کے انتظار میں وقت گزارنا نہیں، قیادت خطرے لینے کے لئے دی جاتی ہے خطروں کے گذر جانے کا انتظار کرنے کے لئے نہیں، جماعت اسلامی ملت کے اخلاقی اور فکری امراض سے محفوظ نہیں رہی ہے، آپکی صفوں میں بھی ایسے افراد ہیں جوں ذاتی بلندی کے لئے تنظیم اور تنظیمی مفادات کو قربان کرنے میں بے خوف ہو چکے ہیں، آپکی بعض ریاستی تنظیمیں اندر سے منہدم ہونے سے محض چند قدموں کے فاصلے پر ہیں، مدارس سے آنے والے  مولویوں کی باہمی چپقلش اور شیروانیوں کا مقابلہ آپ کی جماعت میں بھی منظر عام پر آنے لگے ہیں،  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، الفلاح، جامعہ ملیہ سمیت تمام اہم اداروں میں آپکا نظم اور اسکے افراد افکار کی جنگ میں شکست خوردہ  اور تھکے ہوئے نظر آتے ہیں، اسلامی فکر کی صحیح ترجمانی غیر مسلموں کے خلاف تو سارے مسلمان اچھی کر لیتے ہیں لیکن خود مسلمانوں کی بے عملی اور بے فکری کے خلاف جب کرنا ہو تو آپکی جماعت بھی عوامی دھارے میں بہ جاتی ہے،
نئی صلاحیتوں کو جماعت اسلامی کے نظم میں فروغ پانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے، معاف فرمائیں فکری پختگی، اخلاص اور تنظیمی شعور کے الفاظ کا استعمال کرکے آپکی قیادت نئی نسل کے افراد کو تنظیم سے دور رکھنے میں کامیاب ہوئی ہے، ملت اسلامیہ کے عام نوجوانوں کے لئے تحریک میں استقبال کا ماحول ختم ہو رہا ہے، خوشامد پسندی اور چاپلوسی مناصب حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ بن چکے ہیں، خواتین کو اسلامی دعوت کا حصہ بنانے کے معاملے میں آپ آج بھی دنیا کی سبھی اسلامی تحریکوں میں سب سے پیچھے ہیں، دور اول میں معمولی لوگ بڑی صلاحیت والے افراد کو متاثر کرکے اپنی صفوں میں شامل کرتے تھے اور اب اپکا نظم سماج کے با صلاحیت طبقے سے الرجی رکھتا ہے، آپکو عمر کنہیا اور شہلا کو اپنے جلسوں میں بلانے اور انکی پزیرائی کرنے میں اچھا لگتا ہے لیکن اپنی صفوں میں کسی نوجوان کو کنہیا عمر اور شہلا جیسا بننا ناقابل قبول ہے، آپ کے اندر تنظیمی روایات کے نام پر ایک ایسا ماحول باقی رہ گیا ہے جو کسی زمانے میں فاتحہ خوانی اور میلاد شریف منعقد کرنے والوں کا ہوتا تھا، سماج میں انقلاب پیدا کرنے میں آپکے نظم کی کوئی دلچپسی نہیں رہ گئی ہے، نظم میں کام نہ کرنا تو قابل قبول ہے لیکن زیادہ کام کرنے کی خوااہش رکھیں والے ہمیشہ نظم کے چابک کی زد میں ہوتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ گئی گزری حالت میں بھی ملت کے موجودہ سبھی تنظیمی اور جماعتی گروہوں سے زیادہ مشاورتی آور شفاف نظم رکھتے ہیں لیکن آپکے اپنے دور اول کے معیار اہداف سے آپ خود سے بہت پیچھے ہیں، عزیمت کا راستہ چھوڑنے والوں کی تعداد زیادہ ہو رہی ہے، بغیر جہیز کی شادیوں، غربا پروری، پسماندہ افراد کو معاشرے میں قابل احترام بنانے والے کاموں میں آپ کے افراد پہلے سے کم ہونے لگے ہیں، غریب کارکنان کی بے وقعتی فیشن ہے اور اپر کلاس نظر آنے کے لئے شیروانی ٹوپی کا مقابلہ کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، زمین سے ربط کا مطلب صرف رپورٹ حاصل کرنا اور اسکی فوٹو شایع کرنے تک محدود ہے، کل ملا کر یہ کہ آپکی تحریک بھی پرانے ملی امراض کا شکار ہو نے لگی ہے، اور آپکو یقینا اسکا اعتراف اپنی مجلسوں میں کرنا چاہئے اور اسکی اصلاح کے لئے نیت کرنی چاہئے، ہمیں احساس ہے کہ آپکے پڑھے لکھے افراد کسی بھی مسلے کی موجودگی کو ہی غلط ثابت کرنے کا شاندار ریکارڈ رکھتے ہیں لیکن کسی دور گاوں سے دلی اور لکھنؤ میں بیٹھے ذمے داران سے ملنے آنے والے کارکن کا تجربہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہوگا، 
ذاتی طور پر میں آپکا بیحد مداح اور قدر دان ہوں، میں نے دیکھا ہے کہ اپنے ماضی میں تحریک کا مفاد اپنے تمام ذاتی امنگوں سے اوپر رکھا ہے، سوشل میڈیا پر نوجوان طبقے میں  آپکے انتخاب پر خوشی کا اظہار اسی وجہ سے ہے کہ آپ نوجوان اور نئی صلاحتوں کے لئے ہمیشہ منتظر رہتے ہیں، آپ سوال کرنے والوں کو خوشامد پسندوں سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں، آپ بزرگوں کا احترام طالب علم کی طرح کرتے ہیں، لحاظہ اس استقبالیہ مراسلے کو بھی خیر خواہی پر محمول فرمائیں ! آپکی تحریک مسلمانوں کے تمام طبقات کی تحریک بنے، علما دانشوران طلبہ اور معلمین وکلا اور ڈاکٹرز مرد و خواتین تمام مسالک اور مذاہب تمام فقہوں اور مکاتب کے لئے آپ کی تحریک اپنے دروازے کھولے ایسی دعا اور تمنا کرتے ہیں، تحریک کے باہر چمکنے والے ستاروں کے ساتھ تحریک کے اندر ستاروں اور ممکنہ ستاروں کو بھی آپکی توجہ نصیب ہو ایسی خواہش ہے ! آپ ایسا کر سکتے ہیں اسکی توقع ملک کے تول عرض میں آپکے کارکنان کے ساتھ ملت کے دیگر خادموں کو بھی ہے اور اسی وجہ سے یہ طویل مراسلہ آپکی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں !
اللہ آپ کے قدموں کو طاقت بخشے اور آپکے انتخاب کو ملت اسلامیہ ہند کے لئے برکت اور سعادت کا سبب بناے !
خیر اندیش
عمیر انس۔
صدائے وقت۔
. . . . . . . . . .  . . . . . . . . . . . . . . . . . 
نوٹ۔۔۔مراسلہ نگار کی آرا سے صدائے وقت کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔