Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, April 14, 2019

عام انتخابات کا بڑا سوال! کہاں جائیں مسلمان؟

از/  حکیم نازش احتشام اعظمی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . 


کہاں جائیں مسلمان؟. . . . . . . . . . .
اس وقت ملک کے طول وعرض میں عام انتخابات کی گھن گرج ہے۔ یہ ایک جمہوری تہوار ہے ،جس میں ہر ہندوستانی اپنی تعداد اور قوتِ اجتماعیت کی بنیاد پرنمائندے منتخب کرتاہے۔اس اصول کی روشنی میں پورے ملک پر نظر دوڑائیں تو ایک سوال ہمارا منہ چڑھاتا محسوس ہوگا کہ اس جمہوری تہوار میں ملک کے پچیس کروڑ مسلمان کہاں کھڑے ہیں ، اور وہ کہیں بھی نظر کیوں نہیں آرہے۔آزادی کے بعد اب تک ملک میں آباد اکثریت کی لگ بھگ سبھی برادریاں اپنا محاذ بنانے اور اجتماعیت کی بنیادپر اپنا لوہا منوانے میں کامیاب ہوچکی ہیں۔مگر ہم مسلم اقلیتیں آج بھی لکیر کی فقیر ہی ہیں۔ جوشخص بھی اپنی قوم کے رہنماؤں کی تاریخ اور کارناموں کا غیر جانبدارانہ جائزہ لے گا وہ اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ ہم ہی میں آج بھی ٹیپو سلطان موجود ہیں، حمیت قومی سے شرابور نواب سراج الدولہ جیسی صفات کے حامل افراد ملت میں آج بھی موجود ہیں ، تو ملا باقر کی طرح آبروئے وطن کی حفاظت کیلئے جان کا نذرانہ پیش کرنے والے غیور بھی اس مسلم اقلیت سماج میں موجود ہیں، مگر ابن الوقتوں نے انہیں پیچھے دھکیل رکھا ہے ،محب وطن ابو الکلام آزاد جیسے مخلص محب وطن افراد بھی موجود ہیں ، مولانا محمد جوہر جیسے جیالے ڈھونڈنے سے اسی سماج میں آج بھی آپ کو مل جائیں گے۔آج بھی آپ کو ہندوستانی تہذیب وتمدن کا گرویدہ سراپا انسانیت دوست مسیح الملک حکیم اجمل خان جیسے اوصاف کے حامل مل جائیں گے۔مگر اسی کے ساتھ یہ المیہ بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ ان سرفروشوں اور ملت کا سچا درد رکھنے والے نمائندو اور رہنماؤں کی تعداد کل بھی کم تھی اور آج بھی آٹے میں نمک برابرہی ہے۔ اس کے برعکس میر جعفر اور میرصادق یا اکبر کے درباری ملا فیضی جیسے ضمیر فروشوں ،مفاد پرستوں، خود غرضوں اور ملت کی بھیڑ کوجمع کرکے سرکار سے دلالی کھانے والے لٹیروں کی ہمارے مسلم سماج میں اس قدر بہتات ہوگئی ہے کہ یہ تمیز کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ صحیح معنی میں اپنا کون ہے اور اپنا بن کر پشت میں خنجر گھونپنے والا منافق کون ہے ۔آج مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ملت اسلامیہ ہندسچی اور مخلص قیادتوں سے محروم ہوگئی ہے ، البتہ مسئلہ یہ ہے کہ حقیقی معنی میں اپنا سچا اور مخلص قائد کون ہے اس کی تمیز کرنا مشکل تر بن چکا ہے اوروقت گزرنے کے ساتھ یہ مسئلہ مزید پیچیدہ اور سنگین ہوتا جارہا ہے۔ آپ ملک کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک دیکھ لیجئے۔ شاید ہی کوئی ایسا مسلم سیاسی نمائندہ مل سکے جو اپنے ذاتی مفاد پر ملی مفادات کو ترجیح دیتا ہو اور پوری ایمانداری کے ساتھ زبوں حال اور سسکتی ملت کے درد سے کراہتا اور بلبلاتا ہو ۔یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ملت اسلامیہ قیادتی بے ایمانی کی شکار حال پر نہیں ہوئی ہے ، بلکہ تاریخ کے صفحات الٹئے تو معلوم ہوگا کہ مسلم ہمدردی کا خول چڑھائے ہوئے بھیڑیے جس طرح سے آج مسلمانوں کو بیچ رہے ہیں ، ٹھیک اسی طرح19ویں صدی کے ابتدا سے آزادی وطن 1947میں بھی میر جعفر کی تعداد برسات میں اگ آنے والے خودرو گھاس پھونس سے زیادہ تھی ، جبکہ اس وقت بھی ملت کے سچے اور مخلص رہنماؤں کی تعداد آٹے میں نمک برابر ہی تھی۔مگر غنیمت یہ تھا کہ وہ نمک اتنا خراب نہیں تھاکہ جو کام دہن کا ذائقہ ہی بگاڑ کر رکھ دے۔جیسے کہ آج کی آٹے میں نمک برابر جو قیادتیں ہمارے پاس ہیں، وہ سارے سماج کو ہی بدمزہ اور مشتبہ 
حکیم نازش احتشام اعظمی
کئے ہوئی ہیں۔
اگر تلخی حالات اور سماج کے نام نہاد قائدوں کی کارستانیوں کا جائزہ لیناہوتو انتہائی غیر جانبداری اور باریکی سے مسلم لیگ کے قیام کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے اور بتائیے کہ ایسے حالات میں جب کان پور میں واقع مسلم مجلس انتہائی مستعدی اور کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کی نمائندگی کررہی تھی ، اس کی کامیابی پر ڈاکہ ڈالنے اور کامیاب مسلم سیاسی جماعت کو بے وقعت کردینے کیلئے کس کے اشارے پر مسلم لیگ قائم ہوئی اور اس نے کس درجہ مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور اپنی شرپسند منصوبہ سازی سے کانگریس کو قوت وطاقت فراہم کرتی رہی۔واضح رہے کہ سنہ انیس سو چھ میں جب مسلم لیگ وجود میں آئی تھی ،اس وقت سے اب تک پارٹی کے قیام کے مقاصد اور محمد علی جناح کے بارے میں بیشتر مورخوں نے متضاد دلائل پیش کیے ہیں۔تاہم چند دہائیوں سے برصغیر کی تاریخ لکھنے والے کئی مورخین نے جناح اور ان کی پارٹی مسلم لیگ کے بارے میں نئے انکشافات کیے اور نئے گوشے منظرِ عام پر لائے ہیں جن کی بنیاد پر یہ کہا جارہا ہے کہ مسلم لیگ مذہبی جماعت کے طور پر نہیں ابھری تھی ، بلکہ اس کے قیام کا بنیادی مقصد کمزور مسلمانوں کا ستحصال اور وڈیروں کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔حقیقت حال تک پہنچنے کیلئے ایک نظر کانگریس پر بھی ڈال لی جائے۔1885 میں انڈین نیشنل کانگریس اپنے قیام کے بعد سبھی
برادریوں کے مسائل اجاگر کرنے کا اپنا مقصد بیان کرتی ہے۔
کیا اس سچائی سے بھی انکار
کیا اس سچائی سے بھی انکار ممکن ہے کہ خالص مسلم مفادات کے تحفظ اوربقائے ملت کی دہائی دینے والی مسلم لیگ کے وجود میں آنے کے باوجود کانگریس اور مسلم لیگ میں کوئی تفریق نہیں رہی، درجنوں شواہد موجود ہیں کہ دونوں جماعتیں بعض مرتبہ جلسے جلوس بھی ایک ہی شہر اور ایک ہی پلیٹ فارم پر کرتی رہی تھیں۔دراصل اس وقت علاقائی سطح کی مسلم تنظیمیں جو انتہائی دیانتداری کے ساتھ ملی مفادات کے فرائض انجام دے رہی تھیں اور انگریزی کونسل میں انہیں نمائندگی بھی حاصل تھی ،انہیں چھوٹی چھوٹی مگر فعال اور مخلص تنظیموں کو نیست نابودکرنے کے مقصد سے بڑی مچھلی کے طور پر کانگریس نے ہی مسلم لیگ کو کھڑا کیا، جو آگے چل کرتمام علاقائی مسلم سیاسی و سماجی تنظیموں کو کھاگئی اور اس طرح کانگریس پارٹی کو پورے ملک پر چھاجانے کا آسانی سے موقع مل گیا۔ہماری اسی مفاد پرست قیادتوں کا نتیجہ ہے کہ آزادی کے 70سال گزرچکے ہیں، لیکن مسلمان ابھی تک اپنے تشخص اورحقوق کی لڑائی لڑرہاہے۔جس طرح اس کمزورونحیف قوم کو انگریزی دور اقتدار میں اپنے وجود کیلئے ساری توانائی صرف کرنی پڑی تھی اس کے باوجود انہیں کامیابی نہیں مل سکی ۔اور آج بھی صورت حال یہی ہے اپنے وجود کو منوانے کیلئے مسلمانوں کوتلخ حالات اور دشواریوں سے گزرنا پڑرہا ہے مگر کامیابی کے امکانات دوردور تک نظر نہیں آرہے ہیں۔حالاں کہ چند لیڈران نے اس جانب توجہ دینے کی کوشش بھی کی تاکہ قومی سیاست میں اپناوقارقائم کیاجائے اوراپنے حقوق ومسائل کاتصفیہ خودکریں، لیکن سیاسی جماعتیں مسلم ووٹ بینک کے خوف سے کہیں نہ کہیں ان کی راہ میں آڑے آئیں جس کی بہت سی واضح دلیلیں موجود ہیں ۔ہمارے ان مخلص نمائندوں اور قیادتوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح مسلمانوں میں پھیلی ہوئی خود غرض قیادتوں نے اوپر آنے نہیں دیاوہ نام نہاد سیکولر جماعتوں اور فسطائی طاقتوں کے اشارے پرمسلمانوں اپنوں سے دور اور مشکوک کرتی رہیں۔ سچرکمیٹی اورسری کرشنارپورٹ کے منظرعام پرآنے کے باوجودمسلم لیڈرشب نے ہوش کے ناخن نہیں لیے،بلکہ شخصی مفادکے زیرسایہ پوری قوم کوداؤ پرلگانے سے تامل نہیں برتاگیا۔اب جبکہ عام انتخاب شروع ہوچکے ہیں تو خودساختہ سیکولرجماعتیں مسلم رائے دہندگان کوخوش کرنے کے لیے جھوٹی روٹی پھینک رہی ہیں،ان کے حقوق ، تعلیمی پسماندگی ،غربت،سماجی مساوات،ریزرویشن اورانصاف کی دہائی دے رہی ہیں۔مسلمان ان پرفریب وعدوں میں اس طرح پھنس جاتاہے کہ حقیقت حال کااندازہ نہیں لگاپاتااورسیاسی استحصال کا شکوہ کرکے انہیں ٹھگنے میں لگ گئی ہیں۔ ان حالات میں اب ہمیں اب خود فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کس کے ساتھ جائیں جو ہماری مظلومیت کیخلاف ایوان آوازاٹھاسکے۔