Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, April 25, 2019

مشہور ومعروف شاعر ، شہنشاہ غزل ، "اختر مسلمی" کے یوم وفات کے موقع پر خراج عقیدت۔

: تاریخ وفات۔۔25 اپریل 1989۔صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  نام عبید اللہ، تخلص اختر مسلمی،، پیدائش یکم جنوری 1928.  اعظم گڑھ اتر پردیش۔موضع مسلم پٹی، اسی اعتبار سے قلمی نام " اختر مسلمی " رکھا۔
ابتدائی تعلیم والد محترم سے حاصل کی اور بعد میں مدرستہ الاصلاح سرائمیر اعظم گڑھ سے عربی زبان و ادب اور قرآن فہمی کی تعلیم حاصل کی ۔روزی روٹی کے سلسلے میں درس وتدریس کے پروقار پیشے سے وابستہ رہے۔۔1968 میں مستقل طور پر سرائمیر میں سکونت اختیار کی اور انوار اکیڈمی کی بنیاد رکھ کر اسی سے وابستہ رہے
شاعری کی ابتدا بچپن سے کردی ،خدادا صلاحیت کے مالک تھے۔اقبال سہیل نے 12 سال کی عمر میں انکی شاعری سنی ، متاثر بھی ہوئے اور اصلاح بھی کی ۔
علامہ اقبال سہیل جب کسی مشاعرے میں جاتے تو اکثر اپنے ساتھ لے کر جاتے۔الہ آباد کے ایک مشاعرے میں پنڈت نہرو نے جب اختر مسلمی کو سنا تو پیشن گوئی کردی کہ یہ لڑکا آگے چل کر بہت بڑا شاعر بنے گا۔ آگے چل کر پنڈت نہرو کی پیشن گوئی صحیح ثابت ہوئی ۔ کسی مشاعرے میں اختر مسلمی کی شرکت اس مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت ہو جایا کرتی تھی۔
فلم ڈاریکٹر کمال امروہی نے متعدد بار اختر مسلمی سے درخواست کی اور خط بھی لکھا کہ آپ میری فلموں کے لئیے گیت لکھا کریں لیکن اختر صاحب نے کلی طور پر انکار کر دیا ۔اختر مسلمی نے کہا کہ فلمی گیت لکھنا میرے موقف کے خلاف ہے اور میں اپنی خودی کو قربان کرکے شہرت و دولت کی خاطر ایسا نہیں کرسکتا۔: اختر مسلمی یوں تو صاحب دیوان بھی ہیں اور ان کی تخلیق پر بہت سارے مضمون نگار نے مقالات لکھے اور اپنی قیمتی آرا سے قارئین کو متعارف کرایا مگر آج بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے متعلق ، ان کے اشعار، رباعیات، غزلیں اور خطوط پر ادبی دنیا میں مزید تحقیقات کی ضرور ہے ۔۔" کلیات اختر مسلمی " ان کا ایک شاہکار ہے۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . 

. . . . . . . . .
شہنشاہ غزل اختر مسلمی کے کچھ اشعار نیچے دیے جارہے ہیں:
. . . . . . . . . . . . . . . . .
ہم بنا کر نشیمن خطاوار ہیں
پھونک کر گلستاں تم پشیماں نہیں۔
برہم انھی ں کرنے کی مجرم مری آنکھیں ہیں
کچھ کہہ نہ سکا ان سے یہ ہوگئیں نم پہلے
ہیں ترے دل کی طرح داغ مرے دامن پر
دل مگر صاف ہے ناصح ترے دامن کی طرح۔
مری تخئیل کی رفعت کو نہ پہنچا کوئی
اور میں نے اسے پستی میں اترنے نہ دیا۔
ہم چھو بھی لیں زلفوں کو تو ہوں مورد الزام،
گستاخ ہوائوں کو سزا کیوں نہیں دیتے۔
شام وصال جا ملی سرحد صبح ہجر سے
اتنا دراز ہوگیا قول و قسم کا سلسلہ۔
غنچے جو ہیں اداس تو بے رنگ پھول ہیں
رخصت ہوئی بہار بھی شاید کسی کے ساتھ۔
محبت منزل انسانیت ہے
محبت کی کوئی منزل نہیں ہے
فریب خوردہ ہے اتنا کہ میرے دل کو ابھی
تم آچکے ہو مگر انتظار باقی ہے