Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, April 25, 2019

اختر مسلمی فکر و فن کے آئینے میں۔!!!

اختر مسلمی کے یوم وفات کے موقع پر صدائے وقت کی خصوصی پیشکش، بطور خراج عقیدت۔
از/  ڈاکٹر فیاض احمد علیگ/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
کشادہ پیشانی، پیشانی پر سجدوں کا چمکتا ہوا نشان، اللہ کے نور سے منور چہرہ، چشمے کے پیچھے سے گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی چمکتی آنکھیں، میانہ قد، گندمی رنگ اور چہرے پر متانت و سنجیدگی کے ساتھ ہی زمانے کے پیچ و خم کے آثار نمایاں۔ یہ تھے اختر مسلمی صاحب جن کو ان کی عمر کے آخری پڑاؤ پر اور اپنے طالبعلمی کے دور میں مدرسۃالاصلاح پرکئی باردیکھنے اور سننے کا اتفاق ہوا، لیکن کبھی ملاقات اور بالمشافہ گفتگوکی ہمت یا ضرورت نہ ہوئی اس لئے کہ بچپن کا زمانہ تھا، کھیل کود سے رغبت تھی، شعر و ادب سے دلچسپی تھی نہ شوق، غزل کا معنی و مطلب پتہ تھا، نہ تغزل کا ادراک و شعور۔ اس کے باوجود جب کبھی اختر مسلمی صاحب مدرسہ تشریف لاتے اور غزل سناتے،تو لا شعوری طور پر انھیں سننے کا شوق ضرور ہوتا تھا۔ اب پتہ نہیں یہ ان کی آواز کا جادو تھا یاکلام کی اثر آفرینی ؟ ہم انہیں سنتے ضرور تھے۔ اسی دورمیں سنے ہوئے ان کے دو اشعار آج تک ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ ہیں،جو آج بھی اکثر زبان پر آ جاتے 
ہیں: 

اختر مسلمی

ساری دنیا جو خفا ہے تو خفا رہنے دو
میرے ہونٹوں پہ مگر حق کی صدا رہنے دو
شاید آ جائے کوئی نورِ بصیرت کی کرن
ذہن کا ا پنے دریچہ تو کھلا رہنے دو
مذکورہ دونوں اشعار اختر مسلمی کی پوری شخصیت اور ان کے فکر و فن کی بھر پور ترجمانی کرتے ہیں اور ان کی پوری شاعری انہی دو اشعار کی تفہیم و تشریح ہے۔ کھلے ذہن کے ساتھ کسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر بر ملا حق گوئی اور قدیم و جدید کا امتزاج ہی اختر مسلمی کا طرۂ امتیاز ہے اورتمام عمراسی اصول پر کار بند رہتے ہوئے خدا سے یہی دعا کرتے رہے کہ:
تضادِ قول و عمل میں نہ کوئی رہ جائے
مرے خدا مرے فن کی طرح سنوار مجھے
اختر مسلمی کی کلیات کے مطالعے کے بعد اب جا کر یہ حقیقت واشگاف ہوئی کہ دور طالب علمی میں ان کی غزل سننے کی وجہ ان کے حسن ترنم کے ساتھ ساتھ ان کا رنگ تغزل بھی تھا،جو سامع کو دست بستہ بیٹھنے اور ہمہ تن گوش ہونے پر مجبور کر دیتا تھا۔راقم السطور بھی شاید اسی وجہ سے ان کی محفلوں میں وقتا فوقتا دور سے ہی سہی اور کچھ نہ سمجھنے کے باوجود انہیں دیکھتا اور سنتا رہا۔
اختر مسلمی کا آبائی وطن علامہ حمیدالدین فراہی کا گاؤں پھریہا ( جس کی نسبت سے علامہ اپنے نام کے ساتھ '' فراہی ''لکھا کرتے تھے )ثانوی یا پیدائشی وطن مرزا احسان بیگ کی سر زمین مسلم پٹی تھا جس کی نسبت سے اختر صاحب '' مسلمی'' لکھتے تھے، جبکہ وطن ثالث سرائےمیر تھا جہاں رشید انصاری، ناطق اعظمی، ایاز اعظمی اور اشتیاق راشد وغیرہ ان کے ہم مشرب و ہم مذہب تھے۔ مزید براں مدرسۃالاصلاح کا علمی فیضان۔ اختر مسلمی کی شخصیت در حقیقت انہی عناصرِاربعہ کا مجموعہ تھی۔ یعنی پھریہا سے فکر فراہی، مسلم پٹی سے مرزا احسان بیگ کا ذوق شاعری، مدرسۃالاصلاح کا علمی فیضان اور سرائمیر کی شعری نشستوں اور ادبی محفلوں کو یکجا کرنے کے بعد جو تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے اسی کا نام اختر مسلمی ہے۔ اس تصویر کی نوک پلک سنوارنے اور اس میں تغزل کا رنگ بھرنے میں علامہ اقبال سہیل نے اپنا خون جگر صرف کیا اور اس ذرے کو نیر اعظم بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اقبال سہیل کی شفقتوں اور ان کی رہنمائی کے طفیل خود اقبال سہیل کے اس مصرعہ:
'' جو ذرہ یہاں سے اٹھتا ہے نیر اعظم ہوتا ہے"
کے مصداق اختر مسلمی بہت جلد آسمان شعر و ادب پر نیر اعظم بن کر نمودار ہوئے اور علم و ادب کی دنیا میں سرائمیر کی شناخت بن گئے۔ بقول قمر اعظمی:
'' سرائمیر کی جب بھی ادبی تاریخ لکھی جائے گی تو شبلی اور سہیل کا جو سلسلہ ہے، اس سلسلۃالذھب کی ایک کڑی اختر ہوں گے۔ ''

 
قمر اعظمی کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے بلا شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کی سرائمیر کی ادبی، تہذیبی اور ثقافتی تاریخ میں اختر مسلمی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔اور بیرونی دنیا میں سرائمیر کی شناخت اس کے تعلیمی اداروں کے ساتھ ہی اختر مسلمی کی بھی رہین منت ہے۔بقول رئیس الشاکری:
'' سرائمیر کی ادبی تاریخ جب بھی مرتب ہو گی، اقبال سہیل کے اس چہیتے شاگرد یعنی اقلیم غزل کے شاہزادے اختر مسلمی کو نظر انداز نہ کر سکے گی ''ـ
بلا شبہ مدرسۃالاصلاح کا پروردہ، فکر فراہی کا نمائندہ، اقبال سہیل کا چہیتا اور سرائمیر کا باشندہ اختر مسلمی نام کا یہ روشن ستارہ زندگی کے آخری وقت تک سب کی توجہ کا مرکز رہا اور ایک دنیا اس کی شیدائی رہی۔ بقول قمر اعظمی:
'' تیس سال سے برابر ہندوستان بالخصوص مشرقی یو پی اعظم گڑھ کے مشاعروں کی جان، دلوں کی دھڑکن اختر مسلمی کو کون بھول سکتا ہے ''ـ
اختر مسلمی نے جس دور میں شاعری کا آغاز کیا اس وقت ترقی پسند تحریک اپنے بام عروج پر تھی۔ ہر چھوٹا بڑا شاعر و ادیب اس سے وابستگی کو باعث فخر سمجھتا تھا۔ لوگ دیوانہ وار اس کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ اس تحریک سے زبان و ادب کو فائدہ ہوا یا نقصان ؟ یہ ایک
الگ مسئلہ ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے صنف غزل کوضرو ر نقصان پہنچا اور روایتی غزل کی سادگی، اس کا حسن و جمال، اس کا سوز و سازسب اس تحریک کے شور میں گم ہو گیا۔ ادیبوں کے فکری زاویے بدل گئے۔ مذہب بیزاری، فحاشی اورعریانیت ادب کا حصہ بن گئے۔ ادب کے تقدس اور فکر و فن کی عظمت پر آنچ آنے لگی۔ سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی جیسے ادیبوں نے ادب کا مفہوم ہی بدل دیا۔ ' لحاف ' اور ' کالی شلوار ' جیسی تخلیقات کا شمار ا دب عالیہ میں ہونے لگا۔ سر سید کی اردو تحریک اور حالی و شبلی کی اصلاحی کوشسیں مخصوص حلقے تک محدود ہو کر رہ گئیں۔ اس پر آشوب دور میں بہت سے شعراء نے ادب کے اس گرتے ہوئے معیار پر نہ صرف تشویش کا اظہار کیا بلکہ ادب کے نام پر فحاشی، ذہنی بے راہ روی اور فکری آوارگی سے نئی نسلوں کو بچانے کے لئے صالح اقدار و روایات پر مبنی ادب بھی تخلیق کیا۔ ملک کے تمام صوبوں اور حصوں کے سنجیدہ شعراء نے اس کار خیر میں حصہ لیا۔ مدرسۃ الاصلاح کے سپوتوں نے بھی زبان وادب کی اصلاح میں اہم کردار ادا کیا جن سے اکثر لوگ یا تو ناواقف ہیں یا تجاہل عارفانہ کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر انور اعظمی، قمر الدین قمر اعظمی، احمد محمود کوثر اعظمی، اختر مسلمی وغیرہ جیسے شعراء کی ایک طویل فہرست ہے جن پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
بہر کیف مدرسۃالاصلاح کے ان شعرامیں اختر مسلمی سب سے خوش نصیب شاعر ہیں جن کو اول تو ان کے ورثہ نے زندہ رکھا دوسرے مدرسۃ الاصلاح کے ترانہ کے خالق ہونے کی وجہ سے بیرونی دنیا میں نہ سہی کم از کم مدرسۃ الاصلاح کے فارغین اورا س کے بہی خواہان کے دائرہٗ اثر میں تو اس ترانہ کے حوالے سے انتہائی مقبول تھے اور آج تک ان کی بہت سی باتیں اوریادیں لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔
اختر مسلمی اسلامی اقدار و روایات کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ مدرسۃالاصلاح کے پروردہ تھے اس لئے ان کی شاعری بھی '' شاعری برائے شاعری ''کے بجائے '' شاعری برائے اصلاح '' کا نمونہ ہے۔ انھوں نے شاعری کو محض تفریح طبع کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ شاعری کے توسط سے فرد اور معاشرہ دونوں کی اصلاح کو مطمح نظر رکھا۔ جدیدیت کی آندھی میں بھی روایت و ہدایت کے چراغ کو روشن رکھا۔ منفی نظریات کے بجائے مثبت اقدار و روایات کے فروغ پر ساری توانائی صرف کی۔ ان کا یہ فکری میلان مدرسۃالاصلاح کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے جبکہ ان کا فن قدیم اساتذہ سے استفادہ کے ساتھ ساتھ ان کے استاد علامہ اقبال سہیل کی شاگردی کا ثمرہ ہے جس میں ان کا اپنا انداز تخیل اور نظریہُ فکر بھی شامل ہے جو ان کے فکر و فن کو پختگی اور بالیدگی عطا کرتا ہے بقول نجم الدین اصلاحی:
'' موج نسیم کے اندر زبان کی لطافت اور تخیلات کی پاکیزگی میں اختر مسلمی صاحب اپنے استاد علامہ سہیل مرحوم کی صحیح عکاسی کرتے نظر آتے ہیں اور کامیاب ہیں ''ـ
اختر مسلمی کی شخصیت اور ان کا فکر و فن دونوں ''انما الشعراء ھم الغاوُن '' کے بجائے ''الا الذین آمنوا '' کا نمونہ ہے وہ ذ اتی زندگی سے لیکر میدان شاعری تک ہر جگہ ''امر بالمعروف ونہی عن المنکر '' کے اصول پر کار بند رہے۔ وہ صرف نام کے مسلمی نہیں بلکہ اسم با مسمی سراپا مسلم ہیں۔ فکری و فنی ہر لحاظ سے انھوں نے اس کا ثبوت دیا ہے۔ ان کا ظاہر و باطن ایک جیسا ہے۔ یہی وجہ ہے کی ان کی شاعری میں امرا ء ا لقیس کی آوارگی نہیں بلکہ لبید ابن ربیعہ کی سادگی اور حسان ابن ثابت کی اسلام پسندی نمایاں طور سے محسوس کی جا سکتی ہے۔اور یہی مذہبی رجحان اور حق گوئی و بے باکی ان کی شاعری کا نمایاں عنصر ہے جس کا بین ثبوت ان کی غزلوں کے ساتھ ساتھ ان کی کلیات میں شامل خوبصورت حمد، نعت اور مناجات ہیں جو صرف لفظی بازیگری نہیں بلکہ ان کے ذہنی و فکری رجحانات کا آیئنہ ہیں۔
اختر مسلمی نے اسلامی تعلیمات اور اخلاقی اقدار و روایات کی روشنی میں فن کی عظمت اور اس کے تقدس کو برقرار رکھا اور ترقی پسند تحریک، جدیدیت و ما بعد جدیدیت کسی کو لائق اعتناء نہ سمجھا۔ پورے اعتماد کے ساتھ لیلائے غزل کو اس کے روایتی رنگ و آہنگ اور حسن و جمال کے ساتھ سینے سے لگائے رکھا۔ اس کی آ برو کی حفاظت کے ساتھ ہی اس کے خد و خال کو بھی محفوظ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں فطری لطافت و تازگی کے ساتھ ساتھ زندگی کی دلکشی، جذبات کی پاکیزگی، خیالات کی بلندی اور غزل کا بانکپن بھی موجود ہے۔ ادبی لسانیات کے ساتھ ہی شعری جمالیات بھی نمایاں ہے۔ غم دوراں کی بات ہو یا غم جاناں کا تذکرہ اختر مسلمی نے ہر جگہ غزل کے روایتی حسن اور اس کے تغزل کو برقرار رکھا ہے اور تما م عمر وہ صرف غزل کی زلف گرہ گیر کے اسیر رہے:
اصناف سخن یوں تو سبھی خوب ہیں اختر ؔ
جو صنف غزل میں ہے مزہ اور ہی کچھ ہے .
اختر مسلمی بنیادی طور سے خالص غزل کے شاعر ہیں۔ اور قدیم روایتی اسلوب سے اپنی غزلوں کو مرصع کیا ہے۔ اس معاملے میں وہ قدامت پسند ضرور ہیں مگر قدامت پرست ہرگز نہیں۔ وہ ترقی پسند بھی ہیں لیکن ترقی پسند تحریک کے گرویدہ نہیں بلکہ انھوں نے اپنے ذوق سلیم اور '' خذ ما صفا و دع ما کدر '' کی روشنی میں قدیم و جدید کی تمام خرابیوں سے گریز کرتے ہوئے دونوں کی خوبیوں کو اپنایا ہے:
رنگ جدید روئے غزل سے عیاں رہے
لیکن غزل کی روح غزل میں نہاں رہے
اس طرح۔قدیم و جدید کے امتزاج سے انھوں نے غزل کی ایک نئی صہباء تیار کی ہے جس میں محبوب سے گفتگو کے ساتھ ہی زندگی کے تلخ حقائق و واقعات کو بلا کم و کاست غزل کا موضوع بنایا ہے۔ محبوب کی بے وفائی، ھجر کا درد، وصال کی لذت کے ساتھ ہی سیاسی کشمکش، سماجی انتشار، معاشی بحران جیسے تمام مسائل حیات کو بھر پور تغزل کے ساتھ غزل میں پیش کیا ہے۔زبان و بیان کی سادگی کے باوجود ان کی غزلوں میں شوخی اور تغزل کا جو رنگ ہے وہ کہیں کہیں خدائے سخن میر تقی میر کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
اس نظر سے جو چھلکے گلابی
میکشی بھول جائیں شرابی
لوگ یوں راز تعلق پا گئے
تذکرہ میرا تھا، تم شرما گئے
کیا ستم ہے، آئے، بیٹھے، چل دئے
تم تو آ کر اور بھی تڑپا گئے
وہیں دوسری طرف زندگی کے گوناگوں مسائل،حالات کی ستم ظریفی، اقتصادی بد حالی، زمانے کی ناقدری اور احباب کی بے وفائی کے باعث لا شعوری طور پر ان کی شاعری میں یاسیت بھی در آئی ہے اور ان کی غزلوں میں جا بجا فانی کا رنگ بھی نمایاں طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے:
درددل، زخم جگر، سوز نہاں، اشک رواں
تو سلامت ہے تو کس شےُ کی کمی ہے اے دوست
کون سے وقت میں اخترؔ کو سہارا دو گے
اب تو امید بھی دم توڑ چکی ہے اے دوست
اختر مسلمی کی پوری شاعری ان کی ذاتی زندگی کے نشیب و فراز کی داستان ہے۔ تمام عمراقتصادی بد حالی اور معاشی پریشانیوں کے باوجود ذاتی درد و کرب کو منظر عام پر لانے کے بجائے اندر ہی اندر تمام درد کو انگیز کرتے رہے۔ اسی درد کو چھپانے کے لئے اختر مسلمی نے غزل کا سہارا لیا اور تغزل کے پردے میں ہر زخم کو پھول بنا کر پیش کیا۔ اس طرح غم جاناں و غم دوراں کے امتزاج سے وہ ادب تخلیق کیا جو زندگی کے ہر موڑ پر یاس و حرماں نصیبی کے باوجود زندگی جینے کا حوصلہ عطا کرتا ہے:
ہائے اس چشم فسوں ساز کا عالم اے دوست
راحت دیدہ و دل بھی ہے دل آزار بھی ہے
کیا کہیں اخترِؔ برباد کا عالم اے دوست
(بہ شکریہ حوصلہ نیوز،اعظم گڑھ)