Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, April 20, 2019

عہد نو کے دھارے کو موڑ کیوں نہیں دیتے ؟؟؟

تحریر/ ایاز احمد اصلاحی۔/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
       ۔(بعض تخلیقات وہ ہوتی ہین جو کسی مخصوص کیفیت کا نتیجہ ہوتی ہیں ،میری طبیعت اظہار مدعا کے لئے گا ہے بگاہے نثر کی بجائے نظم کا اسی وقت سہارا لیتی ہے جب دل  کسی مخصوص واقعے یا کسی انفرادی یا اجتماعی رویے سے بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے اور تمام زخم کھول کر  لوگوں کے سامنے رکھ دینے کی بجائے انھیں   اشاروں میں اور لطیف پیرائے میں بیان کرنا اور ان تک اپنا پیغام پہنچانا مناسب محسوس ہوتا ہے۔۔۔  میری یہ نظم بھی اسی قسم کی ایک تخلیق ہے  جسے چند ماہ پہلے only me کے اسٹور میں جمع کردیا تھا ، آج نظر پڑی تو کچھ ردو بدل کے ساتھ اسے پوسٹ کردیا۔اب آپ حضرات بھی اسے ملاحظہ فرمائیں اور
۔اپنی دعاووں میں اس ناچیز کو بھی یاد رکھیں۔)۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنا ہے
گھومتی ہے یہ  گیتی
سیر پر ہیں  سیارے
اس زمیں کا ہر ذرہ
آسماں کا ہر تارہ
ہر گھڑی ہے حرکت میں۔
سنا ہے
گرم گرم سورج بھی
محو شوق رہتا ہے
بادلوں  سے گھبرا کر
گرہنوں  کے  یورش سے
سرد وہ نہیں پڑتا
آس وہ نہینں کھوتا
غرب  کی فضائوں میں ڈوب کر ابھرتا ہے
سنا ہے
چاند کی جوانی میں
ہر طرف سمندر میں
ساحلوں کو چونکانے
اک جوار اٹھتا ہے۔
چاند کی محبت میں
موج بھی مچلتی ہیں۔
ان کی ہر تمنا میں  اضطراب ہوتا ہے
سنا ہے
موسمی تغیر میں
زندگی ہے پھولوں کی
ہر خزاں  بشارت ہے
فصل گل کی آمد کی
ہر کلی کی خوشبو سے
رت پہ رنگ چڑھتا ہے
اوس اور کرنوں سے
روئے گل نکھرتے ہیں۔
نرم و گرم موسم سےگلستاں سنورتا ہے۔
سنا ہے
اس زمیں  کے  عارض پر
اونچے نیچے  پربت پر
اسمان سے ہو کر
روشنی بھی آتی ہے
آڑے ترچھے رستوں سے
روز وہ  گذرتی ہے
لمبی دوریاں طے کر
ہم تلک پہنچتی ہے
اس قدر مسافت ہے  پھر بھی وہ نہیں تھکتی۔
سنا ہے
ندیوں میں، ، نالوں میں
شور  ہے بپا  رہتا۔
ہر شجر کی شاخوں میں
نو بہار  پلتی  ہے۔
بحر کے تلاطم سے
ساحلوں کی رونق ہے
پر سکون دریا بھی
کروٹیں بدلتے ہیں
پربتوں کےسینوں میں
آگ ہے  جلی رہتی
جن کی آنچ کے آگے برف بھی نہیں ٹکتی
سنا ہے
ابر بھی گرجتے ہیں،
آسماں میں ہلچل ہے۔
ہر قدم پہ حملہ ہے
تیز تر ہوائوں کا
پھر بھی دور  رفعت میں
آسماں کی وسعت میں
اڑ رہا ہے  جرئت سے جھنڈ اک عقابوں کا
سنا ہے
وقت کے تقاضون  سے
بجلیاں تڑپتی ہیں۔
تیرگی کے سینے   پر
ضرب  وہ  لگاتی ہیں۔
راستے  بھی  چلتے ہیں
وہ بھی موڑ مڑتے ہیں
ہر تھکے مسافر کو
منزلیں دکھاتے ہیں۔
کتنی ہی مسافت ہو تھک کے وہ نہیں رکتے۔
سنا ہے
ہر مھیب صحرا میں
ظلمتوں سے بے پروا
سرد و گرم موسم میں
ریت کو چمک دینے
چاندنی اترتی ہے۔
پر سکون صحرا میں
ہر طرف بگولے ہیں۔
حادثے ہیں ہر جانب زیست ازمانے کو
سنا ہے
اس زمیں کے نیچے بھی
برف پوش شعلے ہیں،
کوکھ میں پہاڑوں کی
ان گنت جوالے ہیں
برف نے  پہاڑوں کو
خود سے ڈھانپ رکھا ہے
زندگی کہیں پھر بھی منجمد نہیں رہتی۔
سنا ہے

عارضی یہ دنیا ہے
اس نظام فطرت میں
مستقل نہیں کچھ بھی
جو بھی اس میں رہتا پے
ہر گھڑی بدلتا ہے۔
جرم ہے یہاں  رکنا
جرم ہے ٹھر جانا
وقت کو نہیں اتا
غفلتوں کو سہ جانا۔
اس جہان فانی میں
جہد زندگانی میں
کوئی رک نہیں سکتا
اس عجب سی بستی میں
دھڑکنیں تو رکتی ہیں، ساعتیں نہیں رکتیں
کیوں نہ
ہم بھی عزم نو باندھیں
ہم بھی ان سے عبرت لیں
شوخ اور توانا ہو
آدمی کی ہمت بھی
کچھ تو رنگ دکھلائے
مومنوں کی جرئت  بھی
کچھ تو گرم و  تازہ ہو
غیرت مسلماں  بھی۔
خوف سے مقدر کے
جرم ہے ٹھٹھک جانا
آندھیوں سے گھبرا کر
موت ہے سہم جانا
زندگی جو جیتے ہیں موت سے نہیں ڈرتے
کیوں نہ
  پھر سے عہد و پیماں ہو
وقت کو بدلنے کا
پھر سے مضطرب ہوں ہم
اس جہان ہستی میں۔
یہ جمود کیسا ہے؟
یہ سکوت کیسا ہے؟
دھاڑ کیوں نہیں آتی ضیغموں کی بستی سے؟
کیا ہوئے وہ  خورشیدی۔
کیا ہوئے وہ مہتابی؟
قوم کے جوانوں کو
حق کے پاسبانوں کو
کیا کوئی بتائے گا
آج کل ہوا کیا ہے؟
کب کچھارگونجے گا
ان کی  کردگاری سے؟
کب  جمود ٹوٹے گا
زندگی کے نغموں سے؟
کیوں تھکا تھکا سا ہے کاروان حق یارو؟
کیوں نہ پھر سے ہم جاگیں
منجمد سمندر میں
اضطراب لے آئیں
منتشر خیاباں میں
انقلاب  لے آئیں
ہم گلوں کے چہروں پر
پھر سے تازگی لائیں
اس چمن کا ہر گوشہ پھر بہار اگیں ہو
کیوں نہ
پھر سے ہم  بھی  اٹھ جائیں
حوصلے جو مردہ ہیں
کیوں نہ پھر سے زندہ ہوں
ولولے جو ٹھنڈے ہیں
کیوں نہ پھر سے تازہ ہوں ۔
خون پھر رواں کر لو
عزم کو جواں کر لو
عزم کی ہی طاقت سے قسمتیں بدلتی ہیں۔
کیوں نہ پھر سے رت بدلیں
  بے رخی سے  ساقی کی
میکدہ جو ویراں ہے
لذت تغیر سے
ذوق کی لطافت سے
زیست آشنا کردیں ۔
موت کی حقیقت میں
زندگی بھی شامل ہو
پیاس کی حقیقت میں
تشنگی بھی شامل ہو
سوچ میں تپش  لاؤ
نظریئے کو وسعت دو
  میکشوں کی جرئت  سے نظم میکشی  بدلے
کیوں نہ
پھر سے پیش قدمی ہو
لغزشوں میں لذت ہو
ہر قدم میں مستی ہو
زندگی کی ہر لے میں
غیرت و حمیت ہو
ہر ہدف کی چاہت میں
جوش   میں تلاطم ہو
منزلوں کو پانے کا
اک جنون طاری ہو
بے جنوں کے اے یارو منزلیں نہیں ملتیں۔
اس وفا شعاری میں
رہزنوں سے  کیا ڈرنا؟
اب  قدم بڑھاؤ  تم
خود ہی راہبر بن کر
رہبروں کی خواہش میں
دیر  اور  کیا کرنا؟
ٹھوکروں کی شدت  سے
شوق جستجو  لے لو۔
گرم ریگزاروں سے
تم بھی کوئی خو لے لو
ٹھوکروں سے  کیا ڈرنا
موسموں سے کیا ڈرنا
اندھیروں کی ہیبت سے
تھک کے بیٹھ جانا کیا ؟
کاروں کو مت رو کو
راستہ بھی مت بدلو۔
راہ  میں جو حائل ہیں،
،قافلہ جو روکے ہیں
راستے کے یہ پتھر  توڑ کیوں نہیں  دیتے؟
گر  طلب ہے ساحل کی
آرزو ہے منزل کی
خواب کچھ نیا دیکھیں
راہ کچھ نئی پائیں
ظالموں سے  کیا دبنا
موج خوں  سے کیا  بچنا
وقت کے تھپیڑوں سے
ڈر کے رخ بدلنا کیا؟
گر فضا مخالف ہے
ہر طرف رکاوٹ ہے
عہد نو کے دھارے کو موڑ کیوں نہیں دیتے؟
(ایاز احمد اصلاحی)