Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, April 7, 2019

آر ایس ایس سے جنگ میں ہم کیوں نہ اس سپاہی کا ساتھ دیں۔


اتواریہ: شکیل رشید
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)۔صدائے وقت اردو نیوز پورٹل۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
’آر ایس ایس سے کوئی سمجھوتہ نہیں! آخر تک جنگ ہے‘۔
آج کے اس ’زہریلے دور‘ میں آر ایس ایس کے تعلق سے یہ بات وہی کرسکتا ہے جو ’حق ‘کو اپنی زندگی پر مقدم سمجھتا ہو۔ اور ایسے افراد آج اس ملک میں کم ہی کم ہیں۔ ان کم سے کم افراد میں اے جی نورانی سرفہرست ہیں۔ ایک قانون داں اور دانشور کے طور پر وہ مسلسل آر ایس ایس کے ’قوم دشمن‘ چہرے کو عیاں کرتے چلے آرہے ہیں۔ حال ہی میں اس ’پراسرار‘ سمجھی  جانے والی تنظیم یعنی آر ایس ایس پر، جسے اس ملک کا یرقانی ٹولہ سب سے بڑی رفاہی تنظیم قرار دیتا ہے اور جسے مہاراشٹر کے سابق آئی جی ایس ایم مشرف دہشت گرد قرار دے چکے ہیں، اے جی نورانی کی انگریزی میں ایک معرکۃ الآراء کتاب The RSS A Menace To Indiaشائع ہوکر سامنے آئی ہے۔ کتاب اپنے اندر آر ایس ایس کے تعلق سے ایک خزانہ سموئے ہوئے ہے۔ یہ ایک اعلیٰ پیمانے کا ریسرچ ورک ہے اور اے جی نورانی  جیسی کوئی شخصیت ہی اس طرح کا ریسرچ ورک کرسکتی تھی۔ جیسا کہ اوپر تحریر کیاگیا ہے نورانی صاحب ’حق‘ کو اپنی زندگی پر مقدم سمجھتے ہیں یعنی ’حق‘ اور ’سچ‘ بولنے میںانہیں نہ کسی طرح کا خوف محسوس ہوتا ہے او رنہ ہی وہ کسی سے مرعوب ہوتے ہیں۔ اس کتاب کا معاملہ لے لیں؛ اسے ’لیفٹ ورڈ بکس‘ نے شائع کیا ہے، اس کا یہ کہنا ہے کہ کتاب کے اجراء کو رکوانے کےلیے اسے دھمکیاں مل رہی تھیں۔ اور دھمکابھی کون رہا تھا، دہلی پولس!
دہلی پولس کیوں دھمکا رہی تھی؟ اس سوال کا جواب دلچسپ بھی ہے اور اس  جمہوری ملک کے چہرے پر ایک تھپّڑ بھی۔ پولس کے مطابق اجراء کی تقریب ’فرقہ وارانہ‘ تھی اس لیے اجراء نہیں ہوناچاہئے ت]ھ ۔ اس ملک میں آزادی اظہار رائے کا گلا اسی طرح بار بار گھونٹنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ ابھی حال ہی میں مدراس میں ’رافیل سودے‘ پر شائع ہونے والی ایک کتاب کی اشاعت بھی رکوانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ کوشش الیکشن کمیشن کے ایک فلائنگ اسکواڈ نے کی تھی، اسے ’رافیل سودے‘ پر کتاب انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی لگی تھی۔ خیر ، نہ ’رافیل سودے‘ پر کتاب کی اشاعت رک سکی او رنہ ہی نورانی صاحب کی کتاب کا اجرا ء ہی رک سکا۔
نورانی صاحب نے یہ کتاب بھلا کیوں لکھی؟ اس سوال کا جواب وہ یوں دیتے ہیں ’’میں نے یہ کتاب کیوں لکھی جبکہ بہت سے لکھنے والے موجود ہیں؟ اس لیے کہ کچھ بھلے لوگوں نے مجھ سے یہ دریافت کیا تھا کہ بھلا کیوں بی جے پی ایک غیر فرقہ وارانہ قدامت پسند جماعت نہیں بن سکی؟ آر ایس ایس نے کیوں اپنے در غیر ہندوئوں پر وا نہیں کیے؟ ہمیں اپنی مشترکہ تہذیب کو بچانا ہے کیوں کہ یہ ہندوستانی قوم پرستی کی روح ہے۔ اور آج ہندوستان کی روح دائو پر لگی ہوئی ہے اور ہم سب متحد ہوکر اس کے خلاف لڑ رہے ہیں، اس جنگ میں یہ کتاب ایک چھوٹی سی بھینٹ ہے‘‘۔
اے جی نورانی کی عمر ۸۰ سال سے زائد ہے لیکن وہ پورے عزم  اور یقین کے ساتھ آر ایس ایس سے جنگ لڑرہے ہیں کہ ’فتح‘ ملے گی۔ انہیں آج کی ’سیکولر پارٹیوں‘ سے شکایت ہے اس لیے وہ مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنا کوئی ’لائحہ عمل‘ مرتب کریں۔ او ر’لائحہ عمل‘ مرتب کرکے وہ دوسروں کے ساتھ ملک کے مسائل کے حل میں پیش پیش رہیں۔ کیا ہمیں نہیں چاہئے کہ ہم اے جی نورانی کی اس لڑائی میں ان کے سا تھ کندھے سے کندھا ملائیں ؟وہ کسی اور سے زیادہ آر ایس ایس سے یہ جنگ مسلمانوں کےلیے ہی تو لڑرہے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کےلیے حالات ۱۸۵۷ اور ۱۹۴۷ سے زیادہ مخدوش ہیں۔ اور بی جے پی جیتی تو اور مخدوش ہوجائیں گے۔