Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, April 7, 2019

دو فکری انتہاوں کا عذاب۔!!

از/ عمر فراہی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 

  علامہ  اقبال نے قوموں  کی قیادت کا  فلسفہ بیان کیا ہے کہ

نگہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے

لیکن کبھی ان خصوصیات کے بعد  بھی یہ نہیں   کہا جاسکتاکہ قائد اپنی زندگی میں مطلوبہ  منزل تک  پہنچنےمیں کامیاب  ہی ہوجائے  اور کبھی کبھی اگر ایسی شخصیات اور قیادت کو اپنے مقصد میں ناکامی بھی حاصل ہوجاتی  ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے فیصلے میں کوئی نقص  تھا   یا وہ اپنے مقصد میں ناکام ہوگیا ۔افراد کے ناکآم ہونے سے تحریکوں کے مقاصد اور نصب العین کی   ناکامی نہیں کہی جاسکتی ۔رہنما اور قائد بدلتے رہتےہیں یا قتل بھی کردیئے جاتے ہیں لیکن تحریکیں اپنے مقصد کے تئیں آگے بڑھتے رہتی ہیں ۔نبوی تحریک کے ہزاروں سالہ تاریخ سے ہمیں یہی سبق ملتا  ہے جب ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام میں سے اکثر کو شہید کردیا جاتا ہے اور اکثر اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے۔اگر دنیا کو صحیح رخ دینے میں  انسان کے اپنے علم اور ہنر کا اختیار ہوتا تو سارے انبیاء کرام کی جدوجہد کامیاب  رہتی اور  معاشرہ برائیوں سے پاک  ہوجاتا کیوں کہ انبیاء کرام کا ہر ہر قدم احکام الہیٰ سے مربوط تھا مگر ایسا نھیں ہوا اور خود اللہ کو بہت سی سرکش قوموں  کو اپنے بھیجے ہوئے عذاب سے تباہ کرنا پڑا ۔روم کے خلاف جنگ میں اسلامی فوج کی قیادت خود اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت  جعفر بن طیار کو سونپی تھی لیکن اس جنگ میں جعفر طیار کے شہید ہو جانے کے بعد فوجی قیادت کا علم  ایک دوسرے صحابی نے تھام لیا اور پھر  خالد بن ولید نے دشمن پر اپنی  فوج کا رعب اور دبدبہ برقرار رکھتے ہوئے  اسلامی  فوج کے حوصلے کو پست ہونے سے بچا لیا۔کچھ  یہی حال تحریکوں اور قوموں کا ہوتا ہے ۔اٹھارہویں صدی کے جدید  سائنسی انقلاب کے  بعد اور  خاص طور سے ترکی میں سلطنت عثمانیہ اور ہندوستان میں مغلوں کی حکومت کے خاتمے کے بعد تحریک اسلامی کی قیادت کیلئے سید اسماعیل شہید سے لیکرسرسید علی برادران اور  شبلی کے بعد  مولانا ابوالکلام سے لیکر مولانا مودودی جناح اور اقبال کی شکل میں کئی ایسے قوم کے ملاح پیدا ہوئے اور سب اپنی  قوم کا  درد رکھتے تھے  لیکن انیسویں صدی کے حالات نے جس تیزی کے ساتھ  رخ بدلا  علماءکرام کے فکری تضاد نے نہ صرف پوری مسلم قوم کو منتشر کردیا مسلمانوں کا  علاقائی اور  مسلکی اختلاف بھی  کسی عذاب سے کم نہیں تھا ۔مسلمانوں کیلئے اٹھارہ سو ستاون کی بغاوت کے بعد انگریزوں سے مغلوب ہو جانا اتنا بڑا سانحہ نہیں تھا جبکہ بغداد کے مسلمان ہلاکو خان کے حملے  اور تباہی سے گزر  کر بھی دوباہ تاریخ رقم کرچکے تھے ۔ ایک عظیم سانحہ یہ تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے اندر ذات برادری اور مسلک کی  بنیاد پر فرقہ وارانہ عصبیت نے ان  کو کسی قائد کی کمان میں متحد ہی  نہیں ہونے دیا اور امت وسط  اپنے اپنے خود ساختہ  نام نہاد خلیفاؤں کے سحر میں قوم اور تحریک کے تصور سے ہی بیگا‌نہ ہوگئی ۔ضرورت تھی  کہ اسے پھر سے کسی تحریک اور  پرچم کے نیچے جوڑ کر سیاسی قوت پیدا  کرنے کی جراءت  کی جاتی لیکن علماء دین کے فکری تضاد خاص طور سے مغرب  دشمنی میں ان کی جدید ایجاد  سے نفرت اور بغاوت نے مسلمانوں کی قومی قیادت  کو  دو فکری انتہاؤں میں تقسیم  کردیا۔ سر سید کا خلوص کہہ رہا تھا کہ    مسلمانوں کے عروج  کیلئے جدید  تعلیم  کا حصول ضروری ہے۔انہوں  نے مسلمانوں کی ذہنی پسماندگی اور بیماری  کے اس  علاج کی تجویز کے بعد علی گڑھ میں محمڈن اینگلو اورینٹل اسکول کے نام سے ایک اسپتال کی بنیاد رکھی جو اب  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہوچکا  ہے ساتھ  ساتھ  خود کو فلسفی اور مفکر ثابت کرنے کیلئے اپنی متنازعہ تخلیقات   اور تصنیفات  سے علماء  ہند کی مجلس میں باغیانہ رجحان پیدا کرلیا ۔سرسید اور علماء دین کے اسی فکری تضاد نے علماء ہند کو دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھنے پر آمادہ کیا ۔  بلکہ یوں کہا  جائے کہ تمام فکری اور مسلکی تضادات کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں دو بڑے گروہ  جسے ہم لبرل  ترقی پسند اور مولویوں کے نام سے جانتے  ہیں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہو گئے  ۔بدقسمتی سے مسلمانوں کا یہی وہ فکری تضاد  انگریزوں سے تحریک آذادی کے دوران بھی ابھر کر سامنے آیا ۔اس کے برخلاف ہندو لیڈران  اپنے سیکڑوں نظریاتی و فکری تضادات کے بعد بھی ایک پرچم اور  تحریک کے ساتھ  متحد رہے  تو اس لیے کہ وہ صدیوں سے مسلمانوں اور انگریزوں  کی حکومت میں اس احساس کمتری کا شکار رہےہیں  کہ ہندوؤں کی اپنی تہذیب و شناخت کیلئے ہندوستان  میں ان کی اپنی   قیادت اور  حکومت کا   ہونا لازمی ہے  ۔

وہ صرف  اس بات پر متفق تھا کہ کسی طرح ایک بار پھر اقتدار ہندو قوم  کے ہاتھ میں منتقل ہوجائے ۔چونکہ اقتدار  اور حکومت ان کا  نصب العین تھا اس لئے ہندوؤں  کے سرسید  اپنے مقصد  میں بالآخر کامیاب بھی رہے۔  دھیان  رہے کہ ہندوؤں میں یہ بیداری پیدا کرنے کیلئے قرآن جیسی کوئی کتاب  نہیں تھی  بلکہ ایک جنس پر دوسری جنس  کے غلبے کی یہ  ایک فطری سوچ  جو چرند و پرند اور نباتات میں  سے بھی بہت سی دوسری مخلوقات  میں پائی جاتی  ہے ۔یورپ کے یہودیوں عیسائیوں اور بھارت کی  ہندو قوم نے غلبہ دین کے تعلق سے تاریخ کا  یہ بھولا  سبق حالات کے  تھپیڑوں سے سیکھا۔ افسوس  اہل ایمان کے  تقریباً گروہ قرآن و حدیث اور سیرت النبی پر لکھی گئی دسیوں کتابوں کے سیاسی  پیغامات کے  باوجود صرف قرآن کی ایک  آیت وما علینا الاالبلاغ کو ہی اسلام سمجھ لیا ۔وہ  کیا پہچا رہا ہے لوگ  کیا سمجھ رہےہیں اور کم سے  کم آزادی کے بعد اس کی اس دعوت  سے  ہندوستانی سیاست معاشرت اور معیشت   میں کیا  کوئی  مقام بھی حاصل ہوا  اس احتساب کیلئے بھی ہندوستان  میں مسلمانوں کا کوئی طاقتور  ادارہ  یا میڈیا  نہیں ہے جو اپنے ذرائعِ اور  وسائل سے مسلمانوں  کو باخبر کرسکے کہ  موجودہ سیاسی اور معاشی  پس منظر میں اس کا مقام کیا ہے ؟
حال  میں حیدرآباد کے معروف صحافی  رشید انصاری  صاحب نے بی جے پی  کے  خلاف بنائے  گئے سیکولر سیاسی گٹھ بندھن پر  یہ سوال اٹھایا تھا کہ اویسی صاحب  کدھر  ہیں؟
اویسی  صاحب سے ان کی مراد مسلمان  اور مسلم سیاسی پارٹیاں تھیں  جو سیکولرسٹوں کے اس مہا گٹھ بندھن  میں  دور دور تک کہیں نظر نہیں آئے یا ابھی بھی  ہندوستان کی تمام سیکولر  سیاسی   پارٹیاں  اس بات  پر متفق ہیں کہ مسلمانوں کی کوئی ٹھوس سیاسی قیادت نہ ابھرنے پاۓ  !  ۔۔

تعجب ہے دنیا کو وامرھم شوریٰ کی بنیاد پر سیاست  سکھانے کیلئے جنھیں کتاب  دی گئی اب یہی سیاست انہیں اوروں  سے سیکھنا پڑ رہا ہے۔آزادی کے بعد سے آج تک سیاست میں ہماری شرکت اور حصہ داری صرف  یہ ہے کہ اپنے ووٹوں سے فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار سے دور رکھا جائے بس ۔مگر دوسروں نے بھی ہمارا برا ہی کیا !!

عمر فراہی۔۔۔۔