Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, April 7, 2019

امیر جماعت کا انتخاب ، بھارت اور پاکستان کے طریق کار میں فرق۔

از/ خلیل الرحمٰن چشتی/ صدائے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جماعت اسلامی ہند اور جماعت اسلامی پاکستان کے دستور میں امیر جماعت کے انتخاب کا طریقہ مختلف ہے۔

1- پاکستان میں امیر جماعت ، ارکان کی اکثریت سے راست منتخب ہوتا ہے جب کہ بھارت میں بالواسطہ طور پر امیر کا انتخاب مجلس نمائیندگان کے ارکان کرتے ہیں۔

پاکستان کے ارکان کی تعداد 40,000 چالیس ہزار سے زائد ہے۔
جب کہ بھارت میں ان کی تعداد دس گیارہ ہزار ہے۔

پاکستان میں (ایک درمیانی معتمد ادارہ )مجلس نمائندگان نہیں ہے جب کہ
بھارت میں اس کے ارکان کی تعداد ایک سو 100 سے زائد ہے۔
(اب شوری کی تعداد 25 کردی گئی ہے)
یعنی ارکان کا تقریبا 1% ایک فی صد۔

مجلس نمائندگان کے کچھ ارکان کل ہند غیر علاقائی بنیادوں پر منتخب ہوتے ہیں اور کچھ علاقائی بنیادوں پر۔
جب کہ پاکستان میں شوری کے ارکان صرف علاقائی بنیادوں پر منتخب ہوتے ہیں ۔کل پاکستان کی بنیاد پر نہیں۔

2- پاکستان میں شوری کا انتخاب بھی ارکان جماعت خود کرتے ہیں۔  اور ہر ضلع کے لیے ارکان کی تعداد کو پیش نظر رکھتے ہوئے شوری کی تعداد مقرر کی جاتی ہے۔

3- پاکستان کی مجلس شوریٰ ستر 70 سے کچھ زیادہ افراد پر مشتمل ہے۔
جب کہ ہندوستان کی شوری بیس 20 سے کم ارکان پر۔

بھارت میں مرکزی شوری کا انتخاب بھی مجلس نمائندگان کرتی ہے ، جب کہ پاکستان میں مرکزی شوری کا انتخاب بھی علاقائی بنیادوں پر ارکان ہی کرتے ہیں ۔

4- پاکستان کا امیر پانچ سالوں کے لیے اور بھارت کا امیر چار سالوں کے لیے منتخب ہوتا ہے۔

5- پاکستان کے دستور میں تین کا تذکرہ تو نہیں ، لیکن اس کی روایات یہی ہیں کہ شوری ، امیر کے لیے تین ناموں کو تجویز کرتی ہے اور ارکان کو اختیار ہوتا ہے کہ تین کے علاؤہ بھی کسی رکن کو ووٹ دیں۔ لیکن امیر ان تین میں ہی سے کوئی منتخب ہوتا ہے۔

بھارت کی مجلس نمائندگان ،  پیش کیے گئے تمام ناموں پر غور کرتی ہے اور پھر ان کر باہر بھیج کر ان کی غیر موجودگی میں ان کی عیب و ہنر ، خامیوں اور خوبیوں کا جائزہ لے کر کثرت رائے سے فیصلہ کرتی ہے۔

یہ مجلس نمائندگان امیر کا انتخاب بھی کرتی ہے اور مرکزی شوری کا بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ملک کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔
ترجیحات بھی مختلف ہوتی ہیں۔
کہیں معیار کی اہمیت ہوتی ہے اور کہیں مقدار کی۔
حکمت عملی مختلف ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔
حکمت عملی میں تبدیلیاں لازمی بھی ہیں اور ضروری بھی۔
جس جماعت میں جمود ہو ،  وہ اپنے آپ کو تحریک نہیں کہ سکتی۔
نئی سوچ ، نئے راستے ، نئی کھڑکیاں اور نئے دروازے نئی دنیا کے مناظر دکھا سکتے ہیں ، جو ابھی عالم امکان میں ہے۔

ان فی ذلک لعبرة لمن یخشی

اس سال تین معیادوں کے بعد بھارت میں بھی تبدیلی آئی ہے اور پاکستان میں بھی سراج الحق صاحب دوبارہ امیر منتخب ہوگئے ہیں۔
اللہ ان سے کام لے۔

پاکستان کے لیے ہماری تجاویز :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کئی سالوں سے طریق کار کی تبدیل کے بارے میں اپنی تجاویز پیش کررہے ہیں۔

1- شوری ، امیر کے لیے تین کے بجائے دس بارہ نام دے۔

2- جن کا نام پیش کیا جائے ، وہ ویڈیو پیغام کے ذریعے ارکان کو بتائیں کہ اگر وہ منتخب ہوجائیں تو اگلے پانچ سالوں میں کیا کچھ کرنے کی کوشش کریں گے ؟ ان کا وژن کیا ہے ؟

شرعی طور پر یہ غلط ہے کہ کوئی رکن خود امیدوار بنے لیکن
اگر اسے نامزد کیا جائے تو وہ بتائے کہ وہ کیا کرسکتا ہے۔ یہ غیر شرعی نہیں۔ شوری کی طرف سے نامزد تمام دس بارہ امیدوار اگر الکشن کمیشن کے ایک سوال نامے کا جواب  تحریرا یا ویڈیو کے ذریعےدیں تو  یہ مطابق شرع ہوگا۔

3-  مرکزی شوری میں رٹائرڈ جرنیل ، جج ، ماہرین اقتصادیات۔ ماہرین شریعت ، مفکرین ، دانشور ،  علماء  ، مفسرین ، محدثین اور فقہا ء کی سیٹیں مختص کی جائیں ، تاکہ مرکزی شوری  صرف قومی اسمبلی ( لوک سبھا) House of Commons نہ بن جائے ، بلکہ سینیٹ ، راجیہ سبھا House of Lord's کی طرح ارباب دانش، اہل الحل و العقد ، ارباب بست و کشاد ، اور صاحب الرائے افراد پر مشتمل ہو۔

خلیل الرحمٰن چشتی
7اپریل 2019ء