Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, April 3, 2019

مسلمانوں کو قائد کی ضرورت ہے ،، دلال کی نہیں۔


حفیظ نعمانی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ہم نے الیکشن سے چند روز پہلے ہی صورت حال کو دیکھتے ہوئے صاف صاف لکھ دیا تھا کہ آنے والے الیکشن ملک کی تاریخ کے سب سے اہم الیکشن ہیں اس موقع پر اگر کسی نے مسلمان ووٹ اور مسلمان اُمیدوار کی بات کی تو ہم معاف نہیں کریں گے۔ یہ بات ہم نے اس کے باوجود لکھی تھی کہ ہم سب سے زیادہ قیادت کی کمی کو محسوس کررہے ہیں اور ہم نے ہی 17 مارچ کو لکھا تھا کہ 1948 ء میں مولانا آزادؒ نے لکھنؤ میں مسلم کانفرنس بلاکر مسلمانوں سے کہا تھا کہ اب وہ اپنی کوئی تنظیم نہ بنائیں اور جمعیۃ علماء سے کہا تھا کہ وہ اب سیاست کو چھوڑکر مسلمانوں کی تعلیم پر توجہ دے۔ جس پر عمل کرتے ہوئے جمعیۃ علماء نے جماعت کے طور پر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی اور جو سیاست میں ہی رہنا چاہتے تھے جیسے مولانا حفظ الرحمان، مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی، مولانا اسماعیل سنبھلی، مولنا عبدالسمیع، مولانا منظور نعمانی خان جہاں پوری وغیرہ وہ سیاست میں رہے۔
اور ہم نے یہ بھی لکھ دیا تھا کہ 18 سال کے بعد ہی مولانا حفظ الرحمان نے اندازہ کرلیا تھا کہ سیاست سے کنارہ کشی اب ٹھیک نہیں ہے اور آل انڈیا مسلم کنونشن بلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ مولانا کینسر کے مرض کا مقابلہ نہ کرسکے اور اپنے مولا کے پاس چلے گئے۔ ان حوالوں کے بعد ہم نے جمعیۃ علماء سے درخواست کی تھی کہ وہ اب قیادت اپنے ہاتھ میں لے لے۔ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ مولانا ارشد میاں مدنی جو کام کررہے ہیں وہ پورے ملک کے مسلمانوں میں کوئی نہیں کررہا ابھی چند روز ہوئے انہوں نے مظفرنگر کے فساد زدگان کو 80 مکانوں کی چابیاں سپرد کی ہیں اور ان بدنصیبوں کی تعداد بھی 100 سے زیادہ ہوچکی ہوگی جن کو فرضی دہشت گردی کے الزام میں برسوں سے جیل میں ڈال رکھا تھا ان کو مولانا ارشد میاں نے آخری عدالت تک سے رِہا کرانے میں کروڑوں روپئے خرچ کئے ہوں گے اور مولانا نے کبھی نہیں کہا کہ مسلمان کسے ووٹ دیں اور کسے نہ دیں یا کون پارٹی کس مسلمان کو ٹکٹ دے اور کسے نہ دے۔
دو دن پہلے ایک حقیر پارٹی جو اپنے نام کے ساتھ علماء کا تمغہ بھی لگائے ہوئے ہے اور جو برسوں سے سیاسی پارٹیوں کی دلالی کررہی ہے ۔ اسے شکایت ہے کہ اُترپردیش میں متحدہ محاذ بناتے وقت کسی مسلمان پارٹی سے معلوم نہیں کیا کہ وہ مسلمانوں کیلئے کتنی سیٹیں مانگ رہی ہے؟ اس لئے اس نے ہمیشہ کی طرح اعلان کردیا ہے کہ وہ 30 سیٹوں پر اُمیدوار کھڑے کرے گی۔ ایک اور پارٹی اتحاد المسلمین ہے جس کے چیف اسدالدین اویسی  ہیں۔ انہوں نے الیکشن سے پہلے کہا تھا کہ وہ اُترپردیش سے بھی ایک سیٹ پر الیکشن لڑیں گے۔ لیکن کسی کے سمجھانے سے انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اُترپردیش میں کسی کو نہیں لڑائیں گے۔ اویسی خود ممبر پارلیمنٹ ہیں ان کے بھائی ایم ایل اے ہیں تلنگانہ میں ان کی پارٹی کے سات ممبر ہیں ملک میں وہ کئی جگہ الیکشن لڑچکے ہیں اورنگ آباد میں کارپوریشن پر ان کا قبضہ ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے خاموشی اختیار کرلی۔
ہمارے سامنے جس پارٹی کی خبر ہے اس کا نہ کوئی ایم پی ہے نہ ایم ایل اے اور شاید اعظم گڑھ کا چیئرمین بھی نہیں۔ اعظم گڑھ کے کئی ممتاز حضرات نے اس پارٹی کے بنانے والوں کی پوری تفصیل بتادی ہے اور ہر الیکشن میں وہ جو کرتے ہیں وہ بھی سامنے آجاتا ہے اس کے باوجود پھر یہ کہنا کہ اتنے یہاں سے اور اتنے وہاں سے کھڑے کریں گے جن میں وہ اکھلیش بھی ہیں جن کو شری عامر رشادی کی حقیقت بتانے والے سیکڑوں ہیں ان کے مقابلہ پر کھڑا کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ بڑے لیڈر ہیں وہ ڈرکر موٹی رقم دے دیں گے۔
ہم ان سے یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اب الیکشن کو کاروبار بنانے کے بجائے کوئی کاروبار کرلیں اور اپنے عظیم والد ماجد کی روح کو نہ تڑپائیں۔ مولانا ارشد مدنی نے آج تک کبھی نہیں کہا کہ انہوں نے مظفرنگر میں کتنے مکان بناکر دیئے ہوسکتا ہے وہ دو سو سے بھی زیادہ ہوں اور کتنے کروڑ روپئے خرچ کرکے کیرالہ کے قیامت خیز سیلاب میں کتنے مکان بناکر دیئے اور کتنے مکانوں کی مرمت کرائی نہ انہوں نے کبھی اس کا ذکر کیا کہ انہوں نے پورے ہندوستان میں کتنے مسلمانوں کو باعزت رِہا کرانے میں کتنے روپئے خرچ کئے اور کتنے مقدمے زیرسماعت ہیں اور نہ یہ کبھی بتایا کہ بابری مسجد کے مقدمہ میں کتنے کروڑ روپئے وہ خرچ کرچکے۔ شری عامر یہ بتائیں کہ انہوں نے کیا کیا ہے اور مسلمانوں کی قیادت کا دعویٰ کرنے سے پہلے اپنی صورت آئینہ میں دیکھ لیں۔
ہم بھی مانتے ہیں کہ مسلمانوں کو قیادت کی ضرورت ہے لیکن قائد گلی گلی آواز لگاتے نہیں گھومتے ہیں کہ قیادت کرالو یہ تاریخ ہے کہ مسٹر جناح مایوس ہوکر لندن چلے گئے تھے پھر جب مسلم لیگ کے تمام لیڈروں نے محسوس کیا کہ جناح صاحب کو بلایا جائے تب ان کے بلانے پر وہ آئے اور قیادت ہاتھ میں لی یہ فیصلہ ٹھیک تھا یا غلط بہرحال حقیقت ہے۔ کبھی کسی کو مانگنے سے قیادت نہیں ملا کرتی مودی کو آر ایس ایس نے قیادت دی ہے۔ مسلمان بھی جب تک اجتماعی طور پر درخواست نہیں کریں گے مولانا ارشد میاں تیار نہیں ہوں گے۔ اور وہ اب تک اگر خاموش ہیں تو اس لئے کہ ہر شہر میں چھوٹے چھوٹے دلال بیٹھے ہیں اور دشمنوں سے پیسے لے کر ووٹ فروخت کرتے ہیں یا دوسرا کام یہ ہے کہ اُمیدوار کھڑے کرو اور مسلمانوں کے ووٹ متحدہ محاذ کے بجائے خود لے لو اب اگر مسلمان نے مسلمان آزاد کو یا کانگریسی مسلمان کو ووٹ دیا تو اس نے اپنے خلاف ووٹ دیا۔ ہر مسلمان کو آنکھ کھول کر ووٹ دینا چاہیٸے