Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, April 3, 2019

اردو کے ممتاز شاعر ، فلم ساز اور ہدایت کار " سرور بارہ بنکوی کے یوم وفات کے موقع پر خراج عقیدت

سرور بارہ بنکوی
تاریخ وفات۔۔*- ٣ / اپریل / ١٩٨٠*/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
*سرورؔ بارہ بنکوی* کا اصل نام *سعید الرحمٰن* تھا۔ وہ  *30 جنوری 1919ء*  کو *بارہ بنکی (یو پی۔)* میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ملک کے بعد پہلے کراچی اور پھر ڈھاکا میں سکونت اختیار کی۔جہاں انہوں نے فلم تنہا کے مکالمے لکھ کر اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا اور پھرچندا، تلاش، ناچ گھر، کاجل ، بہانہ، ملن، نواب سراج الدولہ، تم میرے ہو، آخری اسٹیشن،چاند اور چاندنی، احساس، سونے ندیا جاگے پانی اور کئی دیگر فلموں کے نغمات لکھے جو بہت مقبول ہوئے اسی دوران انہوں نے تین فلمیں آخری اسٹیشن، تم میرے ہو اور آشنا پروڈیوس اور ڈائریکٹ بھی کیں۔
آخری دنوں میں وہ بنگلہ دیش کے اشتراک سے ایک فلم *’’کیمپ 333‘‘* بنانا چاہتے تھے۔ وہ اسی سلسلے میں ڈھاکہ گئے ہوئے تھے کہ دل کا دورہ پڑنے کے باعث *3 اپریل 1980ء* کو *ڈھاکہ* میں وفات پاگئے۔
*سرورؔ بارہ بنکوی* کے دو شعری مجموعے *سنگِ آفتاب* اور *سوزگیتی* کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔
  سرورؔ بارہ بنکوی کےمنتخب اشعار
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
---
ہم لوگ نہ الجھے ہیں نہ الجھیں گے کسی سے
ہم کو تو ہمارا ہی گریبان بہت ہے
---
یہی نہیں کہ مرا دل ہی میرے بس میں نہ تھا
جو تو ملا تو میں خود اپنی دسترس میں نہ تھا
---
*چمن والوں کو رقصاں و غزل خواں لے کے اٹھی ہے*
*صبا اک اک سے تائید بہاراں لے کے اٹھی ہے*
---
اے جنوں کچھ تو کھلے آخر میں کس منزل میں ہوں
ہوں جوار یار میں یا کوچۂ قاتل میں ہوں
---
مدتیں ہوئیں اس نے آنکھ بھر کے دیکھا تھا
پھر رہی ہیں وہ آنکھیں آج تک نگاہوں میں
---
*تیرے مے خانوں کی اک لغزش کا حاصل کچھ نہ پوچھ*
---
نہ کسی کو فکرِ منزل نہ کہیں سراغِ جادہ
یہ عجیب کارواں ہے جو رواں ہے بے ارادہ
---
آرزو جن کی ہے ان کی انجمن تک آ گئے
نکہتِ گل کے سہارے ہم چمن تک آ گئے
---
*زندگی ہے آج تک گردش میں پیمانوں کے ساتھ*
*تو عروسِ شام خیال بھی تو جمالِ روئے سحر بھی ہے*
---
بتائیے کف محبوب دست قاتل کو
لہو کے داغ کو گل کارئ حنا کہیے
---
یہ طلسم حسنِ خیال ہے کہ فریب تیرے دیار کے
سر بام جیسے ابھی ابھی کوئی چھپ گیا ہے پکار کے
---
*یہ ضرور ہے کہ بہ ایں ہمہ مرا اہتمامِ نظر بھی ہے*
---
دست و پا ہیں سب کے شل اک دستِ قاتل کے سوا
رقص کوئی بھی نہ ہوگا رقصِ بسمل کے سوا
---
*اک زمانہ ہو گیا بچھڑے ہوئے جس سے سرورؔ*
*آج اسی کے سامنے ہوں اور بھری محفل میں ہوا۔